ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے لندن میں نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف سے اہم نوعیت کے ملکی معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں قائدین نے مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا تھا عمران خان یوٹرن کا ماہر شخص ہے۔ آج وہ ایک بات کرتا ہے۔ اور کل اس سے پھر جاتا ہے۔ اس طرح کی فطرت کا شخص ملک اور قوم کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ آج پاکستان جس معاشی اور معاشرتی تنزلی کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عمران خان کی تضاد پر مبنی شخصیت ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اندر کوالٹی لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ساڑھے تین سال کے دور اقتدار میں ہر شعبہ زندگی میں تباہی پھیر کر رکھ دی ہے۔

ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا یوٹرن مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو اپنی غلطی قرار دینا ہے۔ موصوف کا یہ اعتراف انتہائی افسوس ناک اور حیران کن ہے۔ ایک ایٹمی ریاست چلانے کا کیا معیار قائم کر رکھا تھا جناب عمران خان نے۔ وہ ملک کے انتظامی سربراہ تھے۔ ان کے دور حکومت میں وفاقی کابینہ کے ریکارڈ اجلاس ہوئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ صدارتی ریفرنس کا ہر پہلو سے جائزہ نہ لیا گیا ہو۔

بہرحال ایک سال سے زیادہ عرصہ تک چلنے والے اس کیس کی وجہ سے نہ صرف سپریم کورٹ کے دس جج صاحبان کا قیمتی وقت برباد ہوا۔ بلکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ تقریباً ́ ایک سال تک سپریم کورٹ اور ایف بی آر کے دھکے کھاتی رہیں۔ کیا سابق وزیراعظم کو جو ملکی حالات سے خاصے باخبر رکھے جاتے تھے۔ انہیں مسز سرینا عیسیٰ کی یہ تھکا دینے والی مشقت دکھائی نہیں دی۔ یہ علیحدہ بات ہے۔ کہ سابق حکومت کی طرف سے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے کے باوجود کیس کا فیصلہ قاضی صاحب کے حق میں ہوا۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن کے انکشافات نے بھی عمران خان کے جھوٹ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر انہیں عمران خان کے پاس لے کر گئے۔ جنہوں نے بشیر میمن کو جسٹس فائزعیسیٰ اور شریف خاندان کے خلاف مضبوط کیس درج کرنے کے احکامات دیے تھے۔ ان شواہد سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کے ماسٹر مائنڈ عمران خان خود تھے۔

متعدد وفاقی وزراء معزز جج اور ان کی فیملی کے خلاف پریس میں مسلسل ہرزہ سراہی میں مصروف رہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر سابقہ حکومت کے تنخواہ اور دیہاڑی دار یوٹیوبرز اور ہوسٹس جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف عمل رہے۔ عمران خان کو اس وقت یہ چیزیں دکھائی کیوں نہیں دیں۔ انہیں ایک سٹک کی مدد سے ایف بی آر اور عدالتوں کے چکر لگاتی مسز سرینا عیسی پر ذرا بھی رحم نہ آیا۔ عدالت کا اتنا وقت برباد ہونے اور ایسٹ ریکوری یونٹ کی طرف سے قومی خزانے سے خطیر رقم کے ضیاع کے بعد عمران خان اس کو اپنی غلطی کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف فواد چوہدری اور فروغ نسیم کے درمیان ایک غیر ضروری لفظی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ سابق وزیراطلاعات اس کیس کا مدعا فروغ نسیم پر ڈال رہے ہیں۔ جب کہ بقول ان کے صدارتی ریفرنس عمران خان کے ایما پر دائر کیا گیا تھا۔ اور ان کی وزارت کی حیثیت ایک ڈاک خانے کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ وزارت قانون کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ کہ کسی جج کے اثاثوں کی کھوج لگا کر اس کے خلاف کیس بنائے۔

جسٹس صاحب کے خلاف وفاقی حکومت نے جو ریفرنس جمع کرایا تھا۔ وہ ذاتی رنجش کا پیش خیمہ تھا۔ اور اس کو آگے بڑھانا وزیراعظم عمران خان کی سیاسی مجبوری تھی۔ کیوں کہ اس کے بدلے انہیں بہت کچھ حاصل ہو رہا تھا۔ پارلیمان میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود قانون سازی میں غیبی مدد جیسے فوائد عمران خان کی حکومت کو حاصل تھے۔ اس کے علاوہ عمران مخالف میڈیا کی آواز کو دبانے جیسے اقدامات بھی پردے کے پیچھے سے کیے جاتے رہے۔ ایسا عمران خان کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا رہا۔

عمران خان اس ریفرنس کو وزارت قانون کے گلے میں ڈال کر خود بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ دراصل قاضی فائز فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ کرنے والے بنچ کی سربراہی کر رہے تھے۔ جس نے عمران خان کی سہولت کار ایک اہم عسکری شخصیت کے بارے میں تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی لیے عمران حکومت نے اپنے خاص دوست کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ انہیں اس مشکل صورت حال سے نکالا جا سکے۔

عمران خان فرماتے ہیں مجھے بتایا گیا تھا کہ قاضی فائزعیسیٰ ایک ایماندار جج ہیں۔ اور ان کے خلاف جو ریفرنس تیار کیا گیا تھا۔ اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مگر وزیرقانون فروغ نسیم ایسا چاہتے تھے۔ لہذا انہوں نے مجبوری کے عالم میں اس کی منظوری دی۔ خان صاحب دراصل اب یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے اس صدارتی ریفرنس کے بارے میں انہیں اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ حالانکہ وہ ملک کے انتظامی سربراہ تھے۔ وہ اس اہم معاملے سے بے خبر کیسے رہ سکتے تھے۔

دراصل عمران خان جو اپنا موقف بدلنے کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ قاضی صاحب کے راستے میں چیف جسٹس بننے کے حوالے سے اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ لہذا وہ ان کی نظروں میں اچھا بچہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاکہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں سپیس مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments