سب پہ بھاری کی الٹی گلے پڑی چال


میڈیا پر آج کل ہر طرف آصف علی زرداری کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ایسے ایسے سینئر تجزیہ کار جنہوں نے تیس تیس اور چالیس چالیس سال سیاست اور صحافت کی خاک چھانی ہے ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں کہ کس طرح ان کی حکمت عملی نے عمران خان کو شہ مات دی۔ ایسے جغادری دانشوروں سے اختلاف کی جسارت گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے اس لیے ڈرتے ڈرتے چند گزارشات عرض ہیں۔

اگر ہم حالیہ سیاسی بحران میں تمام فریقین کے کردار کا بہ نظر انصاف جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ ان سب کے پیش نظر ملک اور قوم بہتری نہیں بلکہ اپنی ذات، اپنا خاندان، اپنی پارٹی اور اپنے ادارے کے مفادات کا تحفظ تھا۔ زرداری صاحب نے بھی عدم اعتماد اور عمران خان کی برخواستگی کی بساط اسی لیے بچھائی تھی کہ نئے سیٹ اپ میں طاقتور ادارے سے معاملہ بندی اور قربت کا تاثر دے پنجاب کے الیکٹیبلز کو رجھا سکیں، پھر ہوا کا رخ پہچاننے والے یہ پنچھی جب ان کی جماعت کا رخ کریں گے تو سندھ کے دہی علاقوں تک محدود ہوتی پیپلز پارٹی ایک بار پھر قومی منظر نامے پر چھا جائے گی۔

نہایت مہارت سے ترتیب دیے گئے اس گیم پلان کی بنیاد دو مفروضوں پر تھی۔ اول یہ کہ عمران خان اقتدار سے محروم ہو کر ایسے بے دست و پا ہوں گے کہ پھر اٹھائے نہ اٹھیں گے اور اپنی مجروح انا کے ساتھ تاریخ کے کوڑے دان کی نظر ہوجائیں گے، اس کے بعد جب ان کی جماعت تتر بتر ہو جائے گی تو یہ مال غنیمت پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گا۔ دوم یہ کہ مریم نواز کے زیر قیادت مسلم لیگ کا اسٹیبلشمنٹ مخالف دھڑا فوج کے ساتھ وسیع البنیاد مفاہمت کی مخالفت کرے گا اور یوں زرداری صاحب کی اقتدار تک رسائی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔

مگر برا ہو ہماری متلون مزاج قوم جو کل تک خان کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتی تھی وہ آج ان کی سازش والی تھیوری کو ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہے۔ یہ بات تو خان کے خلاف متحد عالی دماغوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ ان کا ضدی اور انا پرست مخالف جب سب کچھ ہار کر وزیر اعظم ہاؤس سے باہر نکلے گا تو عوام کا جم غفیر اس کی حمایت میں کھڑا ہو جائے گا۔ اب اس عمل کی لاکھ تاویلات پیش کی جائیں اور جی کے بہلانے کو جتنے بھی مفروضے گھڑے جائیں حقیقت یہی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو گا اور حکومت میں شامل اتحاد کی مشکلات بڑھیں گی۔

ادھر عمران خان کی تحریک کو ملنے والی بھرپور عوامی پذیرائی نے جہاں ان کے ووٹ بنک کو مضبوط اور پارٹی کو متحد رکھا وہیں مسلم لیگ کی قیادت کے ہاتھ پاؤں بھی پھلا دیے ہیں، اس جماعت کے لیے اب دو محاذوں پر لڑائی مشکل ہو گئی ہے بلکہ حکومت میں آ جانے کے بعد تو نا ممکن۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ مریم کی قیادت میں پارٹی کی اسٹریٹ پاور اب اپنی توپوں کا رخ عمران کی طرف ہی رکھے گی یوں شہباز شریف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔

ظاہر ہے اس حالت میں پیپلز پارٹی کو کون پوچھے گا۔ آثار یہی ہیں کہ جلد یا بدیر جب بھی الیکشن ہوئے مسلم لیگ یا تحریک انصاف میں سے کوئی ایک جماعت حکومت بنائے گی اور دوسری اپوزیشن، رہی پیپلز پارٹی تو وہ جہاں کھڑی ہے وہیں رہے گی۔ انگریزی والے بیسٹ کیس سناریو میں بھی بہت ہوا تو سندھ حکومت مل جائے گی تو وہ تو ابھی بھی ہے۔ یوں زرداری صاحب کی اس ساری تگ و دو اور اتنی بڑی انویسٹمنٹ پر کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ کالا کرنے والا محاورہ صادق آتا ہے

سندھ میں بھی صورتحال اب شاید اتنی موافق نہ رہے۔ زرداری صاحب کی سیاست نے یہاں ان کے مخالف مینڈیٹ کو متحد کر دیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں منقسم ہونے والا شہری مینڈیٹ ماضی میں جس جماعت سے وابستہ تھا اس کے لسانی پس منظر اور متشدد سیاست کی وجہ سے ان کی شکایات کو ملک میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملتی تھی۔ اب ایک قومی جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد انہیں جو قوت ملے گی اس کی جھلک قومی اسمبلی میں زرداری صاحب کی متعصبانہ تقریر کا جواب ہے جو علی محمد خان نے دیا۔

عمران خان کے شخصی خصائل اور ذہنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھیں تو زرداری صاحب کے بچھائے ہوئے جال سے اس کا بچ نکلنا اور پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر واپس آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ کتاب حکمت سے رجوع کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک چال انسان چلتا ہے اور ایک چال اللہ چلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments