سیاسی عقیدت اور معاشرتی مسائل


جب انسان کو کسی سے عقیدت ہو جاتی ہے۔ تو پھر اس کا سچ جھوٹ ایک جیسا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس دائرے سے باہر کچھ بھی ہو وہ غلط اور سازش لگنے لگ جاتا ہے۔ جیسے پاکستان میں ہر نئی آنے والی تحقیق اور چیز کو پہلے برا بھلا کہا جاتا ہے ۔ اسے اپنانے والے کو خونخوار نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لگتا ہے، جیسے مزید برائی اور گندگی کی وجہ یہی نئی چیز بنے گی۔ لیکن وقت کے ساتھ اس بات کو مان بھی لیا جاتا ہے۔ اور اسے اپنانے میں ہی اپنی بقاء سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

ایک ہی راستے پہ گامزن زندگی کی راہ میں نئی سمت کا آنا یقیناً ایک دم سے ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور اس پہ مزاحمت ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ مگر ہر ایک بات اور چیز کو فوری سے مسترد کر دینا، اور اسے بھٹکا دینے والا عمل قرار دینا، یہ مناسب نہیں لگتا۔ ایسا عمل قوموں کو بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے۔

ایک ایسی نسل جس کے خیال میں پاکستان معرض وجود میں آنے سے پہلے یہاں ایک پورا نظام تھا۔ جو سیاسی اور سماجی شعور رکھتا تھا۔ اور ان کے نزدیک سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلی کسی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کئی نسلوں کی قربانی ایسی تبدیلی کے پیچھے کار فرما ہوتی ہے۔ انہیں کسی بھی شخصیت کی طرف سے کھڑے کیے جانے والے ہوائی قلعے ہمیشہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتے ہیں۔

دوسری ایسی نسل جس کو لگتا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے اس دھرتی پہ کچھ بھی نہیں تھا۔ بس پاکستان بنا ہے، اور اک نئی دنیا یہاں شروع ہو گئی ہے۔ ان کے نزدیک کوئی ایسا شخص ہی بہترین اور قابل قدر ہے۔ جو ہوائی قلعے تعمیر کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہی بہترین لیڈر ہو گا۔

ایسی نسل کے لوگوں کو گرویدہ کرنا، نہایت ہی آسان عمل ہے۔ جس کے لئے چند ایک نعروں اور دعوؤں کی ضرورت ہے۔ پھر ہجوم در ہجوم انہی نعروں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی زندگی گزار دے گی۔ یہی عمل آگے چل کے عقیدہ اور عقیدت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

اب ایسا سیاسی عقیدہ بہت خطرناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سیاست تو بات چیت سے مسائل کا ادراک کرنے اور حل کا نام ہے۔ مگر اب جب کہ سیاسی نظریے اور شخص کو عقیدہ بنا لیا جائے گا۔ تو پھر ہر جھوٹی بات سچ اور ہر ناقابل عمل دعوٰی بھی قابل عمل دکھائی دے گا۔

اس دیس میں ایسی صورتحال بہت خطرناک اثرات چھوڑ رہی ہے اور مزید برے اثرات چھوڑ سکتی ہے۔ ان سیاسی عقیدوں نے ایک تفریق بھی پیدا کردی ہے۔ اور سوچ بچار والے خلیے بھی مار دیے ہیں۔ کسی ایک گروپ کے نزدیک ایک شخصیت سو عیبوں کے باوجود پاک صاف اور بہترین ہے۔ تو دوسرے گروہ کے نزدیک کوئی دوسری شخصیت ہی سب کچھ ہے۔ ایسی عقیدت بہت بری ہے۔ اس کی آڑ میں دلائل اور تحقیق بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات ہوش و حواس کا دامن بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ تمام رشتے ناتوں میں سیاسی عقیدے کی بنا ء دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ نفرت کی فضاء بنتی جا رہی ہے۔

پہلے یہ ہوتا تھا کہ دوست مل بیٹھ کے گپیں لگاتے تھے۔ جس میں مختلف سیاسی وابستگی والے ذہن ہوتے۔ بڑی لمبی لمبی بحث و تکرار ہونا معمول کا کام تھا۔ مگر کسی کی جان لے لینے والی باتیں نہیں ہوتیں تھیں۔ برداشت کا ایک عنصر پایا جاتا۔ کسی دوسرے کی سیاسی بات کو عزت دی جاتی۔ اختلاف رائے کو حسن قرار دیا جانا عام سی بات تھی۔ دلائل سے ایک دوسرے کو اپنی بات باور کروائی جاتی۔ مگر ، اب سب کچھ اس کے متضاد ہو گیا ہے ۔ اب شخصیت پرستی غالب آتی جا رہی ہے۔ سیاسی عقیدت میں اپنے مخالف کو زچ کرنے کے لئے ہر گندے سے گندا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی مخالف کو مار دینے تک کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماں، بہن کی گالیاں تو معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اس لئے کہ وہ شخصیات جن کو ہم اپنا لیڈر مانتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں۔ عقیدت رکھتے ہیں۔ وہی ایسی فضاء بناتے جار ہے ہیں۔ گالی گلوچ اور ملک دشمن، مذہب دشمن، کی باتیں سکھلائی جا رہی ہیں۔ یہ سب سماج میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ اسے شاید اب اس طرح محسوس نہیں کیا جا رہا، اور نہ ہی لیڈر صاحبان اپنی انا کی تسکین کے لئے اسے سنجیدہ لے رہے ہیں۔ لیکن جب گالی گلوچ، نفرت، عداوت، غدار اور کافر کی صدائیں ناپختہ اور غیر سیاسی ذہنوں میں اپنا رس گھولتی جائیں گی۔ تو ایک وقت آئے گا۔ سبھی یہ کہنے پہ مجبور ہو جائیں گے۔

آہ، سماج ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ تب شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

سیاست تو سماجی، معاشی حالات کی بہتری کے لئے کی جاتی ہے۔ سیاست ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دینے او معاشی مضبوطی فراہم کرنے کا نام ہے۔ اسے عقیدہ بنا کے اندھی محبت کا روپ کا اختیار کر لینا بہت سی خرابیوں کا پیش خیمہ ہو گا۔ جو وحشت ناک سماج کی علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).