موجودہ دور کا میر جعفر کون ہے، پہچاننا مشکل نہیں


اب میر جعفر قرار دے دیا یعنی کہ ان کے شوشے کے مطابق امریکہ نے ان کو اقتدار سے رخصت کرنے کی غرض سے ایک موجودہ دور کے میر جعفر کو استعمال کیا ہے اور انہوں نے میر جعفر کی تشریح کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی رخصتی کرنے والوں کو میر جعفر قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وہ میر جعفر کس کو قرار دے رہے ہے۔ وہ اقتدار پر براجمان تھے اور ان کے خیال میں جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے رہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے یعنی وہ یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ انہوں نے اپنے کرم فرماؤں کو بھی بند گلی میں داخل کر ڈالا ہے اور اب راستہ کسی کے پاس کوئی نہیں بچا ہے حالانکہ ایک راستہ موجود تھا اور سب سے مناسب بھی کہ غیر جانبداری کا راستہ اختیار کر لیا جائے اور سیاست کو اس کے فطری بہاؤ کا موقع فراہم کیا جائے۔ اور یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ خیال رہے کہ مستقبل میں بھی یہ ہی راستہ اختیار رکھنا چاہیے جو کہ صوابدیدی نہ ہو بلکہ فرض ہو کہ اسی پر چلنا ہے۔

بہرحال اس کے بعد میر جعفر کی اصطلاح کا استعمال سامنے آیا ہے۔ میر جعفر کون تھا اور اس کا کردار اور خواہش کیا تھی؟ اس کی خواہش یہی تھی کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار کی گدی پر براجمان ہو جائے اور اسی مقصد کی خاطر اس نے بنگال کے اقتدار اعلی کو گنوایا اور غیر ملکی طاقت کے لئے یہ ممکن بنا دیا کہ وہ بنگال کے سیاہ و سفید کے مالک بن جائے۔

وطن عزیز میں بھی معاملہ یہ ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے اور اب اقتدار میں واپس آنے کی غرض سے غیر ملکی طاقتوں کو اس انداز سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے محسوس ہو جیسے پاکستان ایک آزاد ملک نہیں بلکہ دو طاقتوروں کے درمیان اس معاملے کی کشمکش جاری ہے کہ کون ہمیں اپنی کالونی بناتا ہے اور کس سے ہماری مخالفت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ معاشی اور تزویراتی مفادات کی غرض سے پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو اسی نہج سے دیکھنا چاہیے اور کسی کی خواہش یا کسی کو خوش کرنے کی غرض سے دوسرے سے تعلقات کو داؤ پر نہیں لگا دینا چاہیے۔

گزشتہ حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے سی پی کو ایک معاشی مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھنے کی بجائے صرف اس نظر سے دیکھا کہ امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو اور اس کے اہم ترین منصوبے سی پیک کو اپنے مفادات کے لئے مناسب نہیں خیال کر رہا ہے اس لیے اس کو عوام کی نظروں میں متنازع بنا کر کام کی رفتار کو کم کر دیا گیا تاکہ امریکہ کو خوش کیا جا سکے ایم ایل این کی بار بار مثال دیتا ہوں اور اس وقت تک اس کا ذکر کرتا رہوں گا جب تک اس پر کام حقیقی معنوں میں شروع نہیں ہو جاتا ہے۔

نتیجہ یہ کہ چین پاکستان تعلقات کو دھچکہ لگا اور صرف چین پاکستان تعلقات کو ہی دھچکہ نہیں پہنچا بلکہ پاکستان کی قومی معیشت سنبھالنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا اس کو بھی شدید نقصان پہنچا اور قومی معیشت روز بروز گڑھے میں گرتی چلی گئی۔ اصل مسائل کو حل کرنے کی بجائے وزرائے خزانہ کی تبدیلی کی جاتی رہی جو کہ خود بھی اصل مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ انتظامی طور پر اہلیت کا فقدان اس قدر تھا کہ پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس ایسے تبدیل ہوتے رہیں جیسے ریستورانوں کا مینیو تبدیل ہوتا ہے کہ آج یہ ذائقہ ہے اور کل یہ ذائقہ۔

جب یہ تبدیلی مکمل تباہی بن چکی تھی تو کرسی کا کمزور ہونا نوشتہ دیوار بن کر سامنے آ گیا اور نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی غرض سے پہلے ونٹر اولمپکس میں پہنچ گئے اور پھر دورہ ماسکو کرنے چلے گئے تاکہ ایک نئی کہانی کی تخلیق ممکن ہو سکے اور اس پر شور شرابا مچایا جا سکے جیسے کہ کبھی 35 پنکچر والی کہانی سنائی گئی تھی اور پھر بس ہنس کر دکھا دیا تھا کہ یہ تو بس ایک کہانی ہی تھی۔ دورہ ماسکو کے حوالے سے ایک اور بھی شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ وہاں سے ہمیں گندم اور تیل کم قیمت پر مل رہا تھا اس لئے میں گیا تھا۔

جب دونوں ممالک کے درمیان ایسی کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو اس پر سرکاری اداروں میں فائل ورک کیا جاتا ہے دوسرے ممالک کے جواب کو اس کے ساتھ محفوظ کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر قائل ہو گئے تھے یہ کوئی زبانی کلامی بات تو ہوتی نہیں ہے۔ مگر اس سارے شور شرابے میں کہ روس ہمیں گندم اور تیل کم قیمت پر دے رہا تھا ایک ورقہ بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں ہے اگر ایک بھی ایسا ورقہ موجود ہے جس پر یہ موجود ہو کہ روس نے کم قیمت پر گندم تیل دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی تو وہ اس کو عوام میں پیش کر دیں مگر وہ ایسا نہیں کرسکیں گے کیونکہ سفارتی تعلقات کو چاہے وہ چین ہو امریکہ ہو یا روس وہ صرف اپنی حکومت کو بچانے کے لئے اور اب اقتدار میں واپس آنے یا کم ازکم کرپشن کیسز سے نکلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ چاہے ایسے استعمال سے وطن عزیز کو اس محاذ پر جس مرضی حد تک سبکی اور مشکلات کا سامنا ہو اور حقیقت میں ہی ہمارا اقتدار اعلی موضوع بحث بن جائے۔ یہ سب کرنے کے بعد یہ پہچاننا مشکل نہیں کہ موجودہ دور کا میر جعفر کون ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments