انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند


ہر خاندان میں ایک ایسا بچہ ضرور ہوتا جو سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے یہ یا تو خاندان میں کافی عرصے بعد پیدا ہونے والا بچہ ہوتا ہے یا پانچ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوتا ہے یا یہ خاندان میں باقی بچوں کی نسبت زیادہ پر کشش ہوتا ہے یا پھر اس کے والدین کے پاس دولت کا جم غفیر ہوتا جس کے سبب وہ خاندان والوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ چاچے، مامے، پھوپھیاں، ماسیاں سب کا لاڈلا ہوتا ہے اور اسے اہمیت بھی کسی شہزادے کی طرح دی جاتی ہے ایسا بچہ خاندان کے باقی بچوں کے لیے وبال جان ہوتا ہے اسے سات خون بھی معاف ہوتے ہیں بظاہر تو کوئی خاص خوبی کا مالک نہیں ہوتا لیکن اس کی پبلسٹی اینڈ پروجیکشن ٹیم جن میں پھوپھی، ماسی، بہنیں، نانیاں، دادیاں شامل ہوتی ہیں کافی سٹرونگ ہوتی ہے ایسا بچہ جب خاص قسم کے ماحول میں پرورش پا کر جب بڑا ہوتا ہے تو اس میں حقیقت پسندی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے بالکل ایسے ہی ایک سیاسی بچے (عمران خان) کی پیدائش پاکستان میں 25 اپریل 1996 میں ہوئی۔

جسے پیدا کرنے والے پاکستان کے حقیقی مالک تھے اب ظاہر ہے جب وہ سیاسی بچہ اتنے طاقتور اور مضبوط طبقے کی پیدائش ہے تو اس کے لاڈ بھی خوب اٹھائے گئے۔ سالوں تک اس کی پرورش بالکل اوپر بیان کیے گئے بچے کی طرح کی گئی اس سیاسی بچے کو سالوں تک ایک خاص مقصد کے لیے پالا جاتا رہا اور وہ مقصد یہ تھا کہ ہر سویلین وزیر اعظم کسی نہ کسی موڑ پر اپنی طاقت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، آصف علی زرداری کئی موقعوں پر یہ بھول گئے کہ وہ عوام کی طاقت پر نہیں بلکہ فوج کی سپورٹ پر کرسی اقتدار پر براجمان ہیں۔

اس سیاسی بچے کو بھی اسی مقصد کے لئے تیار کیا گیا کہ وقت آنے پر پہلے پیدا کیے گئے سیاسی بچے جب بڑے ہو جائیں تو ان کی جگہ اس بچے سے بدل دی جائے، یہ سیاسی بچہ عمران خان 30 اپریل 2002 کے ریفرنڈم تک لڑکپن کے دن گزار چکا تھا لیکن اس وقت تک وہ بڑوں کی نظر میں اس قابل نہیں تھا کہ اس کی ہر بات مانی جا سکے اور کھیلنے کے لیے اسمبلی کی ایک سو نشستیں مانگنے پر اسے پہلی بار ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پرورش ہوتی رہی اور اسے یہ احساس دلایا جاتا رہا کہ آپ ہی خاصم خاص ہیں اور پھر وہ وقت آیا جب یہ سیاسی بچہ بالکل بالغ ہو گیا اور اسے کھیلنے کے لیے کے پی کے اسمبلی دے دی گئی اور شہر اقتدار کا ڈی چوک بھی جہاں اس بچے نے خوب ہلا گلا کیا اور پورے ملک کے لئے وبال جان بن گیا بالکل اس بچے کی طرح جو گلی محلے میں اپنے بھائیوں اور گھر والوں کے اثر و رسوخ پر باقی بچوں پر رعب ڈالتا پھرتا ہے اور ڈی چوک میں اس سیاسی بچے عمران خان کے ساتھ کھیلنے کے لئے سیاسی منحرفین کا جم غفیر لگا دیا گیا جہاں ایک سو چھبیس دنوں تک ان لاڈلوں نے بھرپور طریقے سے اپنے من چاہے گیم کھیلے کبھی سرکاری اداروں پر حملے کا کھیل کبھی ججز کی گاڑیاں چیک کرنے کا کھیل کبھی نجی چینل کے صحافیوں کو مارنے کا کھیل کبھی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا کھیل غرض یہ کہ ہر قسم کا افراتفری پھیلانے کا کھیل کھیلا گیا۔

عمران خان کو اتنی چھوٹ دینے سے یہ صاف ظاہر تھا کہ پہلے والے سیاسی بچے اب بڑوں کو کھٹکنے لگے ہیں اور بڑے اب نیا تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور اس تجربے کو کرنے کے لیے اپنے ہی گھر کا اچھا خاصا نقصان کر بیٹھے اور بالآخر 2018 میں عمران خان کو کھیلنے کے لیے پورا ملک کرکٹ گراؤنڈ سمجھ کر دے دیا گیا لیکن یہ لاڈلا بچہ بھی روایتی لاڈلے بچوں کی طرح نالائق ہی ثابت ہوا اور ملک کو تنزلی کی راہ پہ ڈال دیا، ملکی معیشت تباہ، سیاسی عدم استحکام، معاشرتی و اخلاقی برائیاں، آئین کی دھجیاں ہر ایک برائی نے جنم لیا۔

ملک آئی ایم ایف کا غلام بن گیا، اقتصادی کام رک گئے، افسر شاہی کو کپڑوں کی طرح بار بار بدلا گیا، ملک کا جی ڈی پی جو لاڈلے کے آنے سے پہلے پانچ اعشاریہ چار سے زیادہ تھا وہ منفی میں چلا گیا اور بعد میں تین اعشاریہ کچھ تک پہنچا۔ سیاسی لاڈلے عمران خان کے احمقانہ باتوں اور تقریروں اور پیٹ کا حلقہ ہونے کے باعث پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہو گیا ساڑھے تین سال تک اس بچے کو ملک کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق کھیلنے دیا گیا لیکن جب پانی سر سے گزرا تو بڑوں نے اس کے اوپر سے ہاتھ ہٹا دیا تو یہ بچہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور تحریک عدم اعتماد کے تحت عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا لیکن اس وقت تک یہ انوکھا لاڈلا بڑوں کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو چکا تھا اور وہ جو ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتا تھا آج اس نے علم بغاوت بلند کر دیا وہ باقیوں کی طرح اقتدار سے ہٹنا تسلیم نہیں کر پا رہا وہ بالکل یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کے وہ اب خاصم خاص نہیں بلکہ عام ہے وہ سیاسی بچہ اس امر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا کہ جمہوری نظام میں اکثریت کو اہمیت دینا پڑتی ہے یا یوں کہ لیں tranny of majority کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اور یہ ہی ہمارا دستور کہتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ شروع دن سے لے کر آج تک یہ ہی ہے کہ ہمارے قومی اداروں کی کمزوری اور سیاستدانوں میں سیاسی اصولوں کی پاسداری کا فقدان ہے جس کی وجہ سے سیاسی بحران جنم لیتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے آئینی بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہی اکثریت کہ رائے کا احترام ہے۔

لیکن اس موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان صاحب اکثریت کے جبر یعنی کہ tranny of majority کو تسلیم نہیں کر رہے۔ اس قسم کے رویے سے سیاسی و قومی معاملات پر اچھا اثر نہیں پڑتا اور دوسری بات ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہی رہتے ہیں چاہے وہ کوئی پارٹی ہو۔ اس وقت سیاسی لاڈلا خان صاحب بھی بالکل ویسے ہی کر رہے جیسے ماضی میں دیکھنے کو ملتا ہے غداری کا بیانیہ انتہاء خطرناک ہے ہم نے ماضی میں کبھی بنگالیوں کو ، کبھی مہاجروں کو ، کبھی پشتونوں کو اور کبھی بلوچوں کو غدار کہا جس کا خمیازہ پاکستان کے ٹوٹنے کی شکل میں ملا مسئلہ وہاں بھی یہ ہی تھا کہ ہم نے اکثریت کو نہیں مانا۔

یہاں پر بتاتا چلوں اکثریت سے مراد اسمبلی کی اکثریت ہے عوام کی مرضی پاکستانی جمہوریت میں نہیں چلتی اور تیسری بات پچھلے کچھ دنوں سے عدلیہ کے کردار پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ جن جمہوری ملکوں میں دستور تحریری ہو وہاں پارلیمان، عدلیہ اور مقننہ کو دستور کے تحت چلنا ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ عمران خان صاحب کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جس طرح ان کو لایا گیا تھا ویسے ہی ہٹا دیا گیا ہے یہ سازش کا شور قوم 1977 میں بھٹو صاحب سے بھی سن چکی ہے یہ غدار غدار کے نعرے عوام پہلے بھی سن چکی ہے لہذا سیاسی لاڈلے خان صاحب کو ماتم کرنے کی بجائے اس امر پر خوش ہونا چاہیے ہے کہ اب وہ ایک سیاسی حقیقت ہیں پہلے اقتدار دو جماعتوں میں تقسیم ہوتا تھا اب ان کی جماعت تیسری ہے اگر فارن فنڈنگ کیس میں بین نہ ہوئی تو اور آنے والے الیکشن کی تیاری کریں بجائے اس کے کہ ضدی بچے کی طرح ٹوٹ جانے والا وہ ہی کھلونا واپس مانگنے کی ضد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments