شرم تم کو مگر نہیں آتی


ملکہ وکٹوریہ نے سن 1880 میں امریکی صدر ردرفورڈ کو ایک بہت ہی خوبصورت میز تحفے میں دی جو کہ ایک برطانوی جہاز کی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ یہ وہی میز ہے جو اب تک وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں موجود ہے جہاں کئی امریکی صدر بیٹھے اور دنیا کے فیصلے کیے۔ صدر روز ویلٹ کو ایک مرتبہ زیبرے اور شیر کا تحفہ ملا جو کہ ایتھوپیا کے صدر نے دیا تھا۔ رچرڈ نکسن کو چائنا کی طرف سے ایک پانڈا ملا۔

پہلے یہ تحفے کانگریس کی منظوری کے بعد امریکی صدر رکھ سکتے تھے لیکن 1928 میں ایک پروٹوکول ڈویژن بنایا گیا جس کے بعد تمام تحفے قومی خزانے میں جمع کروا دیے جاتے ہیں۔

جب یہ تحفے دھیرے دھیرے قیمتی ہوتے گئے جیسا کہ سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیز نے صدر اوباما کو 2014 میں ایک اعشاریہ تین ملین ڈالر کے تحائف دیے جس میں قیمتی گھڑیاں اور مشعل اوباما کے لئے ہیروں کا ہار تھا تب ایک قانون بنایا گیا جس کے تحت صدر وہ تحائف مارکیٹ کی قیمت پر رقم دے کر خرید سکتے ہیں۔

نہ کبھی اوباما کے پاس ایک ملین ڈالر تھے اور اگر ہوتے بھی تب بھی وہ کبھی نہ خریدتا۔ یاد رہے کہ یہ تحائف مارکیٹ ویلیو پر خریدے جاتے ہیں نہ کے پاکستان کی طرح کوڑیوں کے مول خرید کر اپنے گھر لے جایا جائے۔

2014 کے امریکی قانون کے تحت کوئی بھی تحفہ جو 375 ڈالر سے زیادہ ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہو جاتا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے صرف ایک مرتبہ میانمار کی وزیراعظم کی طرف سے دیا گیا ہار قومی خزانے سے خریدا لیکن وہ قیمت ادا کر کے جو اس وقت اس ہار کی بازار میں تھی جو کہ ایک ہزار ڈالر تھی۔

جرمنی کی انجیلا مرکل سے ایک خاتون صحافی نے پوچھا کہ آپ کو ہمیشہ ان ہی تین چار لباس میں دیکھا اور صرف ایک ہی ہار آپ ہمیشہ پہنتی ہیں تو انجیلا مرکل نے جواب دیا کہ میں جرمنی کی وزیراعظم ہوں کوئی ماڈل نہیں ہوں۔ وہ کافر انجیلا مرکل جو صبح کے برتن خود دھو کر اپنی گاڑی خود چلا کر وزیراعظم آفس جاتی تھی۔

اور ایک ہم مسلمان حکمراں ہیں۔ ہم جنہیں سادگی کی اعلی مثال ہونا چاہیے تھا۔ جنہیں سائیکل پر آفس جانا چاہیے تھا، وہ ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترے۔ پندرہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے یومیہ آٹھ لاکھ روپیہ؟

سابق پاکستانی مسلمان حکمرانوں نے تحفے میں دی گئی چیزوں کو بہت ہی کم نرخ پر اپنے نام کیا۔ کبھی معمولی داموں قالین خریدا تو کبھی اسکارف۔ کبھی قیمتی گاڑی تو کبھی ہار تو کبھی گھڑی۔

کم از کم جو بازار میں اس کی قیمت ہے وہی ادا کر دیتے؟ اور اگر سستے داموں خرید لیا تھا تو اتنا تو نہ گرتے کہ اس کو بازار میں بیچ دیا؟ اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہو گی کہ جس نے تحفہ دیا اس نے ہی پیسے دے کر واپس خرید لی۔ یہ آئے تھے پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کروانے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعظم نے جو ہار، گھڑیاں اور دیگر چیزیں خریدی، اس کی بھی ادائیگی کراچی کے ایک تاجر نے کی تھی۔ اس تاجر کو سینٹ کا ٹکٹ دیا گیا۔ اس سابق ایماندار وزیراعظم کے طریقہ واردات پر غور فرمائیں اور پانی پانی ہوتے جائیں۔

ان ہی ایماندار سابق وزیراعظم کو ابھی حال ہی میں اسلام آباد سے کراچی جلسہ کرنے کے لئے چارٹر طیارے سے لایا گیا جس کا کرایہ 29 لاکھ روپے بتایا جا رہا ہے، دبئی کے ایک تاجر دوست نے ادا کیا۔ کاروباری لوگ تو کاروبار ہی کرتے ہیں، کسی مناسب وقت پر جب دوبارہ اقتدار میں آئے گے تو دس گنا نکلوا لیں گے۔

اس ملک کو سب ہی نے لوٹا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ جن سے کچھ توقعات وابستہ کی تھیں، انہوں نے بھی مایوس کیا۔

صرف ننگے پیر مدینے میں گھومنے سے خدا کا قرب اور نبی کا عرفان حاصل نہیں ہوتا۔ خدا اور نبی سے قریب ہونے کے لئے اخلاق کے اعلی درجے پر فائز ہونا پڑتا ہے۔ آدمی سے انسان ہوتا پڑتا ہے۔ دنیاوی چیزوں سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا،

فرشتے سے بڑھ کر ہے انساں بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں گناہ، جرم اور غلط کام کو بھی سیاستدانوں کے حامی برا نہیں سمجھتے۔ وہ ان سب کاموں پر جواز تراش لاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا قائد ان کے لئے ایک خدا سے کم نہیں ہے۔ چاہے وہ بھٹو ہو، الطاف حسین ہو، نواز شریف ہو یا پھر آج کا عمران خان۔

ایک غالب تھا جو کبھی مسجد کی سیڑھیاں نہیں چڑھتا تھا کہ کس منہ سے اپنے رب کے حضور سجدہ کروں گا تب ہی تو یہ شعر تخلیق کیا،

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments