آن لائن گداگری


کمپیوٹر اور پھر انٹرنیٹ نے انسانوں کی زندگی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، ایسا شاید پہیہ کی ایجاد پر بھی نہ ہوا ہو گا۔ ان دونوں ایجادات میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں کو بادشاہ سے لے کر گداگر تک سب یکساں طور پر استعمال کر رہے ہیں، اور اس کے فوائد و نقصانات کی خوشہ چینی کر رہے ہیں۔

پاکستان ان زرخیز دماغ لوگوں کا ملک ہے جہاں جگاڑ کا پہلا نمبر گنا جاتا ہے، کسی بھی چیز کو اپنے مقصد کے لئے ڈھال لینا ان لوگوں کا ہنر بے مثال ہے، تو پھر گداگر بھلا کیونکر پیچھے رہتے انہوں نے بھی اپنی تگڑم لگائی اور صبا ایزی لوڈ والی نے عوام پر طبع آزمائی کی جو خاصی کارآمد رہی اور انہوں نے ملک بھر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے دکھی موبائل پیغامات جنہیں عرف عام میں (SMS) کہا جاتا ہے کہ ذریعے چونا لگایا اور لاکھوں بنائے، لوگ اس تذبذب میں رہے کہ یہ کوئی واقعی حقیقی انسان بھی ہے یا کوئی خودکار نظام ہے، کیوں کہ ہر تیسرا آدمی صبا موبائل ایزی لوڈ کو جانتا تھا یا اس کا ڈسا ہوا تھا، آخر یہ طلسم تمام ہوا اور وہ خاتون مل ہی گئیں اور انہوں نے نہ صرف اقرار کیا کہ وہی ہیں جو لوگوں سے بیلنس کی درخواست کیا کرتی تھی بلکہ یہ بھی بتایا کہ انہوں اس طرح آن لائن گداگری سے قریب پانچ لاکھ روپے بھی بٹور لئے ہیں، اس کے بعد آتا ہے نمبر ملتان کے شوکت بھکاری کا جنہوں کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول کر اور دیگر گداگری کے گر لوگوں پر آزما کر سترہ لاکھ روپے جمع کر لئے ہیں، ان کا بینک اکاؤنٹ اس بات کا گواہ ہے ان کے بچے شہر کے مہنگے ترین اسکول میں پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کے ایف بی آر نے انہیں نوٹس بھی بھیج دیا ہے کہ بھائی گداگر صاحب انکم ٹیکس ادا کریں۔

یہ تھی کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی گداگری جس کا شکار عام آدمی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، کیونکہ اب گداگری بھی ایک قسم کا کاروبار بن کر رہ گیا ہے، بلکہ اب تو اس نے مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے، لہذا جس طرح دیگر کاروبار میں نئی نئی جہتوں کو متعارف کرایا جا رہا ہے اس ہی طرح گداگری میں بھی نئے نئے رجحانات کو اپنایا جا رہا ہے، گداگری کا ایک جز و خاص دھوکہ دینا ہے یا اپنے ممکنہ شکار کو نفسیاتی یا جذباتی طور پر متاثر کر کے اس کی جیب سے پیسہ نکالنا ہے، مگر اس جدید دور میں موبائل اور انٹرنیٹ نے اس کام کو اور بھی آسان کر دیا ہے اور ایسے ایسے مواقع فراہم کر دیے ہیں کہ پہلے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اس نے گداگری کو بھی ایک باقاعدہ فن کی شکل دیدی ہے۔ گداگر مختلف طریقوں سے اپنے شکار کو پھانسنے کی تاک میں رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع لگتا ہے اپنا کام کر گزرتے ہیں آن لائن گداگروں میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے ان میں کچھ مرد حضرات بھی ہوسکتے ہیں جو موقع محل کی مناسبت سے اپنا کام دکھا رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور بعض سوشل میڈیا ایپ تعلق در تعلق کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں اور یہ تجویز بھی کرتی رہتی ہیں کہ یہ آپ کا ممکنہ دوست ہو سکتا ہے، تو آن لائن گداگروں کے لئے یہ ایک بہترین کاروباری موقع ہو سکتا ہے اور وہ جھٹ سے آپ کو دوستی کی درخواست بھیج دیتے ہیں، آپ اگر ان کے پروفائل کی جانچ کرنا چاہیں تو پائیں گے کہ یہ تو آپ کے چند قریبی دوستوں کا پہلے سے دوست ہے، چلاک اتنے ہوتے ہیں کہ عمومی طور پر ان لوگوں نے اپنا پروفائل لاک کیا ہوا ہوتا ہے بس آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ مشترکہ دوست کون ہے۔

جوں ہی آپ نے ان کی دوستی کی درخواست قبول کی فوراً ہی میسنجر پر پیار بھرا پیغام آ جائے گا، آپ کہاں سے ہیں؟ ایک کام کریں گے، کچھ مدد کر دیں۔ یہ عام روش ہے، بے تحاشا لوگ اس طرح کام کر رہے ہیں، جال ایسے پھیلایا جاتا ہے کہ کسی خوبصورت سی حسینہ کی تصویر لگا دی جاتی ہے۔ پیچھے چاہے ساٹھ سالہ بابا جی یا کوئی خرانٹ لڑکا بھی ہو سکتا ہے۔ عموماً لڑکیاں کال بھی کر رہی ہوتی ہیں، جن میں وہ پہلی بار میں ہی خوب لگاوٹ کی باتیں کرتی ہیں اور بار بار پوچھتی ہیں کہ آپ کس شہر میں ہیں۔

جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ اگر ایک ہی شہر سے ہیں تو بالمشافہ مل کر بھی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ اگر پیغام لکھ کر بات کر رہی ہوں تب بھی آپ ان سے معلوم کریں کہ جی کیا کام ہے تو وہ جھٹ سے لچر پن یا بازاری انداز میں لبھانے کی کوشش کرنے لگتی ہیں۔ جو اس بات کی کھلی علامت ہے کہ ہماری ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے، اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ ان سوشل میڈیا کی دوستیوں کی آڑ میں کیا کیا دھندے ہو رہے ہیں اور لوگ اب بازاروں یا سگنلز پر بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی بکثرت آن لائن گداگری اور دیگر الٹے سیدھے دھندوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

ان میں بہت ممکن ہے کہ جسم فروشی، بلیک میلنگ، اکاؤنٹ کی چوری یا ہیکنگ اور منشیات فروشی کے لئے بھی استعمال کر رہے ہوں، کیونکہ جس معاشرے میں ہم جیتے ہیں وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، ایک بینک کے انتباہی اشتہار نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی جس میں لکھا گیا تھا کہ جعل سازوں سے ہوشیار، محترم صارف آپ کو ایسا پیغام بھی آ سکتا ہے کہ میری والدہ شدید بیمار ہیں آپ کو خدا کا واسطہ میرے اس بینک اکاؤنٹ میں پچاس ہزار روپے ڈال دیں میں چھ ماہ میں لوٹا دوں گا۔ یعنی نوبت اب یہاں تک آ چکی ہے کہ بینک آپ کو اس قسم کی جعل سازی سے ہوشیار کر رہا ہے، یعنی بینک کے مشاہدے میں اس طرح لٹ جانے والوں کی کافی ساری شکایات آئی ہوں گی اور لوگوں نے نادانی میں بینک والوں کو جاکر پریشان کیا ہو گا۔ تب ہی وہ ایسا اشتہار شائع کرنے پر مجبور ہوئے۔

حد تو یہ ہے کہ اب گداگر دس بیس روپے سے نہیں بلکہ دس بیس ہزار روپے سے بہلنے کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے اس ضمن میں فوری تادیبی اقدامات کریں، جن میں عوام میں آگہی مہم چلائی جائے، آن لائن گداگروں کی کڑی نگرانی کی جائے اور ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں۔ کیونکہ اب موبائل اور انٹرنیٹ ہر خاص و عام کے زیر استعمال ہے اور سوشل میڈیا کی لت بھی قریب قریب ہر استعمال کرنے والے کو لگی ہوئی ہے تو غالب امکان اس بات کا زیادہ ہے کہ وہ لوگ جو کم تعلیم یافتہ ہیں ان کے آسان شکار ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ آن لائن گداگر ان پر با آسانی اپنا وار کر سکتے ہیں۔

ساتھ ساتھ یہ آن لائن گداگر کسی تخریبی تنظیم کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں اور استعمال کنندہ کے اکاؤنٹ کی چوری یا ہیکنگ میں بھی ملوث ہوسکتے ہیں جس کے بہت ہی گمبھیر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر شخص اس بات کا اہتمام کرے کہ بہت زیادہ انجان لوگوں سے دوستیاں نہ کرے، بالخصوص غیر ملکی لوگوں سے کہ معلوم نہیں ان کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں۔ اس مشکل سے مل جل کر ہی نجات حاصل کی جا سکتی ہے اول درجہ پر تو خود استعمال صارف کو حد درجہ احتیاط کرنا ہوگی دوئم متعلقہ اداروں کو معاونت فراہم کرنا ہوگی، اس طرح ممکن ہے کہ یہ وبا بالکل ختم نہ ہو مگر کچھ کم ضرور ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments