دیس میں ان کا چاند کب نکلے گا؟


ڈیئر پروفیسر، سلام

سورج کی حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دن کے اوقات میں درجہ حرارت چالیس ڈگری تک پہنچ جاتا ہے مگر سیاسی سطح پہ سورج نصف النہار پہ پہنچ چکا ہے۔ یہ گرما گرمی اور کتنا قہر ڈھائے گی ابھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ ماہ رمضان میں جسمانی کمزوری کے ساتھ برداشت میں اتنی کمی واقع ہو چکی ہے ہر کوئی بات بے بات لڑنے مرنے پہ تلا بیٹھا ہے۔ روزے کا مقصد اپنے اندر صبر و برداشت پیدا کرنا اور اپنے نفس پہ قابو پانا ہے مگر جو ہو رہا ہے وہ اس کا الٹ ہے۔ بقول فیض

اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شہ تھی حرام
اب وہی دشمن دیں راحت جاں ٹھہری ہے

ہم نے سوچا کہ بتان اہل حرم جب تلک باہم دست و گریباں ہیں تو کچھ احوال ان کا بھی جو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ جن کی ہر شب شب سیاہ ہے اور دن کا داغ دار اجالا تیر کی طرح آنکھوں میں کھبتا ہے۔ جن کی زندگی صبح و شام کرتے تمام ہوتی ہے اور حسرت ناتمام سے شرما کر صبا بھی منہ چھپا کر گزر جاتی ہے۔ جہاں

روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم
گراں ہے دل پہ غم روزگار کا موسم
فیض

اشیا ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ماہ مقدس میں سبزی اور پھل عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں۔ گاہک مفقود مگر قیمت کم نہیں ہوتی۔ دکاندار سے شکوہ کرو تو کہتا ہے ہمیں آگے سے مہنگا ملا ہے قیمت گھٹائیں تو بھوکے مر جائیں گے۔ اب آدمی کس کا یقین کرے اور کس کا نہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ مانا کہ دنیا بھر میں مہنگائی کی لہر آئی ہے مگر وہاں آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ بیروزگاری الاؤنس ملتا ہے۔ سینئر شہریوں کو حکومت پنشن دیتی ہے۔ جس کی مقدار کا تعین دوران ملازمت ٹیکس کی کٹوتی سے کیا جاتا ہے۔ یعنی گزر اوقات ہو جاتی ہے۔

کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں مڈل کلاس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے حجم کی بنا پر فیصلہ سازی میں اس کے ووٹ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ یہاں مڈل کلاس دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔ بدحالی عروج پہ ہے۔ پچاس ہزار ساٹھ تنخواہ پانے والا بھی یہی سوچتا ہے کہ ننگی کیا نہائے اور کیا نچوڑے؟ فی الحال تو لوئر کلاس کی بات کرتے ہیں جس کی تعداد روز افزوں ہیں۔ ایک کمانے والا اور اوسطاً چھ افراد کھانے والے۔ روٹی کپڑا اور سر پہ چھت بنیادی ضروریات ہیں مگر ایک وقت میں ان تینوں کا حصول کس قدر دشوار ہے مت پوچھیے۔ بندہ مزدور کے تلخ اوقات دیکھ کر بے اختیار لبوں پہ آتا ہے

تو قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

مہرالنساء گھریلو ملازمہ ہے۔ تنخواہ پچیس ہزار روپے اور گھر میں تیرہ افراد ہیں۔ دو لڑکے بھی ملازمت کرتے ہیں ایک کی تنخواہ اٹھارہ ہزار اور دوسرے کی سولہ ہزار ہے۔ کورنگی میں سولہ ہزار کرائے کے گھر میں رہائش ہے۔ ایک بیٹا نشئی ہے کوئی کام کاج نہیں کرتا اس کے چار بچوں اور بیوی کی ذمہ داری بھی یہ تینوں اٹھاتے ہیں۔ دوسرا لڑکا بھی شادی شدہ ہے اس کے دو بچے ہیں۔ دو پوتیاں اسکول جاتی ہیں ان کا خرچہ الگ۔ کوئی لڑکا دس جماعت سے آگے نہیں پڑھ پایا۔ بائیس سالہ بیٹی کی شادی کی فکر الگ لاحق رہتی ہے۔ عمر پچاس برس ہوگی مگر آئے دن کی پریشانیوں کی وجہ سے صحت اچھی نہیں۔ رات دن ان ہی سوچوں میں گم رہتی ہے کہ بستر پکڑ لیا تو اتنے افراد کی گزر بسر کیسے ہو گی؟

خدا بخش ڈرائیور کے پانچ بچے ہیں۔ کٹی پہاڑی کے علاقے میں رہتا ہے۔ تعلق کرم ایجنسی سے ہے اس کی تنخواہ تیس ہزار ہے۔ گھر کا کرایہ دس ہزار ہے کھانا پینا مالکان کے ذمے ہے۔ ہفتے میں ایک دن گھر جاتا ہے۔ کرائے کی رقم نکال کر چھ افراد کا پیٹ محض بیس ہزار میں بھرنا کتنا مشکل کام ہے یہ اس کا دل ہی جانتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی بچہ اسکول بھی جاتا ہے؟ آہ بھر کر کہنے لگا بی بی ہم غریب لوگ بچوں کو پڑھائیں یا پیٹ پالیں؟ کہاں پڑھا سکتے ہیں۔

دین محمد چوکیدار تعلق وہاڑی سے ہے۔ پہلے کسی سیکیورٹی کمپنی میں ملازم تھا۔ دن میں بارہ گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ فقط سولہ ہزار روپے ملتا تھا۔ کمپنی نے ایک کمرہ آٹھ افراد کو دے رکھا تھا۔ اپنی ڈیوٹی کے حساب سے چار دن میں سوتے چار رات میں۔ کھانا پینا سب اپنی جیب سے۔ کمپنی بند ہو گئی اور یہ بے روزگار۔ اب جہاں نوکری کرتا ہے وہاں اسے پچیس ہزار ماہانہ ملتے ہیں۔ وہیں رہتا ہے۔ گاؤں میں اس کے چھ بچے اور بیوی کے علاوہ دو بوڑھے ماں باپ کی کفالت بھی اس کے ذمے ہے۔ عید بقرعید جو کپڑے مالکان سے ملتے ہیں ان میں ہی سارا سال گزارتا ہے۔

شمیم ایک جز وقتی ملازمہ تعلق ہزارہ سے ہے۔ تین گھروں میں جھاڑو پوچا، کپڑے دھونا اور استری وغیرہ کا کام کرتی ہے۔ تیس ہزار مہینہ کماتی ہے۔ پانچ بچے ہیں۔ شوہر دیہاڑی دار مزدور ہے۔ کنسٹرکشن کا کام ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اکثر گھر بیٹھا رہتا ہے۔ صبح آٹھ بجے کام پہ پہنچ جاتی ہے اور چار بجے سے پہلے فارغ نہیں ہوتی۔ دو بسیں بدل کر چھ بجے سے پہلے گھر نہیں پہنچتی۔ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں رہتی ہے۔ گھر کا کرایہ بارہ ہزار روپے ہے۔ ٹرانسپورٹ کا خرچہ الگ۔ دھان پان سی عورت ہے آٹھ گھنٹے میں جوڑ جوڑ دکھنے لگتا ہے مگر کام نہ کرے تو فاقہ کشی کی نوبت آ جائے۔

سولہ سالہ ولی محمد دیکھنے میں بمشکل تیرہ چودہ سال کا لگتا ہے۔ سکھر کے نواحی گوٹھ کا رہنے والا ہے۔ نو چھوٹے بہن بھائی ہیں۔ یہ تمام افراد کسی کچی بستی کے دو کمرے کے تنگ و تاریک مکان میں رہتے ہیں۔ کمائی کرنے کے قابل صرف دو افراد یعنی یہ اور اس کا والد۔ پہلے کسی فیکٹری میں پریس کا کام کرتا تھا وہاں سے چھٹی ہو گئی تو والد کے ایک دوست نے گھریلو ملازم رکھوا دیا۔ گو کام ہلکا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس کی عمر ہے کام کرنے کی؟ یہی سوال اس کے والد سے کیا تو کہنے لگا اکیلی کمائی میں پورا نہیں پڑتا۔ دو کمائیوں میں بھی بمشکل گزر بسر ہوتی ہے۔ یہ بچہ اپنے گھر جانا نہیں چاہتا بقول اس کے کہ وہاں تو چلنے کی بھی جگہ نہیں۔

یہ چار پانچ کی نہیں کروڑوں افراد کی کہانی ہے جن کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔ ان کے پاس روزگار تو ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو اس سے بھی محروم ہیں۔ ان حالات کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ وہ کس حال میں ہوں گے۔ پچھلے دس دن کی سیاسی دھینگا مشتی دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان پسے ہوئے طبقات کا والی وارث کون ہے؟ یہ بھی اس ملک کے باسی ہیں، ان کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ ان میں سے کسی کے بچے گورنمنٹ کے اسکول بھی نہیں جا پاتے۔ جن کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تن پہ کپڑا نہیں وہ کتابیں کاپیاں کیسے خریدیں؟ دکھ بیماری میں دوا دارو کیسے کریں؟

تعلیم نہیں ہنر نہیں روزگار نہیں اور منہ پھاڑ کر یہ کہنا کہ یہ بریانی کی ایک پلیٹ پر بک جاتے ہیں۔ ارے ظالمو غریب آدمی کو تو چاند بھی روٹی ہی نظر آتا ہے۔ یہ تو اپنی مجبوری بیچتے ہیں اور خریدار کون ہے؟ یہ نظام اور اس کے گماشتے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کون آتا ہے کون جاتا ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی طویل شب انتظار تو گزرنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ یہ تو حسرت و یاس کی تصویر بنے یہی سوچتے رہتے ہیں کہ

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

حقوق ملتے تو حقوق کا ادراک ہوتا۔ انہیں پتہ ہی نہیں حقوق کس چڑیا کا نام ہے۔ ہر الیکشن سے پہلے انہیں سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں مگر بعد میں کوئی نہیں پوچھتا۔ پانی نہیں، گیس نہیں، بجلی گھنٹوں غائب رہتی ہے مگر بل آتا ہے۔ سیوریج کا نظام اتنا ناقص کہ گلیوں میں گٹر ابلتے رہتے ہیں اور چلنا دوبھر ہو جاتا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کا وعدہ ہر سیاسی پارٹی کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وعدہ وفا نہیں ہوتا۔ مسائل میں گھرے لوگ شکایات لے کر کدھر جائیں؟ بلدیاتی نمائندگان کا رابطہ علاقے کے لوگوں سے رہتا ہے۔ انہیں اپنے علاقے کے مسائل سے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی بنسبت زیادہ واقفیت ہوتی ہے اگر وہ کام نہیں کرتے تو اگلے الیکشن میں کامیابی کا امکان نہیں رہتا۔ مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے پل کے نیچے سے پانی بہنے ہی نہیں دیتے۔ بلدیاتی نمائندگان کے تمام اختیارات اوپر ٹرانسفر کر دیے گئے، کس قانون کے تحت؟ یہ سوال پوچھنا گناہ ہے۔ حکومت سیاسی ہو یا آمرانہ ان کے حالات نہیں بدلتے تو ان میں سیاسی شعور کیسے آئے؟

عزیز من مذکورہ حالات کسی گاؤں یا دیہات کے نہیں اس ملک کے سب سے بڑے شہر کے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو بے طرح پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ یہاں کی آبادی تین کروڑ سے کسی طور کم نہیں پر کاغذوں پہ کیا ہے؟ اس بات کو جانے دیجیئے۔ گاؤں یا دیہات میں کیا حالات ہیں یہ تو وہاں کے لوگ ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر جن افراد کی یہ کہانیاں ہیں ان میں سے اکثریت کا یہی کہنا ہے کہ اگر وہاں حالات بہتر ہوتے تو ہم پردیس کیوں کاٹتے۔ پروفیسر لفظ پردیس پہ دل کٹ کے رہ گیا کہ یہ دیس میں بھی پردیسی ہیں! اور دیس میں ان کے لیے چاند کیوں نہیں نکلتا؟ وقت افطار ہو چلا ہے ہم چلے اس سوچ کے ساتھ کہ ان کا روزہ کون کھلوائے گا۔ سیاسی دنگل سے فرصت ملے شاید تو کوئی ان کے بارے میں سوچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments