سیج کنارے


ثوبیہ ایک نوجوان ڈاکٹر ہے یا یوں کہئیے کہ ثوبیہ ایک ڈاکٹر تھی۔ خوش مزاج، خوش لباس، شکل سے خوش، ثوبیہ نے اپنے گھر کے قریب ہی کلینک کھولنا تھا۔ اپنے تئیں اس نے جگہ بھی دیکھ رکھی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اپنے بل بوتے پر کیے جانے والے کام کا لطف ہی اور ہوتا ہے۔ کلینک کے ماتھے ہر اپنا چمکتا ہوا نام لکھوانے کی تمنا کیے ثوبیہ جو کہ ڈاکٹر تھی کی یہ آرزو صرف اس لئے دبا دی گئی کہ گھر والے خاندان والوں کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کسی اچھے گھر میں بیاہی جائے گی۔ بیٹیوں کی شادی ان کی خوشی کے لئے کم اور دنیا کو دکھانے کے کیے زیادہ ہوا کرتی ہیں، سو اس کا بھی یہ نصیب لکھا گیا۔

اس کے لئے ذات برادری میں جو رشتہ پسند کیا گیا، وہ عمر میں دگنا بھی تھا اور خاندان کو چڑانے کے لئے دولت مند بھی خوب تھا۔ یوں اس کی امنگوں کو شاندار انداز اور دھوم دھام سے گلہ دبا کر قتل کر دیا گیا۔ اس کا ہونے والا شوہر چاہتا تھا کہ اس کی ڈاکٹر بیوی اب گھر میں رہے اور اس کی خدمت کرے۔ ڈاکٹری اور کلینک جائے جہنم میں جو کہ گیا بھی۔ اس کو ویسے بھی یہ کام کرنے والی عورتیں بازاری معلوم ہوتی تھیں۔

ثوبیہ کی اسقاط کی گئی خواہشوں اور گرائی گئی اٹھارہ سال کی تعلیم کا جنازہ اس کے نکاح کی صورت میں نکلا اور بڑی شان سے نکلا کہ سارے خاندان نے دیکھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی، زبردستی اور دھونس سے نکاح میں قبول ہے بلوانے پر کوئی امت میں قیاس کرتا دکھائی دیتا ہے نہ اجماع مگر پھر بھی عورت کے حقوق بہت ہیں۔

سعادت حسن منٹو سڑک کنارے میں ایک ایسی عورت کی کہانی بتاتے ہیں جو چند لمحوں کی دل آویز تکمیل کی خاطر خود کو نامکمل کر بیٹھتی ہے۔ اپنے چند جذبوں کی تکمیل کے بعد نیلی آنکھوں والا ایک مرد اس عورت کو نامکمل چھوڑ کر اپنی منزل کی تکمیل کے لئے نکل جاتا ہے اور عورت اپنے اعصاب کی ایک سڑک کے کنارے بے آسرا اور بے یارو مددگار پڑی رہتی ہے۔ اس تکمیل کی نامکمل جسارت ایک ننھا سا نکتہ اس کے وجود میں شرمسار سی لکیر بن کر مچلنے لگتا ہے۔ وہ ان مکمل ہوئے نامکمل لمحوں کا ایسا کڑوا پھل بنتا ہے جو دنیا میں اس عورت کے لئے کلک کا ٹیکہ بن کر اس کے اعصاب اور وجود کو زائل کرتا ہے۔ دنیا اس پر تھوکتی ہے تو وہ اس کو چاٹ کر ننھے نکتے کے مکمل ہوتے وجود کو مطہر کرتی ہے۔

سیج کے کناروں پر جو مکمل وجود گھائل کیے جاتے ہیں، ان کی آواز کائنات کو متزلزل کیوں نہیں کرتی؟ یہ ثوبیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ اس نے تو کسی جذبے کی زد میں اکر اپنے آپ کو اپنی چاہ سے کسی نیلی یا کالی آنکھوں والے کے سپرد نہیں کیا تھا۔ وہ تو سرے سے اس امنگوں کے دشمن، اس بے جوڑ رشتے کی حامی نہیں تھی۔ وہ تو اس مال و دولت سے لبریز شخص کی ان باتوں کے کڑوے گھونٹ پیتی تھی جس میں عورت کی قابلیت کی توہین اور اس کی تعلیم کی مذمت کے سوا کچھ ہوتا ہی نہ تھا۔

پھر ایک روز، اس نے ثوبیہ کو معاشرے کے اعصاب شکن اس دوراہے ہر کھڑا کیا جہاں کے دونوں رستے ہی ملامت اور مذمت کی طرف جاتے تھے۔ وہ ان چوراہوں پر تن تنہا گھسیٹی گئی جہاں سے گزرنے والا ہر شخص اس کے نسوانی وجود کی پاداش میں اس پر غلاظت تھوکتا اور رزالت کہتا تھا۔

رخصتی سے پہلے ہی ثوبیہ کے وجود میں ایک ننھا نکتہ خوف اور وحشت کی لکیریں کھینچا شروع ہو گیا تھا۔ وہ اس کے بدن میں ایسے ہی ہچکولے کھاتا جیسے ثوبیہ باہر دنیا کی باتوں کے خوف کے جوہڑ میں کھا رہی تھی۔

ہاں، اس نے بڑے واضح انداز میں انکار کیا تھا۔ وہی انکار جو ایک عورت کسی بھی مرد کو، کسی بھی رشتے میں کہہ سکتی ہے۔ وہی انکار جس کا مطلب نہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کو معلوم تھا کہ رخصت ہونے سے پہلے کوئی ننھا نکتہ کائنات بنانا شروع ہو گیا تو اس کی کائنات اجڑ سکتی ہے۔

ہوس اور ہیجان میں مبتلا اس کا شوہر اس منطق کو سمجھ سکنے سے قاصر تھا کہ وہ مرد تھا۔ اس کے نزدیک تو وہ اب نکاح یافتہ تھے، وہ کچھ غلط تو نہیں کر رہا تھا۔ یہ اس کا نظریہ تھا۔ اس کے قریب یہ اہم نہیں تھا کہ ثوبیہ بھی کچھ چاہ سکتی تھی جس نے اس کو کبھی قبول بھی نہیں کیا تھا۔ وہ اس کی نکاح یافتہ بیوی تھی کیونکہ اس کے ماں باپ کی بس یہ خواہش تھی۔ ثوبیہ کی خواہش کا احترام ماں باپ کو تھا نہ اس کے نکاح یافتہ آقا کو۔

یہ تو اس کا واحد فریضہ تھا۔ اپنے شوہر کی باندی ہونے کی حیثیت سے اس کا واحد فرض ہی یہی تھا کہ بستر مرگ سے اٹھ کر بھی حاضر خدمت ہو۔ رخصتی ہو یا نہ ہو، وہ ایک کنیز تھی جس کی زندگی کا واحد مقصد ہی اندھی تابعداری تھا، آندھی ہو یا طوفان ہو، ایک غلام کی طرح ہر دم تیار۔ اتنی فرمانبردار ہو کہ نفلی عبادت ترک کر کے شوہر کی خلوت میں بے لباس ہو۔ ڈیوٹی کی کال اتنی اہم ہو کہ نفلی روزہ توڑ دے۔ عبادت بھی کرنی ہو تو شوہر سے اجازت طلب کر کے کرے کہ کہیں شوہر کے ہیجان پر کوئی آنچ نہ آئے۔ شوہر کو انکار کیا تو وہ ماہی بے آب کی طرح کسی بھی دوسرے عورت پر لپک پڑے گا اور کوئی گناہ یا جرم ہو گیا تو اس کی ذمہ دار بھی وہی عورت ہوگی جس نے شوہر جیسے خدا کو منع کیا ہو گا۔ عورت کی نفلی عبادت سے افضل شوہر کی خواہش تھی سو ثوبیہ کے حصے میں بھی وہی آیا۔

اب وہ رخصت تو نہ ہوئی تھی، مگر اس کا جسم بدل رہا تھا۔ اس کی رخصتی میں ایک سال تھا، ایک سال میں ایک نکتہ لکیر سے لفظ اور لفظ سے ایک مکمل کتاب بن جاتا ہے۔ وہ ان ماں باپ کو آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتی تھی جنہوں نے اس کی انسانیت اور رضامندی کو پہلے سے ہی ان پیروں تلے روندا تھا جس میں اس کی جنت اور جنت کی کنجی تھی۔ اس کا وہی شوہر جس کے قریب بیوی کی نہ بے معنی اور گناہ تھا، اس فکر سے بے فکر تھا کہ ثوبیہ کے کردار پر باتیں ہوں گی۔ سو ہونے لگیں۔ وہ جس کی بیوی تھی، اس نے بھی اس کے کردار کی لاج رکھنا گوارا کی نہ اس کے حق میں کسی کا منہ چلنے سے روکا۔ یہ تو ایک ٹرافی تھی جس کو وہ جیت چکا تھا۔ بنا کسی ڈگری کے حصول کے اس نے باپ کی چھوڑی ہوئی دولت کے بل بوتے ہر ایک ڈاکٹر جیتی تھی۔

وہ اب ایک ایسی بد چلن لڑکی تھی جس نے دنیا کی نظر میں رخصتی سے پہلے ہی ”منہ کالا“ کروا لیا تھا۔ کیونکہ رضامندی اور انکار کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ وہ ایک لڑکی تھی۔ وہ ایک ایک لڑکی تھی جس کے بطن میں پنپنے والے ننھے سے نکتے کی ولدیت مشکوک ہو گئی تھی۔ جو رخصتی سے پہلے ایسا کر سکتی تھی، جانے اس نے یہ کس کے ساتھ کیا ہو کیونکہ دنیا کو اس سے کیا لگے کہ اس کے ساتھ ایسے کرنے والے نے اس کے انکار کو کچھ سمجھا نہیں تھا، اس کو طلاق کا ڈراوا نہیں دیا تھا۔

اس کو یہ نہیں کہا تھا کہ وہ بازار جا کر کسی کے ساتھ بھی وہ سب کر سکتا ہے۔ کسی نے اس سے نہیں پوچھا تھا کہ اس پر کیا بیتی تھی۔ دنیا والوں نے اس مرد سے سوال نہیں کیا کیونکہ وہ مرد تھا اور عورت کے فتنے میں آ گیا تھا۔ اس سب میں گناہگار تھی تو وہ خود تھی جس نے نہ کہی تھی۔ ناجائز تھا تو اس کے جسم کے ریشوں سے بنتے اس گوشت کا ننھا سا نکتہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments