شاہنواز بھٹو کا قتل اور آصف زرداری: چند حقائق


لاہور میں پی ٹی آئی کے ”مقدس ہجوم“ میں اپنے تئیں ”خوددار“ رہنماؤں کی سیاپا فروشی اور تضاد سے بھری ژاوہ گوئی دیکھ اور سن کر جہاں سر میں درد ہونے لگ گیا وہاں ایک گھسا پٹا شعر بھی در دل پر دستک دینے لگا۔

مار گئے نیتا کیا سے کیا پدھو
عوام وہیں کے وہیں رہے بدھو

اقتدار سے ”بیاہ“ کے لیے تین چار پارٹیوں سے ”حلالہ“ کرنے والا ایک نام نہاد ”کنوارے“ سیاست دان ”خود ساختہ ریاست مدینہ“ کے ”امیرالمومنین“ کے بال بیکا ہونے پر قوم کو ملک میں خانہ جنگی ہونے کا ”مژدہ“ سنا رہا ہے۔ اور ایک آصف علی زرداری نامی ”بدنام زمانہ“ سیاست دان ہے جس سے لاکھ اختلافات کے باوجود یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قد آور سیاست دان اور چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جانے والی شخصیت کے بہیمانہ قتل پر اس وقت ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا۔ جب ملک کے گلی کوچوں میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک رہی تھی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ اعزاز بھی اسی ”بلڈی سویلین“ کو حاصل ہوا جس نے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے تمام صدارتی اختیارات پارلیمان کو واپس کر کے اپنے سسر ذوالفقار علی بھٹو کی یہ بات سچ ثابت کر دی جو انہوں نے فوجی آمر جنرل یحیی خان سے کہی تھی کہ انتقال اقتدار اتنا آسان ہے جتنا کہ میز پر پڑی ہوئی ماچس کو دوسرے شخص کی طرف سرکانا۔

یہاں ہمیں سوشل میڈیائی ”روبوٹس“ کی عقل اور سیاسی شعور پر بھی رونا آتا ہے جو یہ حقیقت سمجھنے سے عاری ہیں کہ شاہنواز بھٹو کی وفات 18 جولائی 1985 ء کو فرانس میں ہوئی جب کہ آصف زرداری 18 دسمبر 1987 کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر بھٹو خاندان کا حصہ بنے۔

خدارا اپنے ذاتی مقاصد کے لیے اس بدنصیب قوم کو مزید کنفیوز کرنے سے گریز کیا جائے اور تاریخی ریکارڈ کی درستی کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments