‘آپریشن منس میٹ‘: ہٹلر کو جھانسا دینے کے لیے بنایا گیا ایک ناقابل یقین منصوبہ جس نے دوسری عالمی جنگ کا رُخ موڑا


ہٹلر
یہ کہانی اتنی لاجواب اور ڈرامائی ہے کہ یہ کسی مصنف کے تخیل کی پیداوار محسوس ہوتی ہے۔

سنہ 1943 میں جب دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی برطانوی انٹیلیجنس ایجنٹوں نے جرمنی کو یہ باور کرانے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ ترتیب دیا کہ اتحادی افواج سسلی کے بجائے یونان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔

اس منصوبے کا کوڈ نام ‘آپریشن منس میٹ‘ تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک شخص کی لاش کے ساتھ جعلی دستاویزات منسلک کر کے اسے ہسپانوی سمندر میں اس غرض سے بہایا جانا تھا کہ یہ جعلی کاغذات جرمنوں کے ہاتھ لگ جائیں اور اِن کی بنیاد پر وہ اپنی جنگی حکمت عملی ترتیب دیں۔

اور پھر یہی ہوا لاش سے منسلک یہ جعلی خفیہ معلومات ہٹلر کی میز تک پہنچ گئیں اور بظاہر اِن فرضی معلومات پر یقین بھی کر لیا گیا کیونکہ اس کے بعد جرمنی نے یونان، سارڈینیا اور بلقان کے دفاع کے لیے ٹینک، توپ خانہ اور جنگی جہاز تعینات کر دیے۔

اور بلآخر جب اتحادی فوجوں نے 10 جولائی 1943 کو (اپنے اصل منصوبے کے مطابق) سسلی پر حملہ کیا تو نازی بے خبری میں مارے گئے۔

یہ دھوکہ جزوی طور پر کامیاب ہوا، کیونکہ اس پلان کے منصوبہ ساز یعنی برطانوی بحریہ کے انٹیلیجنس افسران، ایون مونٹاگو اور چارلس چولمونڈیلی، نے اس افسانے کو گھڑنے میں بہت زیادہ محنت کی تھی۔

انھوں نے ایک بے گھر شخص کی لاش کو ایک فوجی کی شناخت دی اور ایک ایسی فرضی زندگی کی کہانی گھڑی جس میں کوئی جھول نہیں تھا اور جسے باآسانی قبول کیا جا سکتا تھا۔

ایک بے گھر شخص، جس کا اصل نام گلینڈور مائیکل تھا اور جو زہر خورانی کے باعث ہلاک ہو گیا تھا، کو مرنے کے بعد برطانیہ کی شاہی بحریہ کے ایک افسر ولیم مارٹن میں تبدیل کر دیا گیا۔ انٹیلیجنس اہلکاروں نے اُس بے گھر شخص کو ناصرف ایک نیا نام اور عہدہ دیا بلکہ اس کی بھرپور زندگی کی کہانی بھی گھڑی جس کے مطابق اُس کی منگیتر گھر پر اس کی منتظر تھی۔

مصنف اور تاریخ دان بین میکنٹائر کی سنہ 2010 کی اسی دلچسپ کہانی پر اب فلم بنائی جا رہی ہے۔

معروف فلموں کے ہدایتکار جان میڈن کی ہدایتکاری میں بننے والے اس فلم کا نام ‘آپریشن منس میٹ‘ رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔

حراستی کیمپوں کی خوبصورت خواتین محافظ، جنھیں قیدیوں کو اذیت دینا پسند تھا

جاسوسی کے الزام میں پاکستان کو مطلوب انڈین سفارتکار کے کراچی سے ڈرامائی فرار کی کہانی

اس میں میتھیو میکفادین کو ‘چولمونڈیلی‘ کا کردار دیا گیا ہے، ایک ایسا کردار جو اپنے قد اور کمزور بینائی کی وجہ سے پریشان تھے اور برطانوی سکیورٹی سروس، ایم آئی فائیو، میں تعینات تھے۔ درحقیقت یہ منصوبہ انھوں نے ہی تجویز کیا تھا۔

اور کولن فیرتھ جو ‘مونٹاگو‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں، مونٹاگو عالمی جنگ سے پہلے ایک کامیاب وکیل تھے اور انھوں نے یہ منصوبہ تیار کرنے میں مدد دی تھی۔

میکنٹائر کے مطابق ‘انھوں نے اس مکمل طور پر خیالی دنیا کی تعمیر کے لیے مل کر کام کیا۔‘

سخت گیر منتظم ہیسٹر لیگیٹ اور پُرجوش نوجوان سیکریٹری جین لیسلی کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک شناختی کارڈ، ایک یونیفارم، ایک افسر کے لیے موزوں انڈرویئر حاصل کیے، اور فرضی میجر مارٹن کے لیے ہر طرح کے ‘والٹ لیٹر‘ یا دستاویزات تیار کروائیں۔

اس میں اس کے بینک مینیجر کا ایک نوٹ بھی شامل تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ‘اوور ڈرا‘ ہوا ہے۔ اس فرضی میجر کی رنگین زندگی ظاہر کرنے کے لیے مختلف تھیٹروں اور کلبوں سے رسیدیں اور ٹکٹیں؛ اور، اس کی ‘پام‘ نامی فرضی محبوبہ کے محبت نامے، جن کے ساتھ ان کا جنگ سے پہلے کا رومانس تھا۔ یہاں تک کہ انھوں نے اسے منگنی کی انگوٹھی بھی دی۔

حتمی جنگ کی کہانی کی تخلیق

میکنٹائر کہتے ہیں عملی طور پر جنگ میں حصہ لینے کا یہ ایک حقیقی احساس ہے جو ان لوگوں نے اپنی تخلیق کے ذریعے بلاواسطہ طور پر حاصل کیا۔ ‘یہ وہ لوگ تھے جو میدان جنگ میں حقیقی معرکے میں حصہ لینے سے قاصر تھے، یا تو وہ بہت لمبے تھے، چولمونڈیلی کی طرح، یا بہت بوڑھے، مونٹاگو کی طرح، یا وہ جین جیسی عورتیں تھیں اور انھوں نے اپنے آپ کو پس پردہ یا زیر زمین جاری جنگ کا حصہ تصور کیا۔’

مارٹن کے لیے فرضی زندگی کی کہانی ترتیب دینے میں، اس مہم میں شامل ٹیم کو اپنی تخلیقی صلاحتیوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانا پڑا اور انھوں مصنفوں کی طرح سوچنے کی ضرورت پڑی۔ اور منس میٹ کی کہانی کے بہت زیادہ مصنفین ہیں، جس پر فلم بنائی گئی ہے۔

نام نہاد ‘ٹراؤٹ میمو‘، دشمن کو دھوکہ دینے کے ممکنہ طریقوں کی ایک فہرست جس نے چولمونڈیلی اور مونٹاگو کو متاثر کیا۔ یہ دستاویز ممکنہ طور پر جیمز بانڈ کے مصنف ایان فلیمنگ نے لکھی تھی، جو اس وقت ایڈمرل جیمز گاڈفری کے معاون تھے، یہ خیال ایک ناول سے لیا گیا تھا جو ایک اور جاسوس سے افسانہ نگار بننے والے باسل تھامسن نے تحریر کیا تھا۔

میکنٹائر کے مطابق اُن کے خیال میں یہ کوئی حادثہ نہیں ہے، کیونکہ 20 ویں صدی کے کچھ عظیم ناول نگار بھی جاسوس تھے مثلاً سومرسیٹ ماؤگم، گراہم گرین، جان بوچن اور جان لی کیری۔ ‘جاسوس جو کارووائیاں کرتے ہیں ان میں سے ایک جھوٹی دنیا بنانا اور کسی اور یہ باور کرانا ہے کہ یہ سب سچ ہے شامل ہے۔‘

یہ مصنف مشیل ایشفورڈ کی دلچسپی کا باعث بنا جب میکنٹائر کی کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ انھوں نے اسے پڑھا، پسند کیا اور اپنے قلم کے لیے ڈھال لیا۔

وہ کہتی ہیں ‘جاسوسی کہانیوں کے لیے یہ تقریباً ایک ویلنٹائن کی طرح ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جیمز بانڈ کا خالق دراصل اس کہانی کے معماروں میں سے ایک تھا۔‘

ایشفورڈ کا کہنا ہے کہ ‘مجھے یہ خیال پسند آیا کہ ایک زیر زمین سرد تہہ خانے کے ایک بند اور دھوئیں سے بھرے کمرے میں بیٹھے چند لوگوں نے کس طرح پوری جنگ کا پانسا پلٹ دیا۔ یہ وہی لوگ تھے جو سب پر بھاری ثابت ہوئے۔‘

یہ بجا طور پر ایک سچی کہانی جس کی بنیاد ایک افسانہ ہے اور افسانہ نگاری سے بھرپور ہے۔ سنہ 1950 میں سابق کابینہ کے وزیر، ڈف کوپر نے ناول ‘آپریشن ہارٹ بریک‘ شائع کیا، جس میں اِن واقعات کو ذرا ڈھکے چھپے انداز میں بیان کیا گیا۔

میکنٹائر نے وضاحت کی کہ جب ڈف کوپر سے پوچھا گیا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ سرکاری راز افشاں کر رہے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ‘ونسٹن چرچل ہر رات کھانے کے بعد یہ کہانی سُناتے تھے، تو وہ اسے کیوں نہیں کر سکتے؟‘

اس حقیقت نے مونٹاگو کو اس کہانی کو اپنے لفظوں میں تحریر کرنے کا حوصلہ دیا، جنھوں نے سنہ 1953 میں ‘دی مین ہو نیور واز‘ کے نام سے ناول شائع کیا (بعد میں اسی نام کی ایک فلم کی بھی بنی، جس نے کہانی کو مزید افسانوی بنا دیا گیا)۔ اس کتاب کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ اصل واقعات کی درست عکاسی ہے اگرچہ انھوں نے کچھ تفصیلات میں رد و بدل کی تھی۔ خاص طور پر یہ کہ متوفی کے اہلخانہ نے انھیں اس کی لاش استعمال کرنے کی اجازت دی، جب کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔

اب برطانیہ کے سینما گھروں میں فلم کی آمد کے ساتھ (شمالی اور لاطینی امریکہ میں نیٹ فلکس پر مئی کے مہینے میں پیش کیے جانے سے پہلے) اسی کہانی پر مبنی ایک میوزیکل سٹیج ڈرامہ دوبارہ برطانیہ میں پیش کیا جانے والے ہے اور اسے ‘آپریشن منس میٹ‘ ہی کا نام دیا گیا ہے۔

تھیٹر کمپنی ‘سپٹ لپ‘ کے تیار کردہ شو کو سنہ 2019 میں لندن میں پیش کیا گیا لیکن جلد ہی بڑے ہالوں میں ہاؤس فل شو ہونے لگا۔

مونٹاگو کا کردار ادا کرنے والی سپِٹ لِپ کی نتاشا ہوڈسن کہتی ہیں کہ ‘ہمیں واقعی بہت مزا آیا کہ یہ سوچ کر کہ انھیں افسانے تخلیق کرنے سے کتنی خوشی ملی ہو گی۔ ہم واقعی وہی خوشی حاصل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہم بھی تخلیق کر رہے تھے۔‘

فلم کی طرح، میوزیکل ڈرامہ وہ احساسات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جب آپ کے خواب پورے ہو جائیں اور آپ اس خوشی سے سرشار ہو جائیں۔

ہٹلر

ایک آدمی جسے فراموش کر دیا گیا

اس کہانی کے رومانوی حصہ میں گم ہو جانا آسان ہے لیکن جنگ کے دوران جاسوس کی کہانی بڑی متاثر کُن ہے اور جس میں زندگی کا رنگ کرداوں نے بھرا ہے لیکن اس میں اخلاقیات کے کچھ مسائل بھی ہیں۔

مارٹن کو تخلیق کرنے کے لیے، انھیں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا تھا جس کی کمی محسوس نہ کی جائے، ایک ایسا شخص جسے وہ ایک خالی سلیٹ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، گویا وہ کبھی زندہ ہی نہیں تھا۔

گلائنڈور مائیکل (لاش) کی شناخت سنہ 1996 تک ظاہر نہیں کی گئی تھی جب شوقیہ تاریخ دان راجر مورگن کو حال ہی میں ایک خفیہ دستاویز ملی جس میں اس شخص کا نام تحریر تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس کی واحد تصویر جو موجود ہے وہ فوجی وردی میں ملبوس اس کی لاش کی ہے۔

میکنٹائر کا کہنا ہے کہ اب بھی ان کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ وہ ویلز کا ایک بے سہارا نوجوان تھا جس کا کوئی خاندان نہیں تھا، غالباً ذہنی طور پر بیمار، جس کی لاش کنگز کراس کے ایک خالی گودام میں پائی گئی تھی اور جس نے ممکنہ طور پر خود کشی کی تھی۔

کہانی کا یہ ناخوشگوار پہلو کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں سپٹ لپ کو اپنے شو کو لکھتے وقت پورا احساس تھا۔ میوزیکل سٹیج ڈرامہ مونٹاگو اور ان کی ٹیم کے پیش کردہ واقعات پر مبنی ہے، لیکن کمنگز کے مطابق ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے اس کہانی کے ان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالیں جو کہ اخلاقی طور پر درست نہیں تھے۔

مزید پڑھیے

ناکام اداکارہ مگر کامیاب جاسوس جنھوں نے بڑے سیاستدانوں کو اپنے دام میں پھنسایا

ٹیپو سلطان کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ’جاسوس شہزادی‘ جنھیں سزائے موت دی گئی

دوسری جنگ عظیم کی وہ جاسوس جن سے نازی ’ڈرتے‘ تھے

ایشفورڈ کو بھی ان باتوں کا بخوبی علم تھا۔ وہ کہتی ہیں جنگ میں اکثر آپ کو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ‘وہ فلم میں اس کی عکاسی کرنے کی خواہشمند تھیں کہ مونٹاگو نے محسوس کیا کہ ‘وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ واقعی ہی قابل اعتراض ہے۔ لیکن وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ کیونکہ وہ جنگ کے بیچ میں ہیں اور اکثر جنگ میں مشکل فیصلہ کرنے پڑتے ہیں۔‘

کوڈ نام منس میٹ کو آپریشن کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے طنزیہ طور پر منتخب کیا گیا تھا۔

جیکسن نے کہا کہ ‘ہم نے کہانی الٹی شروع کی۔‘

‘بنیادی طور پر اسی طرح جیسے پاول اور پریس برگر فلم ‘اے میٹر آف لائف اینڈ ڈیتھ‘ میں ایک لڑکا آسمان پر آتا ہے، ایک ایئر مین کی وردی پہنے ہوئے اور جس کے پاس میجر مارٹن کی شناختی دستاویزات ہوتی ہیں، لیکن اسے کچھ یاد نہیں آتا کہ وہ کیسے آیا اور وہ کون ہے؟‘

ڈرامے میں مائیکل کو اپنی شناخت کی تلاش میں زمین پر لوٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اپنی تحقیق کے دوران، جیکسن ایک گورکن کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس نے آدھی رات کو مائیکل کی لاش کو منتقل کیا تھا۔ اس ڈرامے کا ایک جذباتی اور تکلیف دہ پہلو یہ احساس تھا کہ کسی شخص کو زندہ رہنے کے مقابلے میں موت کے بعد زیادہ اہم سمجھا جا سکتا ہے۔

جیکسن کہتے ہیں کہ اس کہانی کو اس زاویہ سے بیان کرنے سے انھیں اس کی زندگی کی قدر اور ان سے ہمدردی دکھانے میں مدد ملی۔

اس فلم میں ایک منظر شامل ہے جس میں مائیکل کی بہن ان کو اس طرح استعمال کرنے پر ان کی بے رحمی پر برہمی کا اظہار کرتی ہے۔ اس میں سپین کے ہیولوا میں اس کی قبر کا پتھر بھی دکھایا گیا ہے، جس پر اب گلائنڈور مائیکل اور میجر ولیم مارٹن دونوں نام درج ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ اس نے اپنے ملک کی خدمت کی، جو ایشفورڈ کو لگتا ہے کہ اس نے کیا۔

اتحادی افواج نے منصوبے کے مطابق سسلی پر حملہ کیا، لیکن جرمن اس بات پر قائل رہے کہ یہ ان کا دھیان اس طرف کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

میکنٹائر نے زور دیا کہ ‘یہ تاریخ کا واقعی ایک اہم لمحہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments