فوج کو سیاست سے علیحدہ کیسے رکھا جا سکتا ہے؟


عمران خان اور ان کے حامیوں پر اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ راز افشا ہوا ہے کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ اگرچہ ’خودداری اور بہادری‘ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود تحریک انصاف کے زعما یہ ہمت نہیں کر پا رہے کہ وہ فوج کو اپنے خلاف ’تحریک عدم اعتماد‘ کی صورت حال کا ذمہ دار قرار دے سکیں۔ اس مقصد کے لئے ایک نامعلوم ’امریکی سازش‘ کا سراغ لگایا گیا ہے اور اسے کھوجنے کا بوجھ ایک سفیر کے ناتواں کندھوں پر ڈال کر دنیا کی سپر پاور کے سامنے ڈٹ جانے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

اس بوالعجبی کے ہر پہلو پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ پہلے امریکہ میں سابق سفیر کے ایک مراسلہ کو ’سازش‘ کی بنیاد قرار دیا گیا اور جب پاک فوج کے ترجمان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے بھی سفیر اسد مجید کی وضاحت سننے، مراسلے کا جائزہ لینے اور انٹیلی جنس رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد یہ اعلان کر دیا کہ اس سفارتی مراسلہ سے کسی سازش کا سراغ نہیں ملا۔ البتہ اس میں پاکستان کے قومی معاملات پر غیر سفارتی انداز میں تبصرے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کیا گیا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس قسم کی مواصلت کس طرح کام کرتی ہے اور اس سے کس کو کیا پیغام پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دو ٹوک اعلامیہ نے چونکہ سازشی غبارے سے ہوا نکال دی تھی، اس لئے سینہ گزٹ اور سوشل میڈیا بوٹس کے ذریعے اسد مجید کو ’قومی ہیرو‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش بھی کر کے دیکھ لی گئی۔ ان خبروں کے مطابق اسد مجید ’حکومتی دباؤ‘ کے باوجود قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے ڈٹ گئے اور واضح کر دیا کہ امریکہ نے عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش کی تھی۔

اب سفیر کے ڈٹ جانے کی خبر نشر کرنے پر اے آر وائی پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی کے نوٹس کا جواب دے گا اور اغلباً بھاری جرمانے سے بچنے کے لئے معافی مانگ کر آگے بڑھنا پسند کرے گا۔ البتہ تحریک انصاف کے حامیوں کی سوئی، قومی غیرت اور امریکہ کی زور زبردستی پر اٹکی ہوئی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے تھے، اس لئے انہیں نشان عبرت بنانے کی سازش کی گئی اور ملک کے سارے بدعنوان سیاسی لیڈر اس سازش میں حصہ دار بن گئے۔ یوں جیبیں بھی ڈالروں سے بھر گئیں اور حکومت میں بقدر جثہ حصہ بھی مل گیا۔ جب کسی سیاسی لیڈر کو تقدیس کے کسی ایسے منصب پر فائز کر دیا جائے جس پر عمران خان کو ان کے حامیوں بلکہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے ایک چھوٹے سے گروہ نے بٹھا دیا ہے تو اس کا ہر جھوٹ قابل معافی اور ہر بہانہ قومی وقار کی علامت قرار پاتا ہے۔ عمران خان اس وقت اپنے حامیوں کے ایسے ہی جوش و ولولہ سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ چونکہ انہیں سیاست میں صرف للکارنے اور دھرنا دینے ہی کا تجربہ ہے لہذا اب وہ ایک بار پھر نئے انتخابات تک اسلام آباد میں دھرنے کا قصد کر رہے ہیں۔ ایک تازہ ویڈیو پیغام میں عمران خان نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں اس وقت تک دھرنا دینے کی تیاری کر کے آئیں جب تک ملک میں نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہوجاتا۔

یوں تو قدرت کی مہربانی اور عسکری حلقوں کی نظر کرم سے عمران خان ملک کے وزیر اعظم بھی بن گئے تھے اور فوج ہی کی سرپرستی کی وجہ سے بھاری بھر کم اپوزیشن بھی ان کی اتحادی حکومت کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کر سکی تھی۔ سینیٹ میں گو کہ اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی لیکن کچھ غیر مرئی قوتوں کے کرشموں سے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب سے لے کر دیگر اہم معاملات تک میں اقلیتی تحریک انصاف ہی سرخرو ہوتی رہی تھی۔ بلکہ 2019 کے آخر میں عمران خان نے بطور وزیر اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ناقص قانونی بنیاد کی وجہ سے اس حکم کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے یا توسیع کو بھول جانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کے بعد حکومت یا جنرل باجوہ نے تو ایسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا کہ توسیع کا ارادہ ترک کر دیا جاتا البتہ ایک بار پھر انہی ’چوروں اچکوں‘ کی مدد سے جنوری 2020 میں مسلح افواج کے سربراہان کی توسیع کا قانون منظور کروا لیا گیا۔ اس وقت بھی عمران خان کو یہ خیال نہیں رہا کہ وہ اپنے سارے سیاسی انڈے ایک ہی فوجی افسر کی ’ٹوکری‘ میں کیوں رکھ رہے ہیں۔

تاہم جب پراجیکٹ عمران خان نامی ہائبرڈ حکومت کا تجربہ یوں ناکام ہو نے لگا کہ ملکی معیشت ہاتھوں سے نکلنے لگی، ملک پر قرضوں کا بوجھ غیر معمولی طور سے بڑھنے لگا، متعدد اہم دارالحکومتوں میں حکومت پاکستان کے بارے میں بے چینی اور ناپسندیدگی اس حد تک بڑھی کہ اس سے ملکی مفادات براہ راست متاثر ہونے لگے تو کسی ٹھنڈی شام پرسکون لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے آخر اس منصوبے کو لپیٹنے کا عزم کیا گیا۔ پہلے اقدام کے طور پر آئی ایس آئی کے سربراہ کو تبدیل کیا گیا تو عمران خان کو لگا کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی ہے۔ وہ جنرل فیض حمید کے ’فیض‘ کے عادی تھے اور انہیں لگا کہ اگر وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہ رہے تو ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسی اندیشے میں انہوں نے براہ راست فوجی قیادت کو چیلنج کرنے کی غلطی کی جس کے بعد سنو بال سنڈروم کی طرح معاملات الجھتے چلے گئے۔ پشاور میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جیسے وزیر اعظم شہباز شریف کا استقبال کیا اور انہیں ان کے ساتھیوں کو سیکورٹی معاملات پر بریفنگ دی، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ فوجی افسروں کی وفاداری نظام اور اپنی کمان کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ کسی چنیدہ کے بھرے میں آ کر عسکری ڈسپلن کو توڑنے کے روادار نہیں ہوتے۔

یہ صورت حال سیاست میں عسکری قیادت کی دلچسپی، تجربوں اور ناکامیوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس کہانی کو مختصر الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انہی ناکامیوں سے پیدا ہونے والی مایوسی کے ماحول میں شہباز شریف کے الفاظ میں اسٹبلشمنٹ نے ’نیوٹرل‘ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی جس روز نامزد وزیر اعظم کے سر سے سایہ شفقت ہٹا لیا گیا، اکثریت اور دس سال تک حکومت کرنے کے خواب کا شیرازہ اسی وقت بکھر گیا۔ اور جو اپوزیشن سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن کے لئے ایک دوسرے کے دست و گریبان تھی، وہ یوں شیر و شکر ہوئی کہ اس وقت تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ چھوٹی بڑی سب پارٹیاں ایک چھتری تلے اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکومتی پارٹیوں کا یہ فیصلہ کس حد تک درست یا غلط ہے، یہاں اس پر بحث مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرنا مقصود ہے کہ ایک تجربہ کار سیاسی لیڈر کے طور پر عمران خان کو اس ہزیمت کے بعد کیا سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ یا اس ذلت آمیز انجام سے بچنے کے لئے کیا اقدام کرنے کی ضرورت تھی۔

یہ صریح غلط بیانی ہے کہ 7 مارچ کے خط میں سازش کا انکشاف ہوا اور 8 مارچ کو اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کر وادی۔ اگر اس بیان کو درست ماننا ہے تو کہنا چاہیے کہ عمران خان خود بھی اس سازش کا حصہ تھے جو 7 مارچ سے 27 مارچ تک قومی سلامتی کے خلاف کی گئی اس سازش کے بارے میں مہر بلب رہے۔ نہ امریکہ سفیر سے احتجاج کیا گیا، نہ اپنا سفیر واشنگٹن سے واپس بلا کر ناپسندیدگی ریکارڈ کروائی گئی اور نہ ہی بروقت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اعلیٰ عسکری قیادت کو اس سنگین صورت حال سے متنبہ کیا گیا۔ یہ کہنا بھی لاعلمی کا مظاہرہ ہو گا کہ کسی اہم ملک میں سفیر تو وزارت خارجہ کو سازش کی اطلاع دیتا ہے اور وہاں تعینات ملٹری اتاشی کو اس کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی یا وہ اپنی قیادت کو اس بارے میں بتانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا۔ حالات و واقعات کی یہ ترتیب ہی عمران خان کے سازشی نظریہ کو غلط اور بے بنیاد ثابت کرتی ہے لیکن وہ بہر صورت اسے اپنے حامیوں کو فروخت کر کے عالم اسلام کے دلیر لیڈر کا روپ دھارنا چاہتے ہیں۔ کسی جمہوری لیڈر اور سیاسی جد و جہد پر یقین رکھنے والے سیاست دان کو یہ ہتھکنڈے زیب نہیں دیتے۔

عمران خان اگر واقعی باہمت سیاست دان ہوتے تو وہ اپنی حکومت کے بارے میں فوج کی ناراضی کا احساس کرتے ہی قومی اسمبلی اور ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیتے اور سب سیاسی لیڈر مل کر واضح کرتے کہ اگر قوم کو کسی جھرلو کے ذریعے اقتدار میں لایا ہوا ’نامزد وزیر اعظم‘ منظور نہیں ہے تو کسی بھی وزیر اعظم کو درپردہ جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کا طریقہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ نواز شریف 2014 میں عمران خان کے دھرنے کی شکل میں اٹھائے گئے طوفان کو لگام دینے کے لئے یہ طریقہ کامیابی سے استعمال کرچکے تھے۔ اگر عمران خان کی نام نہاد ’غیرت‘ کسی صورت ان اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں تھی تو وہ قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیتے اور بتاتے کہ فوجی قیادت انہیں اقتدار سے محروم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کا ایسا ایک بیان نہ صرف ان کے ہاتھ مضبوط کرتا بلکہ اپوزیشن کی تمام سیاسی مہم جوئی کا خاتمہ بھی کر سکتا تھا۔ اور عمران خان بھی عدم اعتماد سے نکالے گئے پہلے وزیر اعظم بننے کی بجائے ایسے وزیر اعظم کہلاتے جس نے عسکری قیادت کی ریشہ دوانیوں کا برملا اعلان کر کے ملکی جمہوریت کو نئی زندگی دی۔

اگر یہ دونوں کام کرنے کا حوصلہ نہیں تھا تو وہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو آئین شکنی پر اکسانے کی بجائے، استعفیٰ دے کر نئے انتخاب کی تیاری کرتے تو یہ اقدام زیادہ باوقار اور کسی قومی لیڈر کے شایان شان ہوتا۔ اب بھی جب ان پر یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ فوجی قیادت کی ناراضی کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو انہیں خود یہ سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ماضی میں وہ کیسے نواز شریف کے خلاف ایسی ہی کوششوں میں آلہ کار بنے تھے۔ اب اپنی یہ غلطی سدھارنے اور قومی سیاست میں عسکری مداخلت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی نئی حکمت عملی اختیار کرنے کا وقت تھا۔ اس کا راستہ سازش کے گمان پر سوار ہو کر براستہ امریکہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے کی بجائے سیاسی لیڈروں کے ساتھ مواصلت و مفاہمت پیدا کر کے ایک وسیع تر میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے پیدا کر کے تراشا جاسکتا تھا۔ لیکن عمران خان اس جد و جہد میں اپنے فطری حلیفوں کو چور اچکے، سازشی اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح عسکری قیادت کو دھونس، دھمکی، دباؤ یا منت سماجت سے مجبور کیا جائے کہ وہ ان سے رجوع کر لے۔ یہ راستہ وہی ہے جس کے لئے وہ شہباز شریف پر ’چیری بلاسم‘ کی پھبتی کستے ہیں۔

فوج کو سیاسی مداخلت سے باز رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک کی سب سیاسی قوتیں کھل کر اس طریقہ کو مسترد کریں اور ایک دوسرے کے خلاف درپردہ کوششوں کا حصہ بننے سے انکار کریں۔ اس سلسلہ میں پہلا اور موثر ترین اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ اتفاق رائے سے قانون منظور کیا جائے کہ کسی آرمی چیف کے عہدے میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ نہ ہی کوئی وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرسکے گا۔ بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح کسی آرمی چیف کے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد سینئر ترین جنرل اس عہدے پر متمکن ہو جائے۔

اگر ہمارے کم ہمت سیاست دانوں سے یہ ممکن نہیں ہے تو وہ مل کر آئین میں یہ تبدیلی تو کر ہی سکتے ہیں کہ تمام قومی معاملات میں آرمی چیف کا فیصلہ حرف آخر ہو گا۔ یوں ملک میں جمہوریت آئے یا نہ آئے یہ قوم اس تہمت سے تو محفوظ ہو سکے گی کہ ہر با اختیار آئین کے برعکس کام کرتا ہے لیکن کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments