ایک جید عالم کے ساتھ ایک سفر کی سرگزشت


پروفیسر ڈیئر،

طبیعت میں اتنی بیزاری ہے کہ ذہن نہ پڑھنے پہ مائل ہے اور نہ لکھنے پر۔ آپ کی بھیجی ہوئی مشتاق یوسفی کی کتابیں کب سے سرہانے پڑیں ہیں پر کیا مجال کہ ہم نے کسی کتاب کو کھول کے بھی دیکھا ہو۔ کئی اور بھی شروع کیں پر چند صفحات کی ورق گردانی کر واپس رکھ دیں۔ لکھنے پڑھنے کو یکسوئی چاہیے اور ہم ہیں کہ ہمہ وقت پہلو پہ پہلو بدل رہے ہیں۔ بھرتی کے لکھاری ہم ہیں نہیں کہ بے وجہ صفحات کالے کرتے رہیں۔ جو کیا دل سے کیا پھر بھی یہ عالم ہے کہ

نہ بندھے تشنگی شوق کے مضموں غالب
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

شاید زندگی سے عشق ختم ہو گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں جینے کے لیے رومان بہت ضروری ہے وہی تو خاکی شریر میں شرارے بھرتا ہے۔ زندگی کو مقصد عطا کرتا ہے۔ خدارا اس رومان کو مروجہ معانی میں نہ لیجیے گا۔ وہ جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔ یہ کیفیت وقتی ہے یا دائمی یہ تو وقت ہی جانے لہٰذا خود کو وقت کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہی اس پہیلی کو حل کرے تو کرے۔

جی ایسا اچاٹ ہے کہ کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں۔ یہ موسم کا اثر ہے یا ماحول کا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم ٹھنڈے پانیوں کے رہنے والے بھلا ایسی گرمی کہاں برداشت کر پاتے ہیں پر یہ کمبخت وقت جب دوڑانے پر آتا ہے تو موسموں کا حساب نہیں رکھتا۔ جب اس نے کہہ دیا کہ چل تو سر کے بل چلنا پڑتا ہے چاہے سامنے آگ کا دریا ہی کیوں نہ ہو۔ مزاج میں ایسی کلفت ہے کہ نہ کسی سے ملنے کو جی چاہتا ہے، نہ بات کرنے کو اور نہ گھر سے باہر جانے کو۔ کوئی بھولا بھٹکا آ بھی جائے تو اپنے کمرے سے باہر نکلنا جوئے شیر لانا لگتا ہے۔ اس مردنی کی وجہ کیا ہے؟ غالب بھی کمال کا شاعر ہے ہر مقام پہ سہارا دے جاتا ہے۔

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں!
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا؟

سنا ہے کہ یادوں کی کتاب کے اوراق پلٹنے میں بہت راحت ملتی ہے۔ ذہن کی ڈائری کے صفحات پلٹتے پلٹتے نظر خود بخود ایک مقام پہ ٹھہر گئی۔ یوں تو زندگی کے ہر سفر کے ساتھ کوئی نا کوئی یاد وابستہ ہے پر دامن وقت میں اتنی گنجائش کہاں کہ ہر مقام پہ ٹھہرا جائے۔ آج آپ کو ایک چھوٹے سے یادگار سفر کی داستان سناتے ہیں جس نے ذہن پہ انمٹ نقوش چھوڑے۔

کبھی ہم اس قدر باتونی تھے کہ بات سے بات نکالتے تھے۔ بڑے چھوٹے کسی سے بھی دوستی کر لینا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ہمسفر اچھا ہو تو باتیں کرنا کسے اچھا نہیں لگتا۔ اسی عادت کی بنا پر اپنے وقت کے ایک جید عالم نے کوئی تین دہائیاں قبل ہمیں ایک حیران کن لقب دیا تھا۔ اس وقت تک ہمیں ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ کسی بڑے آدمی کے بارے میں آپ کچھ نہ جانتے ہوں تو بات کرنا سہل ہوتا ہے۔ جب جان جائیں تو بہت سنبھل کر بولنا پڑتا ہے یوں گفتگو میں بے ساختگی نہیں رہتی۔ زندگی کے تجربات انسان سے اس کی یہی بے ساختگی اور معصومیت چھین لیتے ہیں اسے المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟

ہماری علامہ سے ملاقات کراچی تا لاہور کے سفر کے دوران ہوئی تھی۔ دو گھنٹے کا یہ سفر کیسے کٹا نہ انہیں پتہ چلا نہ ہمیں۔ ان کے برابر میں ہماری سیٹ تھی۔ ہماری سیٹ پر ایک انتہائی کھڑوس قسم کے صاحب پہلے سے براجمان تھے کہنے لگے آپ وہاں بیٹھ جائیں۔ ہم نے پوچھا کیوں تو علامہ صاحب کے جانب دیکھنے لگے۔ ہم بھی کہاں چوکنے والے تھے ڈائریکٹ علامہ صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ بیٹھنے پہ معترض ہیں؟ یا ایسا محض ہز ماسٹرز وائس کا خیال ہے؟ ہمارے اس سوال پہ وہ مسکرا کر بولے، ایسی کوئی بات نہیں آپ بیٹھیے۔ بس ہم نے بھی موقع غنیمت جان ہاتھ آگے بڑھا کر کہا تو ملائیے ہاتھ اسی بات پہ اور انہیں ہمارا ہاتھ پکڑتے ہی بنی۔ اور وہ کھڑوس ہمیں خشمگیں نظروں سے ایسے گھورتے ہوئے اٹھے گویا کچا ہی چبا جائیں گے۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ مذہبی سکالرز بہت خشک مزاج ہوتے ہیں مگر اس کے برعکس وہ بہت بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ دوران گفتگو انہوں نے ہمیں لمحہ بھر یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ اتنے بڑے سکالر ہیں بس ہماری اوٹ پٹانگ کہانیوں پہ مسکراتے رہے۔ نہ اپنا مسلک بتایا نہ ہمارا پوچھ۔ یہ تو ہمیں چند پرس پیشتر پتہ چلا کہ کسی زمانے میں وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ جاتے ہوئے کہنے لگے اچھا شہرزاد پھر کبھی ملیں گے اسی طرح کہیں آتے جاتے۔ ہم نے پلٹ کر کہا ارے جناب آپ تو ابھی سے ہمارا نام بھول گئے بعد میں تو پہچانیں گے بھی نہیں۔ مسکرا کر بولے، بھولا نہیں پر تمہارا نام میرے حساب سے شہرزاد ہونا چاہیے۔ تم اسی کی طرح کہانیاں سناتی ہو۔ دیکھو تمہاری باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ ہم بھی ہنس دیے۔

گو اس کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی پر ان کا دیا ہوا نام ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہماری کوئی بیٹی ہوئی تو اس نام شہرزاد رکھیں گے۔ بیٹی تو نہیں ہوئی مگر ہم نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا ہے کہ اگر تمہاری بیٹی ہو اس کا نام شہرزاد رکھنا۔ کل کی کون جانے پر خواہش ظاہر کرنے میں کیا ہرج ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق خواہشات اگر گھوڑے ہوتیں تو ہر کوئی انہیں دوڑاتا پھرتا۔ ہماری اوقات اصلی گھوڑوں کو دوڑانے کی تو ہے نہیں بس خواہشات کے گھگو گھوڑوں کو دوڑا کر خوش ہو جاتے ہیں۔

یہ قصہ ہمیں یوں یاد آیا کہ کل ہمیں مجبوراً کہیں جانا پڑا اتنی تبلیغ سننے کو ملی گویا اس کی ضرورت صرف ہمیں کو ہے۔ درس و تدریس کے فوراً بعد وہی دنیا داری کی باتیں۔ وہی جوتے کپڑوں اور جیولری، وہی گوسپ جو موجود نہیں اس کے بخیے ادھیڑنا۔ انہیں کیوں بلایا؟ ان کی موجودگی ہمیں پسند نہیں وغیرہ وغیرہ اور میزبان بے چارے کی جان پہ بنی ہے کہ کہیں کوئی بد مزگی نہ ہو جائے۔ وہی میں میں کی گردان، استغفراللہ اتنی نرگسیت۔ حد یہ کہ ٹی وی ڈراموں کی باتیں۔ ہم ٹھہرے ان تمام میدانوں میں کورے بس ٹکر ٹکر سب کی شکلیں دیکھتے رہے۔ صد افسوس کہ یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے۔ بس یہی فیصلہ کیا کہ آئندہ ایسی محفل میں مروتاً بھی نہیں جانا۔ فی الوقت تو ہم غالب کے اس شعر کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا

پروفیسر ڈیئر، بات ہو رہی تھی علامہ صاحب کی، خدا انہیں غریق رحمت کرے کہ چاہتے تو ان دو گھنٹوں میں اپنی تمام تر علمیت کا رعب ہم پہ جھاڑ سکتے تھے اور ہم سے سوائے مرعوب ہو کر بغلیں جھانکنے کے کچھ بن نہ پڑتا مگر ایک سچا عالم ایسا نہیں کرتا۔ وہ کسی کو اس کی کم مائیگی کا احساس نہیں دلاتا۔ بخدا اگر وہ ایسا کرتے تو شاید ہم بھی اپنا رخ کھڑکی کی جانب پھیر منہ میں گھنگنیاں بھر کر بیٹھ جاتے۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان کا رویہ اس کے قد و قامت کا تعین کرتا ہے۔ بات کرنے کا وقت اور موقع ہوتا ہے، بے موقع بات کوفت کا باعث ہو سکتی ہے۔ گر یہ علم ہو جائے کہ لائن کہاں ڈرا کرنی ہے تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے یا خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وصف ہے جو ہر کسی کو ودیعت نہیں ہوتا۔

کوئی بولنے والا انسان اچانک خاموش کیسے ہو جاتا ہے؟ آپ ہی اس پہ کچھ روشنی ڈالیں ہماری ناقص عقل تو یہی کہتی ہے کہ کوئی قلبی واردات ہی انسان کو چپ لگا دیتی ہے۔ بے بس انسان کو کچھ نہیں سوجھتا۔ بظاہر سب ٹھیک لگتا ہے مگر ہوتا نہیں۔ کوئی ہنڈیا اندر ہی اندر ابلتی رہتی ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ کیوں ابل رہی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے اک بار کہا تھا کہ نظام قدرت میں کوئی بات بلا وجہ نہیں ہوتی مگر انسانی فہم اس کا ادراک نہیں کر پاتی اور ادراک ہو بھی تو انسان کی بے بسی لمحہ موجود میں اس کا توڑ نہیں کر پاتی۔ پر وقت کی ایک ہی تو خوبی ہے کہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ ہمیں بھی اسی کا انتظار ہے۔

انسانی نفسیات کی ڈائنامکس بھی بہت عجیب ہیں۔ ایسے موڑ پہ لا کھڑا کرتیں ہیں کہ وہ نہ تو آگے بڑھ پاتا ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹ پاتا ہے۔ بس وہیں منجمد ہو جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم سڑک تو پار کرنا چاہتے ہیں مگر تیز رفتار گاڑیاں ہارن بجاتی دائیں بائیں اس فراٹے سے گزر رہی ہیں کہ ہمیں رستہ نہیں مل رہا کہ اس پار جا سکیں۔ شاید امتحان اسی کو کہتے ہیں۔ جب پار لگ گئے تو مشکل کیسی؟ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جب اندر اتنا خالی ہو تو انسان کیا بات کرے اور کرے تو کس سے کرے؟ کوئی ہم مزاج کوئی غم گسار بھی تو ہو۔

خلاف طبیعت باتوں سے ہمارا دم الٹتا ہے۔ کیا کریں ارد گرد زیادہ تر لوگ ایسے ہی ہیں۔ گفتار کے ایسے ایسے غازیوں سے پالا پڑا ہے کہ اپنی تو بولتی ہی بند ہو گئی ہے۔

مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دم عیسیٰ نہ ہوا

خدائی فوجداری کا ہمیں کوئی شوق نہیں۔ ہمارا بس فقط اپنے آپ پر ہی چلتا ہے، خود کو بدل لیں وہی کافی ہے۔ یوں بھی شداد کی جنت میں رہنے والوں کو سچ سے کوئی سروکار نہیں اور لگی لپٹی ہمیں آتی نہیں۔ کیا ہم ابنارمل ہیں یا معاشرہ تنزلی کی راہ پر ہے؟ زندگی کی یہی پہیلی ہم سے حل نہیں ہوتی۔ جواب کی منتظر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments