کم از کم تنخواہ اور کام کے اوقات کو یقینی بنایا جائے


کم از کم تنخواہ کام کی وہ اجرت ہوتی ہے جس میں غریب خاندان اپنی ضروریات زندگی پوری کر سکتا ہے۔ کام کے کم سے کم اوقات کا مطلب کام کے لئے مختص وہ وقت ہے جس کے اندر رہتے ہوئے انسانی جسم بہترین پرفارمنس دے سکے۔ کم از کام تنخواہ اور کام کے اوقات کار کے بعد بھی کمپنی کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی مزدور کو کام کے لئے بہترین ماحول مہیا کرنا، کام کی جگہ میں ہوا، روشنی اور پانی کا مناسب انتظام ہونا، کام کی مناسبت سے مزدور کی ٹریننگ کرنا، تاکہ حادثات کے امکانات کم سے کم ہوں۔

ہلکی بھاری، مشینوں اور اوزاروں وغیرہ کی مناسبت سے مزدور کو کپڑے، جوتے، دستانے، پرسنل سیفٹی کے آلات فراہم کرنا تاکہ مزدور کام کے دوران کام کسی بھی حادثے سے محفوظ رہ سکے۔ اسی طرح حادثے کی صورت میں آگ بجھانے کے آلات اور مزدوروں کو باہر نکالنے کے لئے ایمرجنسی دروازے کا استعمال کرنا وغیرہ۔ سال یا چھ ماہ بعد مزدور کا چیک اپ کروانا۔ اسے علاج، سوشل سکیورٹی اور انشورنس جیسی سہولیات فراہم کرنا بھی کمپنی ہی کی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ سب چیزیں اچھے ورکنگ انوائرمنٹ میں پائی جاتی ہیں۔ اچھی کمپنیاں لیبر کو خوش رکھنے کے لئے فیملی کا میڈیکل، بچوں کی تعلیم میں معاونت، بونس اور قرضہ جیسی سکیمیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن اداروں میں مزدور کا مناسب خیال رکھا جاتا ہے وہاں کے لیبر کی پرفارمنس اور کمپنی کا منافع دوسری کمپنیوں سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

لیکن یہ سب ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ انسان اور انسانیت پر جتنا ظلم صنعتی انقلاب کے دور میں ہوا۔ اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ غلاموں کی تجارت کرنے والے، غریب ممالک سے لوگوں کو غلام بنا کر یورپ لے جاتے۔ ان غلاموں پر وہ مظالم ڈھائے جاتے جن سے انسانیت بھی شرما جاتی۔ کام کے لئے مضبوط نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا۔ کشتیوں میں بھوکا پیاسا رکھ کر سفر کروایا جاتا۔ راستے میں کوئی بیمار ہو جاتا تو اسے زندہ ہی سمندر میں پھینک دیا جاتا۔

بالکل اسی طرح کام کے لئے مضبوط خواتین کا انتخاب کیا جاتا اور عیاشی کے لئے خوبصورت لڑکیوں کو سفر کا حصہ بنایا جاتا۔ سفر کے دوران ان کے ساتھ خوب زنا کیا جاتا حمل ٹھہر جانے والی لڑکیوں کو زندہ ہی باہر پھینک دیا جاتا۔ پھر ان غلاموں کو یورپ کی مختلف منڈیوں میں لے جایا جاتا جہاں ان کی بولیاں لگائی جاتیں۔ کاروباری حضرات ان منڈیوں سے لیبر خرید کر لے جاتے جہاں سے ظلم کے نئے سفر کا آغاز ہوتا۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں دنیا نے زرعی انقلاب سے صنعتی انقلاب میں قدم رکھنا شروع کیا تو تاجروں کے سینکڑوں سال پرانے گروپوں میں نئے لوگ بھی شامل ہونا شروع ہو گئے۔ پھر نئے اور پرانے تاجروں کے گٹھ جوڑ نے ظلم کے نئے بازار گرم کیے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں تاجر مزدور کو کم سے کم اجرت دیتے اور زیادہ سے زیادہ کام لیتے۔ کام کے اوقات طلوع صبح سے غروب آفتاب تک ہوتے۔ مزدور کے بچے کو تعلیم دینے کے بجائے کام پر رکھ لیا جاتا اور کم سے کم اجرت دی جاتی۔

مزدوروں کے کام کے اوقات پر سب سے پہلی آواز رابرٹ اوون نے اٹھائی جسے سوشلزم کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ 1817 ء میں اس نے ایک تحریک کا آغاز کیا جسے آٹھ، آٹھ، آٹھ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے خاندان اور آٹھ گھنٹے آرام تھا۔ اس تحریک کو زیادہ پذیرائی تو نہیں ملی لیکن آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کا آغاز اسی سے ہوا۔

رابرٹ اوون کی تحریک تو ناکام ہو گئی لیکن مزدوروں میں اس کی بازگشت سنائی دینے لگی جس کے بعد کام کے حالات، دورانیے اور تنخواہوں میں اضافہ دیکھا جانے لگا۔ 1847 ء کے فیکٹری ایکٹ میں بچوں اور خواتین کے کام کے دورانیے کو کم کر کے دس گھنٹے کر دیا گیا۔ آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کو 1884 ء میں ٹام مین نے بڑھانا شروع کیا جو کہ سوشل ڈیموکریٹک فیڈریشن کا حصہ تھا۔ ٹام نے ”آٹھ گھنٹے لیگ“ بنائی جس کا مقصد تاجر برادری کو آٹھ گھنٹے کام پر آمادہ کرنا تھا۔ لیگ کو بڑی کامیابی اس وقت ملی جب یہ دلائل سے ٹریڈ یونین کانگرس (جو کہ برطانیہ کی کاروباری تنظیموں کی نمائندہ تنظیم تصور کی جاتی تھی) کو منانے میں کامیاب ہوئے۔

امریکہ میں آٹھ گھنٹے کام کا آغاز 1791 ء میں فلیڈیلفیاء سے ہوا۔ جہاں مزدوروں نے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کرنے کے لئے پہلا احتجاج کیا۔ ان دس گھنٹوں میں دو گھنٹے کھانے کے وقفے کے بھی شامل تھے۔

1830 ء تک ورکنگ کلاس میں کام کے اوقات کے حوالے سے شدید بے چینی پائی جاتی تھی لیکن مل مالکان اور کاروباری طبقہ مزدور کے حقوق کو ماننے کو تیار نہ تھا۔ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے بعد امریکہ میں آٹھ گھنٹے کام کا آغاز برطانیہ کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ 1884 ء فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اور لیبر یونینز نے یکم مئی 1886 ء سے آٹھ گھنٹے کام کو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ جسے حکومت اور تجارتی حلقوں کی سرپرستی حاصل نہ ہوئی۔ مزدور مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال اور احتجاج کرتے رہے۔

ورکنگ کلاس نے یکم مئی 1886 ء کو ”مئے ڈے پریڈ“ کا انعقاد کیا۔ جس میں ساڑھے تین لاکھ مزدوروں نے شرکت کی۔ 1905 ء تک معاملات سست روی کا شکار رہے۔ لیکن پھر کچھ کمپنیوں نے اخلاقی طور پر کام کے اوقات آٹھ گھنٹہ کرنا شروع کر دیے۔ 1914 ء میں ہنری فورڈ نے اپنی کمپنی میں کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے اور تنخواہوں کو دگنا کر دیا۔ جس پر بزنس کمیونٹی پریشان ہو گئی۔ لیکن دو سال کے مختصر سے عرصے میں فورڈ کی کمپنی نے دگنا منافع کما کر سب کو حیران کر دیا۔ 1937 ء میں امریکی حکومت نے فیئر لیبر ایکٹ کے تحت آٹھ گھنٹے کام کو نافذ کر دیا۔ جس کے تحت مزدور سے ہفتے میں چالیس گھنٹے سے زائد کام لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ زیادہ کام کی صورت میں اوور ٹائم کو مزدور کا حق قرار دیا گیا۔

چند روز قبل ایک بلڈنگ کے باہر کھڑے سیکورٹی گارڈ کو میں نے اپنے پاس بلایا۔ گپ شپ کے دوران اس سے تنخواہ معلوم کی تو اس نے پندرہ ہزار بتائی۔ میں حیران رہ گیا۔ پھر میں نے ڈیوٹی ٹائمنگ معلوم کی، جو اس نے بارہ گھنٹے بتائی۔ اس دوران نہ ہی کھانا دیا جاتا اور نہ ہی وقفہ دیا جاتا۔ الاؤنس اور بونس کا نام و نشان تک نہیں۔ سیکورٹی گارڈ کی باتیں سن کر میرے اندر جیسے آگ سی لگ گئی۔ پھر ایک دن ایک بڑی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ سے ملاقات ہوئی۔ اس کی تنخواہ بیس ہزار اور ڈیوٹی ٹائمنگ نو گھنٹے تھی۔ اس نے کاٹن کی شرٹ اور واش اینڈ ویئر کی پینٹ پہنی تھی۔ جب میں نے پیروں پر نظر دوڑائی تو جوتے بھی اچھی کمپنی کے تھے۔ جب کہ کم آمدن والا سیکورٹی گارڈ پولیسٹر کا یونیفارم، سستے اور بھاری جوتے پہنے ہوئے تھا۔

ذرا سوچیئے کہ پندرہ ہزار تنخواہ کے ساتھ بارہ گھنٹے کام کرنے والا گارڈ گھر کیسے چلاتا ہو گا؟ بارہ گھنٹے کام کے بعد وہ کتنی دیر سوتا ہو گا؟ اپنے خاندان کو کتنا وقت دیتا ہو گا؟ پولیسٹر کے یونیفارم اور کم تر کوالٹی کے جوتوں میں گرمی کا سیزن کیسے گزارتا ہو گا؟ ذرا سوچیئے

آج کل بہت سی کمپنیوں نے لمبے چوڑے سٹاف، قانونی معاملات، یونین اور دیگر جھمیلوں سے بچنے کے لئے بہت سے کام آؤٹ سورس کر دیے ہیں۔ تھرڈ پارٹی، کنٹریکٹر ٹینڈرز کے ذریعے کمپنیوں سے ٹھیکے لیتے ہیں۔ ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے ٹینڈر میں کم سے کم ریٹ دیے جاتے ہیں۔ ٹینڈر جیت جانے کے بعد سارا بوجھ ورکر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی غرض سے ورکر کے یونیفارم اور پرسنل سیفٹی کی چیزوں میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری کا ستایا ورکر ہر قسم کی شرط قبول لیتا ہے۔ پھر نامناسب سہولیات، غربت اور مہنگائی چند ہی سالوں میں اس کی جوانی چھین لیتے ہیں۔ جب بیماریاں نزدیک آتی ہیں تو اسے کام سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر کام کے دوران ہی اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ گھر والے سوشل سیکورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کنٹریکٹر نے اس کی سوشل سیکورٹی جمع ہی نہیں کروائی۔ اس لیے اس کا خاندان پینشن کا اہل نہیں رہا۔ ایسی ہزاروں کہانیاں آپ کو اپنے اردگرد چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔

سکلڈ اور نان سکلڈ ورکرز کی یہ کلاس محدود آمدن اور کام کے طویل اوقات کی وجہ سے گھر کے خرچے نہیں چلا پاتی۔ جس کی وجہ سے ان کی بیگمات لوگوں کے گھروں میں صفائی سے لے کر چھوٹی موٹی نوکریوں سے جڑ جاتی ہیں۔ بیٹیوں کو پڑھائی چھڑوا کر گھروں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ جبکہ لڑکے ہوٹلوں، شاپنگ سینٹرز اور ورک شاپوں میں مزدوریاں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح غیر متوازن معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے حلف اٹھاتے ہی بنیادی تنخواہ بڑھانے کا اعلان کیا۔ لیکن دو دن بعد ہی اسے واپس لے لیا۔ ہماری شہباز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ تنخواہیں بڑھانے کے ساتھ کم از کم تنخواہ اور کام کے اوقات کو یقینی بنایا جائے۔ پرائیویٹ، پبلک اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹرز کی طرف سے ورکر کو دی جانے والی سہولیات کا سختی سے جائزہ لیا جائے۔ کاروباری حضرات کے منافع اور ورکر کو دی جانے والی سہولیات کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے۔

بزنس کلاس کو ورکرز کی زیادہ سے زیادہ فلاح کے لئے مجبور کیا جائے۔ صنعتی انقلاب کے چوتھے دور میں قدم رکھنے کے لئے ہمیں ورکر کو مناسب تنخواہ کے ساتھ ساتھ کام کا بہترین ماحول فراہم کرنا ہو گا۔ خوشحال ورکنگ کلاس بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کر سکے گی۔ جو آگے چل کر تیزی سے بدلتی دنیا کا مقابلہ کر پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments