کتاب علم و دانش کا خزانہ


ہر سال 23 اپریل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کی بدولت جہاں پرانی روایات دم توڑتی نظر آ رہی ہیں ’وہی کتب بینی کا رواج بھی روبہ زوال ہے۔ تاہم کتابوں سے ابدی محبت کرنے، اپنا قیمتی اثاثہ و گوہر نایاب تسلیم کرنے والوں کی عمدہ مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ اور دل لبھانے والی پوسٹ گردش کر رہی تھی کہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والی ایک دلہن نے حق مہر میں اپنے شوہر سے ایک لاکھ روپے کی کتابیں مانگ کر سب کو حیران کر دیا۔

اسی طرح گزشتہ برس بھارتی ریاست کیرالہ میں ہونے والی ایک شادی میں دلہن نے اپنے ہونے والے خاوند سے حق مہر میں جائیداد یا زیورات کی بجائے ایک سو کتابیں مانگ لیں جبکہ دلہا، دلہن کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق کتابیں حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے اور شادی کی رات تک کتابیں اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بہر حال ان خواتین نے انوکھا انداز اپنا کر معاشرے سے غلط رسومات کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور کتاب سے دوستی کی بے پناہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ بلاشبہ اس میں دنیا کے ہر انسان کے لیے سبق ملتا ہے۔

کتابیں ہر دور میں علم و دانش کا خزانہ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کو کامیابی و کامرانی کتاب دوستی، مطالعے سے شغف اور کتب خانوں کو آباد رکھنے کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے کے باوجود بھی کتب بینی و اخبار بینی مقبول ترین مشغلہ ہے۔ معروف امریکی سائنس دان و کاروباری شخصیت ایلان مسک جو زمین کے انسانوں کو مریخ پر بسانے کا آرزو مند ہے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود زیادہ تر وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتا ہے۔ ان کی کامیابیوں میں کتاب کا بڑا عمل دخل ہے اور ان لوگوں کے لیے سبق بھی جو کتاب کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت؟ جبکہ سائنس دانوں نے چاند ستاروں پر کمندیں کتب بینی کی بدولت ڈالی ہیں۔

ہمارے یہاں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سال 2019 ء میں 35 کتابیں پڑھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دن بھر کی مصروفیات سے تھک کر ذہنی آسودگی کے لیے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ کتابیں ذہنی آسودگی کا سبب بنتی ہیں اور یہ بات بھی تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ روزانہ تین یا ساڑھے تین گھنٹے کتابیں پڑھنے والے افراد کی شرح اموات میں 17 سے 23 فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ کتابیں نہ پڑھنے والے افراد کی نسبت کتابیں پڑھنے والے افراد کی عمر میں 2 برس کا اضافہ ہوتا ہے۔ کتابیں تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے، فہم و فراست کو وسعت اور تخیل کو اونچی اڑان دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسان کو بات کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔

وطن عزیز میں زیادہ تر تعلیم یافتہ افراد بالخصوص طلبہ فضولیات میں مگن ہو کر کتب بینی سے فرار اختیار کر چکے ہیں۔ پڑھنے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت کلاس روم سے باہر کینٹین، سوشل میڈیا اور دیگر غیر ضروری سرگرمیوں میں گزارتے ہیں جبکہ بہت کم طلبہ ذوق مطالعہ کی حلاوت سے آشنا اور کتاب کے سمندر سے در نایاب سمیٹنے کے خواہاں ہیں۔ یوں کتب خانوں میں گرد پڑی کتابیں اور خالی کرسیاں قارئین کی دید کو ترس رہی ہیں۔ جس سے روز بہ روز علمی معیار گرتا جا رہا ہے۔

آپ ملک میں علمی گراوٹ اور کتاب سے دوری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کسی انٹرویو میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پچھلے سال نصاب کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں تھا اور کچھ امیدواروں سے صرف تین کتابوں کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 19 فیصد افراد کتب بینی کے شوقین ہیں۔ جس کی اساسی علت پاکستان میں عالمی معیار کی لائبریریوں کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہو رہا ہے۔

اگر ہم وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو کتابوں سے لو لگانی ہو گی۔ کتب خانوں کو آباد رکھنا ہو گا۔ اگر والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو کتاب دوست اور ان میں مطالعے کا شوق ڈالنے کے خواہش مند ہیں ’تو ان کو چھوٹی عمر سے ہی کتابوں کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں گھر میں زیادہ سے زیادہ علم و دانش پر مبنی اور تجسس ابھارنے والی کتابوں کے ساتھ پڑھائی کا ماحول ہونا لازم ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے گھر کے کسی گوشے میں ایک ریڈنگ کارنر ضرور بنائیں اور ایک خاص وقت میں کم از کم آدھے گھنٹے تک گھر کا ہر فرد خاموشی سے مطالعہ کرے۔ والدین چھوٹی چھوٹی آسان کہانیوں کی کتابیں پڑھ کر سنائیں جس سے ان میں ریڈنگ کا شوق پیدا ہو گا۔

اسکول انتظامیہ بچوں پر یہ احسان کریں کہ ان میں کتب بینی کی عادت ڈالیں۔ کتاب دوستی، اخبار بینی اور کتب خانوں کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ اسکولوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کا اہتمام کریں اور کسی ٹیچر کی نگرانی میں طلبہ کو چند لمحات لائبریری میں گزارنے کا موقع دیں اور بچوں کو ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی ماہانہ و سالانہ کتب میلوں کی سیر کرائیں۔ سالانہ یوم کتاب کے موقعے پر تقریری مقابلے اور مضمون نویسی کا انعقاد کیا جائے۔ جس سے ان میں پڑھائی کا رجحان جنون کی حد تک جنم لے گا کیونکہ کتابیں کسی ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور خاک سے افلاک تک کا سفر طے کرنے کے لیے خاموشی سے رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments