کراچی میں ہونے والا پاکستان کا ’پہلا خودکش حملہ‘ کب اور کس نے کیا تھا؟

جعفر رضوی - صحافی، لندن


نوائے وقت
نوائے وقت کا دفتر کراچی میں بانی پاکستان کے مزار کے سامنے ایم اے جناح روڈ پر واقع تھا
26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں ایک خاتون حملہ آور کے خودکش حملے کی خبروں نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آج سے 22 برس قبل یہی کراچی شہر تھا اور یہاں ہونے والا ’پہلا خودکش حملہ‘ بھی ایک خاتون نے ہی کیا تھا۔

جانیے اس تحریر میں اس خودکش حملے اور اس خاتون خودکش حملہ آور کی کہانی۔


’دھماکہ بہت شدید تھا۔ دفتر کی پوری عمارت لرز اٹھی۔ پھر وہاں بس کالے دھوئیں کے گہرے بادل تھے۔ زخمیوں کی آہیں، یا پھر بچ جانے والوں کی چیخ و پکار۔۔۔ میں بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں!‘

اُس نامعلوم چشم دید گواہ کے لہجے میں گھبراہٹ اور چہرے پر اُڑتی ہوائیاں مجھے آج 20 برس بعد بھی اچھی طرح یاد ہیں۔

وہ عینی شاہد مجھے چھ نومبر 2000 کو پاکستان کے بڑے اُردو اخبارات میں شمار ہونے والے روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے کراچی میں واقع دفتر پر تھوڑی ہی دیر قبل ہونے والے اس بم حملے کا آنکھوں دیکھا حال مجھے بتا رہے تھے۔

اسے پاکستان کی تاریخ کا ’پہلا خودکُش حملہ‘ کہا جاتا ہے۔

اس حملے میں مبینہ ’حملہ آور خاتون‘ اور نوائے وقت کے تین ملازمین سمیت چار افراد ہلاک اور دو ملازموں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ پیر کا دن تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کھجی گراؤنڈ: کھیل کا وہ میدان جہاں کبھی موت مقبول ترین کھیل تھی

کراچی آپریشن: ’اس شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی‘

لیاری گینگ وار: عالمی کھلاڑیوں کے علاقے میں موت کے کھلاڑی کیسے پیدا ہوئے؟

تب میں پاکستان کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں کرائم رپورٹر تھا اور حملے کے وقت اتفاقاً کسی اور خبر کی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ذرا فاصلے پر واقع گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹرز جاتے ہوئے حملے کا نشانہ بننے والے اس دفتر کے قریب سے گزر رہا تھا۔

حملے میں تباہ ہو جانے والا اخبار کا یہ دفتر شہر کے مرکزی علاقے کی اُس ایم اے جناح روڈ پر قائم تھا جہاں بانی پاکستان محمد علی جناح کا مزار واقع ہے۔ دفتر کی یہ عمارت شہر کے ضلع شرقی کے تھانہ سولجر بازار کی حدود میں یعنی مزار قائد کے عین سامنے تھی۔’

اس زوردار بم دھماکے سے اس عمارت کے زیریں حصے میں آگ بھڑک اُٹھی اور گہرے دھوئیں نے عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دفتر کے باہر کھڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی شدید متاثر ہوئی تھیں۔

دھماکے کی زوردار آواز اور حملے میں زخمی ہو جانے والوں یا زندہ بچ جانے والے افراد کی چیخ و پکار سے سارا علاقہ گونج اُٹھا تھا۔ عمارت سے اُٹھتے شعلوں اور دھوئیں کے بادل کو دیکھتے ہی شہر کی اس مرکزی شاہراہ سے گزرنے والی گاڑیاں رکنے لگیں تھیں۔

حملہ

فائل فوٹو

آس پاس کی عمارتوں سے گھبرائے ہوئے لوگ باہر نکل آئے اور قریب واقع دکانوں کے مالکان، خریدار اور آس پاس موجود دفاتر کے ملازمین، سب پر مشتمل ایک بڑا ہجوم عمارت کے باہر جمع ہو گیا۔

جلد ہی قریب ہی گشت کرنے والے پولیس اہلکار اطلاع ملنے پر تھانہ سولجر بازار سے پولیس کی بھاری نفری اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے امدادی اداروں کے کارکنوں کی بھاری جمعیت بھی آن پہنچی۔ تب ہی مجھے بھی اِس حملے کی سُن گُن ملی اور میں بھی فوراً ہی وہاں جا پہنچا۔

اور وہیں وہ انتہائی خوفزدہ اور گھبرایا ہوا نامعلوم شخص جو اُس حملے کا عینی شاہد تھا مجھے ڈرتے ڈرتے تفصیلات بتا رہا تھا۔

’پہلا خودکش حملہ‘

’نوائے وقت‘ پر ہونے والا اس حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کراچی تو کیا پورا پاکستان پہلی بار ’خود کُش‘ حملے کی اصطلاح سنائی دی گئی۔

اس حملے سے قبل 1990 کی پوری دہائی کے دوران اہل کراچی فرقہ واریت و لسانیت، سیاسی مخالفت و ذاتی بغض و عناد سمیت ہر قسم کی مارا ماری، تشدد اور قتل و غارت دیکھ چکے تھے۔

تب تک شہر کا گوشہ گوشہ اور چپّہ چپّہ، تقریباً ہر لہجے اور زبان کا نوحہ سُن چکا تھا اور سڑکیں، گلیاں اور محلے غالباً ہر گُروہ و ذات کے خون کے دھبے دیکھ چکے تھے۔ دیکھنے سننے کو اب اگر کچھ رہ گیا تھا تو وہ بس ’خود کش حملہ‘ ہی تھا۔

تب کراچی انتظامی طور پر وسطی، غربی، شرقی، جنوبی اور ملیر کے پانچ اضلاع میں منقسم تھا۔

شہر کے وسط میں جہاں یہ دھماکہ ہوا وہ مقام انتظامی لحاظ سے تو ضلع شرقی کا حصّہ ہے مگر محل وقوع کی بنیاد پر جنوبی اور مشرقی اضلاع کے سنگم پر واقع ہے۔ بیس برس بعد اب اس کہانی کو دوبارہ لکھنے کے لیے مجھے اب کم از کم 20 افراد کی مدد حاصل کرنی پڑی۔

اُن میں سے بعض کے خیال میں اس حملے کو مکمل طور پر خودکُش یا پہلا خودکُش حملہ قرار دینا ’متنازع‘ ہو گا۔

مگر یہ تمام افراد متفق ہیں کہ پاکستان میں اس سے پہلے ’خودکش حملے‘ کا کوئی تصور نہیں تھا۔

حملہ کیسے ہوا؟

حملے سے متعلق تھانہ سولجر بازار میں درج ایف آئی آر 190/2000 اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق حملہ دن بارہ بج پر چالیس منٹ پر کیا گیا۔

عینی شاہدین، پولیس چالان، استغاثہ اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق حملے میں خود بھی ہلاک ہو جانے والی ان خاتون کو ہی (مبینہ) طور پر ’حملہ آور‘ سمجھا گیا جو حملے سے ذرا ہی پہلے ’اشتہار بُک کروانے کے لیے‘ اخبار کے دفتر میں داخل ہوئی تھیں۔

جو کہانی آپ پڑھ رہے ہیں وہ بی بی سی کو حاصل ہونے والی دستاویزات یعنی اس واقعے کی ایف آئی آر، اس مقدمے کے عدالتی ریکارڈ اور اس سلسلے میں کیے جانے والے کئی انٹرویوز کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے۔

کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری اور صحافی علاؤالدین خانزادہ اب نیو ٹی وی کراچی کے بیورو چیف ہیں اور نوائے وقت پر ہونے والے اس حملے کے وقت اردو روزنامہ ’جسارت‘ کے کرائم رپورٹر تھے۔

وہ بھی اُن چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو حملے کے فوراً بعد موقع پر پہنچے تھے۔

خانزادہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت حکام نے ہمیں بتایا تھا کہ مبینہ طور پر حملہ آور سمجھی جانے والی نامعلوم خاتون ایک گاڑی کے ذریعے نوائے وقت کے دفتر پہنچیں اور انھوں نے مرکزی دروازے پر تعینات حفاظتی عملے کو بتایا کہ وہ کوئی اشتہار بک کروانا چاہتی ہیں۔‘

عمارت کے اندر داخل ہونے پر پتا چلتا ہے کہ دائیں جانب بالائی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں اور بائیں جانب استقبالیہ۔ استقبالیے کے عین عقب میں شعبۂ اشتہارات تھا۔

اخبار میں اشتہارات شائع کروانے کی غرض سے آنے والے افراد عملے سے یہیں ملاقات کرکے بکنگ کرواتے تھے۔نوائے وقت کے عملے کے ایک سابق رکن کے مطابق اُن خاتون کو بھی شعبۂ اشتہارات کے دفتر میں لے جایا گیا۔

استغاثہ، پولیس اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ نامعلوم خاتون اندر جا کر نگراں شعبہ اشتہارات سید نجم الحسن زیدی (جنھیں عدالتی ریکارڈ میں کہیں کہیں نجم حیدر زیدی بھی لکھا گیا ہے) کی ڈیسک کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھیں تو نجم الحسن زیدی نے چوکیدار اعظم خان سے (جو اس وقت تقریباً بارہ برس سے ادارے کے ملازم تھے) چائے لانے کو کہا۔

نوائے وقت

سندھ پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے سربراہ معین الدین کا مؤقف تھا کہ یہ حملہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا (فائل فوٹو)

گواہوں کے مطابق اُس وقت کمرے میں مینیجر سرکولیشن ضیا الحق اور کمپیوٹر آپریٹر ساجد محمود بھی موجود تھے۔

جیسے ہی اعظم خان چائے لانے کے لیے کمرے سے نکلنے لگے، ایک زبردست دھماکے سے اس کمرے کی چھت اور دیواریں ٹوٹ گئیں، در و دیوار لرز اُٹھے اور ہر طرف شعلوں کی حدت اور دھوئیں کے گہرے بادل چھا گئے۔

دھماکے کے نتیجے میں نجم الحسن زیدی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ خاتون کی لاش ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

مینیجر سرکولیشن ضیا الحق اور کمپیوٹر (یا پرنٹر) آپریٹر ساجد محمود بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے۔ چوکیدار اعظم خان اور دیگر ملازمین نذیر، جمیل، خدا بخش اور یعقوب اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔

رضا حیدر اُس وقت نوائے وقت کے فوٹو گرافر تھے۔ اُن کے مطابق حکام کو شبہ تھا کہ اس حملے میں خاتون کو استعمال کیا گیا تھا اور وہ ایک پارسل بم لے کر آئی تھی۔ ایک سابق پولیس افسر کے مطابق دھماکہ خیز مواد ایک ٹیپ ریکارڈر یا کیسٹ پلیئر میں چھپایا گیا تھا۔

انسپکٹر محمد احسان ملک (اُس وقت کے ایس ایچ او تھانہ سولجر بازار) ہی اس مقدمے کے مدعی تھے (جو بعض سینیئر پولیس افسران کے مطابق اب حیات نہیں ہیں)۔

ایف آئی آر میں حملے کے بارے درج تفصیلات کے مطابق جب گشت پر مامور پولیس ٹیم زوردار دھماکے کی آواز سُن کر موقع پر پہنچی تو نوائے وقت کے دفتر سے دھواں اٹھ رہا تھا اور عمارت میں آگ لگی ہوئی تھی۔

پولیس افسران نے اخبار کے زندہ بچ جانے والے عملے، راہگیروں اور موقع پر جمع ہو جانے والے کئی دیگر افراد کی مدد سے ہلاک ہو جانے والے ایک شخص کی (ٹکڑوں میں بٹ جانے والی) لاش اور چھ زخمیوں کو متاثرہ عمارت سے نکال کر طبی امداد اور پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال روانہ کیا، جہاں ساجد محمود کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر نثار علی شاہ اور مبینہ خاتون حملہ آور کی لاش کے ٹکڑوں کا معائنہ ڈاکٹر فریدہ نے کیا۔

حملے کی ایف آئی آر ایک گھنٹے بعد یعنی ایک بج کر چالیس منٹ پر درج کی گئی۔

اُس وقت سندھ پولیس کے سربراہ آئی جی آفتاب نبی تھے اور کراچی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی طارق جمیل تھے۔ آفتاب نبی یا طارق جمیل دونوں کا اب کہنا ہے کہ 20 برس گزر جانے کے بعد انھیں واقعے کی تفصیلات تو یاد نہیں مگر یہ حملہ ایک خودکُش حملہ ہی سمجھا گیا تھا۔

کئی سینیئر پولیس افسران جنھوں نے بعد ازاں اس واقعے کی تفتیش کی یا تفتیش کی نگرانی کی، انھوں نے تب ہم کرائم رپورٹرز کو جو تفصیلات بتائیں وہ اس وقت سندھ پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ (بی ڈی ایس) کے سربراہ معین الدین کے اس مؤقف پر مبنی تھیں جو انھوں نے اپنے ابتدائی اندازے کے مطابق وہاں موقع پر ہم صحافیوں کو بھی بتایا تھا۔

بی ڈی ایس کے اس وقت کے سربراہ معین الدین (جو اب حیات نہیں ہیں) کا (اُس وقت) کہنا تھا کہ انھیں شبہ ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر ایک ’ٹائم ڈیوائس‘ کے ذریعے کیا گیا۔

صحافیوں اور اخبار نویسوں کے تحفظ کے لیے قائم عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر این کے کُوپر نے اُسی شام پاکستان کے فوجی حکمران اور فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ایک مراسلہ بھیجا جس کے مطابق اس حملے پر سی پی جے کی جانب سے پاکستان میں صحافیوں اور اُن کی زندگی کو لاحق خطرات پر تشویش ظاہر کی گئی اور خاتون سمیت تین افراد کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا۔

اس مراسلے میں بھی نامعلوم خاتون پر ہی حملہ آور ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔ عمارت کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے جنرل مشرف کو یاد کروایا گیا کہ یہ پاکستان میں صحافیوں یا نوائے وقت (دونوں پر) پہلا حملہ نہیں تھا۔

سی پی جے کے مراسلے کے مطابق اس حملے میں عمارت کو بھی زبردست نقصان پہنچا تھا، عمارت کی چھت اور دروازے ڈھے گئے تھے اور کھڑکیاں اور دروازے اُڑ گئے تھے۔

فوٹو جرنلسٹ رضا حیدر کے مطابق بھی دھماکے سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا اور وہاں کھڑی کار اور موٹر سائیکل بھی تباہ ہو گئی تھیں۔

دھماکہ

فائل فوٹو

سی پی جے کے مطابق 21 جون 1995 کو بھی نوائے وقت پر حملہ ہوا تھا اور آر پی جی گولے داغے گئے تھے۔ اور سی پی جے نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل مشرف کو یاد دہانی کروائی تھی کہ صرف سنہ 2000 کے سوا 11 ماہ کے دوران ہی ملک میں 34 بم حملے کیے گئے تھے۔

رضا حیدر اور سی پی جے دونوں کے مطابق سنہ 1995 کے اس حملے کے بعد نوائے وقت کے اخباری (ادارتی) عملے یعنی نیوز روم اور صحافیوں کو سنہ 1997 میں اس دفتر سے کئی میل دور ڈیفنس کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا اور چھ نومبر 2000 کے حملے کے وقت ایم اے جناح روڈ کی اس عمارت میں صرف سرکولیشن اور شعبۂ اشتہارات کا ذیلی دفتر قائم تھا۔

آٹھ نومبر کو یعنی حملے کے دو دن بعد پولیس اور تفتیشی حُکام نے چوکیدار اعظم خان کی مدد سے مبینہ حملہ آور یا ممکنہ طور پر خود بھی سامان میں دھماکہ خیز مواد سے لاعلم خاتون کا خاکہ تیار کیا۔

تنازع

دی نیوز کے سابق چیف رپورٹر ضرار خان اس وقت پاکستان کی پہلی آن لائن نیوز سروس ساؤتھ ایشیا میڈیا وائز (یا سیم ڈبلیو آن لائن) کے کراچی دفتر میں تعینات تھے۔

اُس وقت پاکستان میں نجی (اور لائیو) نیوز ٹی وی چینلز تو تھے نہیں لہٰذا ضرار خان ہی اُن اولین صحافیوں میں شامل تھے جنھوں نے پاکستان سے باہر کی دنیا کو اِس حملے کی خبر دی۔

مگر ضرار خان پولیس تفتیش کاروں یا حکام کے اس شبہے سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے کہ یہ ایک خودکش حملہ یا پاکستان کا پہلا خودکش حملہ تھا۔

’خودکش حملہ آور تو اپنی مرضی سے جان دیتا ہے اور مخالف کی جان لیتا ہے۔‘

ضرار خان اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے کہ چھ نومبر 2000 کا حملہ پہلا خودکش حملہ سمجھا گیا لیکن اگر آپ غور کریں تو حکام اب بھی شبہ ظاہر کرتے کہ ممکنہ طور پر یہ خودکُش حملہ ہو سکتا ہے۔ میں نے اس خبر کے لیے (اُس وقت) جن ذرائع سے بات کی تھی اُن میں چند کو تو یہ شبہ بھی تھا کہ شاید دھماکہ خیز مواد لانے والی خاتون کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کو جو سامان اندر لے جانے کے لیے دیا گیا ہے وہ دھماکہ خیز مواد ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یعنی خود خاتون بھی لاعلمی میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اسے خودکش حملہ کیسے کہا یا سمجھا جا سکتا ہے؟ تو شک تو بہرحال موجود ہے۔‘

علاؤ الدین خانزادہ بھی کسی نہ کسی طرح ضرار خان کی بات سے متفق نظر آئے۔

علاؤ الدین خانزادہ کہتے ہیں کہ ’ہماری بعد کی تفتیش میں اتنا تو معلوم ہو سکا کہ یہ شاید کوئی بنگالی نژاد خاتون تھیں جنھیں کچھ رقم کا لالچ دے کر نیو کراچی کے علاقے سے یہ کہہ کر لایا گیا تھا کہ آپ بس کچھ سامان (اخبار کے دفتر کے) اندر دے آئیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر تو یہ مؤقف کمزور اور مشکوک ہے کہ یہ مکمل طور پر خودکش حملہ تھا۔‘

مظہر عباس اب جیو نیوز سے وابستہ ہیں اور اس وقت فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹر تھے۔ مظہر عباس اس وقت خود بھی پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے کے کراچی چیپٹر (کے یو جے) کے مرکزی رہنما تھے۔

’مجھے یاد ہے کہ یہ پاکستان میں پہلا خودکش حملہ سمجھا گیا تھا۔ اور شبہ خاتون پر ہی تھا کہ انھوں نے یہ خودکش حملہ کیا ہے۔‘

مظہر عباس یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحافیوں کی تنظیم نے ہلاک و زخمی ہونے والوں کو بھی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا اور جن کی املاک (گاڑیاں، موٹر بائیک اور دیگر اشیا کا نقصان ہوا تھا، وہ بھی پورا کرنے کے لیے حکام سے مطالبات کیے تھے اور ازالہ کیا بھی گیا تھا۔‘

مظہر عباس

مظہر عباس اس وقت فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹر

الزام متحدہ قومی موومنٹ پر

جلد ہی تفتیش کاروں کی جانب سے اِس حملے کا الزام الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر عائد کر دیا گیا۔

روایتی تفتیش کے بعد عدالت میں جمع کروائے جانے والے چالان کے مطابق پولیس نے اس حملے میں ایم کیو ایم کے کارکنان محمد عزیر قریشی، کاظم رضا، جاوید احمد خان، جاوید ترک اور مبین وغیرہ کو ملوث قرار دیا۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق نامزد ملزمان میں سے صرف محمد عزیر قریشی کو گرفتار کیا جا سکا جبکہ باقی دیگر ملزمان مفرور رہے۔

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیے گئے چالان کے مطابق استغاثہ کا مؤقف تھا کہ خاتون حملہ آور کا تعلق بھی نامزد ملزمان سے تھا اور اس حملے کی منصوبہ بندی ایم اے جناح روڈ پر ہی واقع رمپا پلازہ کی چوتھی منزل کے کمرہ نمبر پانچ میں کی گئی۔

استغاثہ کے مطابق نامزد ملزمان نے اس حملے منصوبہ بندی کے لیے تین نومبر 2000 کو لالو کھیت کے علاقے سے صابر خان کی ٹیکسی کرائے پر یہ کہہ کر حاصل کی کہ پہلے رمپا پلازہ جانا ہے پھر نیو کراچی جانا ہے۔

اس ٹیکسی میں چار افراد پیچھے اور خاتون آگے بیٹھیں، یہ سب لوگ رمپا پلازہ گئے اور ٹیکسی ڈرائیور صابر خان کو نیچے ہی انتظار کرنے کے لیے کہا۔

جب 30 سے 40 منٹ تک وہ واپس نہ آئے تو ٹیکسی ڈرائیور صابر خان نے اوپر جا کر انھیں تلاش کرنا چاہا تو دیکھا کہ خاتون باہر بیٹھی ہیں اور باقی سب اندر کمرے میں ہیں۔

استفسار کرنے پر ملزمان نے نیو کراچی جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور صابر خان کو سو روپے دے کر فارغ کر دیا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق جب نو جنوری 2001 کو صابر خان نے ملزمان میں سے ایک کی تصویر دیکھی تو خود ہی رضا کارانہ طور پر سی آئی اے سینٹر صدر پہنچ کر پولیس کو ملزمان اور رمپا پلازہ میں ان کے ٹھکانے کے بارے میں اطلاع دی۔

اس اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس کے سب انسپکٹر اور کیس کے تفتیشی افسر اشرف گجر اور اے ایس آئی عنایت اللہ مروت نے ملزم محمد عزیر قریشی کو دو مارچ 2001 کے دن غریب آباد چورنگی کے قریب سے گرفتار کر لیا اور اُس کی جیب سے 200 روپے بھی برآمد کر لیے۔

دوران تفتیش عزیر نے رضاکارانہ طور پر انچارج جوڈیشل مجسٹریٹ کورٹ نمبر ایک کراچی ایسٹ پرویز قادر میمن کے سامنے تین مارچ 2001 کو اعتراف جرم کرلیا۔

اس کے بعد پولیس نے مفرور ملزمان کو تلاش کیا اور ملزم عزیر قریشی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردیا کیونکہ کیس میں دفعہ 3/4 ایکسپلوسِو ایکٹ لگائی گئی تھی۔

استغاثہ کے مطابق پولیس نے نوائے وقت کے چوکیدار اعظم خان، ٹیکسی ڈرائیور صابر خان اور زخمیوں سمیت تقریباً 20 گواہ عدالت میں پیش کیے۔

نوائے وقت کی اُس وقت کی انتظامیہ نے بھی پولیس، تفتیش کاروں اور استغاثہ کے مؤقف سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اخبار کے دفتر پر اس خودکش حملے کا الزام ایم کیو ایم پر ہی عائد کیا۔

عارف نظامی نہ صرف نوائے وقت کے مالکان (نظامی خاندان) کا حصہ ہیں بلکہ حملے کے وقت اخبار کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر بھی تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’الطاف حسین صاحب بہت تنگ تھے۔ وہ روزانہ مجھ سے مختلف مطالبات کرتے تھے کہ جی فلاں خبر نہ لگائیں۔ مجھے ہی ان سے نمٹنا پڑتا تھا کیونکہ مجید نظامی صاحب (اس وقت کے ایڈیٹر نوائے وقت) نے ان سے فاصلہ رکھا ہوا تھا، اس لیے الطاف حسین مجھے ہی فون کرتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ الطاف حسین روز شام انھیں فون کرتے تھے کہ آپ نے ہماری بات نہیں مانی، اس کے نتائج ہوں گے۔

عارف نظامی کے مطابق اس لیے ’کسی اور کو یقین ہو یا نہیں مجھے سو فیصد یقین ہے کہ (اس حملے کے پیچھے) وہی تھے۔‘

الطاف حسین

عارف نظامی کا الزام ہے کہ نوائے وقت پر حملہ الطاف حسین کے کہنے پر کیا گیا

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نوائے وقت پر (پہلے بھی) راکٹ سے حملہ ہو چکا تھا، اور اس بم حملے کے علاوہ تیسرا واقعہ تب ہوا تھا جب دفتر کو آگ لگا دی گئی تھی۔

عارف نظامی الزام عائد کرتے ہیں کہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ ان کو ’چھوٹا سا سبق‘ سکھائیں۔

ادھر بعض پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوائے وقت پر حملے میں نامزد اور گرفتار ملزم محمد عزیر قریشی ایم کیو ایم کے ایک دیرینہ کارکن تھے جن کا تعلق سندھ کے علاقے میرپور خاص سے تھا اور وہ سندھ یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ڈگری لینے کے بعد پیشے کے اعتبار سے ادویہ سازی کے ایک نجی ادارے میں سیلز ریپریزینٹیٹِو تھے۔

کچھ سرکاری افسران نے عزیر کا تعلق ایم کیو ایم کی جانب سے صوبائی وزیر رہنے والے محمد حسین سے بتایا۔

مگر ایم کیو ایم کے رہنما، رکن صوبائی اسمبلی اور سندھ کے سابق وزیر بلدیات، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، کچی آبادی اور دیہی ترقی محمد حسین نے گفتگو کرتے ہوئے پولیس، استغاثہ اور نوائے وقت کی انتظامیہ سب کا مؤقف رد کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’عارف نظامی صاحب نے پہلے تو کبھی ایسی بات نہیں کی، مجھے نہیں معلوم کہ اب وہ کیوں ایسی بات کر رہے ہیں۔‘

محمد عزیر قریشی سے تعلق یا ان کی ایم کیو ایم سے وابستگی کے بارے میں محمد حسین نے کہا کہ ’ہاں وہ 1980 کی دہائی سے ایم کیو ایم کے کارکن تھے اور اُن کا اپنا دفتر بھی نوائے وقت کے دفتر کے پاس ہی کہیں پر تھا۔‘

’میں بھی جامشورو یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہ بھی وہیں پڑھتے تھے۔ میں کامرس میں پڑھتا تھا وہ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں تھے اور جب گرفتار ہوئے تو ملازمت کے سلسلے میں وہ ایم کیو ایم سے علیحدہ ہو چکے تھے۔‘

’وہ خاندان میرپور خاص سے کراچی منتقل ہو گیا تھا اور عزیر تو ملازمت کر رہے تھے۔‘

’وہ تو جب گرفتار ہو کر جیل آئے تو پتہ چلا۔ وہاں میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مجھے تو نوائے وقت والے کیس میں فٹ کر دیا ہے۔‘

حملہ

فائل فوٹو

محمد حسین نے کہا کہ وہ سندھ میں پانچ وزارتوں کو اکیلے چلانے والے وزیر تھے اور ’جھوٹے مقدمات‘ تو اُن پر بھی بنا دیے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈھائی سال جیل میں رہ کر وہ بھی بالآخر بری ہو گئے۔

محمد حسین کا مؤقف اپنی جگہ مگر تفتیش کرنے والے پولیس اہلکاروں اور حکام نے ایم کیو ایم کے تمام نامزد ملزمان کے خلاف یہ مقدمہ کراچی میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر دیا۔

انسدادِ دہشت گردی کی اِس خصوصی عدالت نے آٹھ جنوری 2004 کو جرم ثابت ہونے پر محمد عزیر قریشی کو عمر قید کی سزا سُنا دی جبکہ باقی ملزمان کو مفرور قرار دے دیا گیا۔

لیکن ملزمان نے اپنے وکلا کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی عدالت کا یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

ہائی کورٹ میں ملزم عزیر قریشی نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ 21 جنوری 2000 سے پولیس افسران سب انسپکٹر اشرف گجر اور ظفر نذیر کی غیر قانونی حراست میں تھے، جنھوں نے انھیں غریب آباد سے نہیں بلکہ اپنی زوجہ کے ساتھ کہیں جاتے ہوئے فیڈرل بی ایریا کی واٹر پمپ چورنگی سے سوا گیارہ بجے دن کو گرفتار کیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں کئی ہفتوں تک شدید ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد زبردستی اس جرم میں ملوث ہونے کا اعترافی بیان حاصل کیا گیا، اور ایک سادہ کاغذ پر اُن کے دستخط لینے کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے ’محض خانہ پُری‘ کے لیے پیش کر دیا گیا۔

جسٹس محمد مجیب اللہ صدیقی اور جسٹس محمد افضل سومرو پر مشتمل عدالت نے سماعت کے بعد ماتحت عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 27 جولائی 2004 کو ملزمان کو بری کر دیا۔

اب 20 برس بعد ایم کیو ایم رہنما محمد حسین کا کہنا ہے کہ برّیت سے ثابت ہو گیا کہ ایم کیو ایم کو اس مقدمے میں ’جعلی طور پر‘ ملوث کیا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ سے ملزم عزیر اور ایم کیو ایم کارکنان کی بریت کے لیے بھی سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر عارف نظامی متحدہ قومی موومنٹ کی ’دہشت‘ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گواہ وغیرہ کس طرح ایسے ماحول میں آ سکتے تھے، یہ تو سٹیٹ ود ان سٹیٹ تھی۔ عدالت سے بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔‘

لیکن عارف نظامی نے اصرار کیا کہ یہ ایک خُودکُش حملہ تھا جس میں ’ایم کیو ایم ہی‘ ملوث تھی۔ ان کے مطابق نوائے وقت کے دفتر پر راکٹ حملوں میں بھی ایم کیو ایم ملوث تھی۔

لیکن عارف نظامی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دھماکے کی جزئیات اور مبینہ حملہ آور خاتون کے حوالے سے وہ زیادہ نہیں جانتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بالکل یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا خودکش حملہ تھا، اور وہ (دھماکہ خیز مواد) خاتون ہی ٹیپ ریکارڈر میں لائی تھیں، اور دھماکہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے ہی کیا گیا تھا۔

عارف نظامی کہتے ہیں کہ ’یہ خاتون اشتہار دینے کے بہانے آئیں تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خاتون کو استعمال کیا گیا تھا اور انھیں بھی نہیں پتہ تھا۔ میں اُسی روز لاہور سے کراچی پہنچا تھا۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ کون سی بات درست ہے۔‘

تو پھر نوائے وقت پر حملے میں ایم کیو ایم کو ملوث کیا جانا درست تھا یا اُن کی برّیت صحیح تھی؟

جب میں نے یہ سوال ایک تجزیہ کار کے سامنے رکھا تو انھوں نے کہا کہ ’جس ملک میں 72 برس بعد بھی پہلے وزیراعظم کے قاتل (یا قاتلوں) کا سرکاری طور پر آج تک پتہ نہیں چل سکا، آپ وہاں پہلے (متنازع یا مبینہ) خودکُش حملے کے حقائق تلاش کرنا چاہتے ہیں؟ کتنے سادہ ہیں آپ!‘

یہ تحریر ابتدائی طور پر 6 نومبر 2020 کو شائع ہوئی جسے قارئین کی دلچسپی کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments