ہیرا منڈی: بدکردار کون؟


رمضان المبارک کی بائیسویں شب کی بات ہے۔ میں نماز عشاء پڑھ کر جب گھر آیا، تو حسب معمول کچھ وقت تک موبائل میں مصروف رہا۔ ایک وقت تو موبائل میں مختلف قسم کی کانٹینٹ انجوائے کرتا رہا اور مستفید ہوتا رہا۔ لیکن موبائل میں چارجنگ کی کمی کی وجہ سے مجھے موبائل چارجنگ پر لگانا پڑا۔

موبائل چارجنگ پر لگاتے ہوئے میں بالکل فارغ ہو گیا، کوئی بھی کام جب نظروں سے نہ گزرا تو فراغت دور کرنے کے لئے گھر میں بنائی ہوئی چھوٹی سی لائبریری جا پہنچا، پہنچتے ہی سوچ و بچار طے کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ منٹو صاحب کی منتخب کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھا کر پڑھتا ہوں۔ تا کہ وقت کی بچت بھی کر سکوں، خود کو مستفید بھی کروں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ تب تک موبائل بھی کافی چارج ہو جائے گا۔

خیر میں نے منٹو صاحب کی ایک کتاب اٹھائی اور اس کے کتاب میں درج افسانوں کے سر نامے پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے میں سر ناموں میں نیچے آتا گیا تو اس میں سے ”کوٹھا“ ایک عنوان میری نظروں سے گزرا، اس کے ساتھ میں نے فوراً کتاب بند کیا اور اسی ہی جگہ پر رکھ دیا جہاں سے اٹھایا تھا۔

سیدھا دوسرے کمرے آیا، یونیورسٹی بیگ کھولا اس میں سے دو سفید صفحات اٹھائیں اور ایک قلم لیا، کیونکہ میں نے بہت پہلے سے سوچ رکھا تھا بدکرداری اور کردار پر لکھنے کا، اس موضوع پر لکھنے کا مجھے اس سے کوئی مناسب وقت نہیں مل سکتا تھا۔ کرسی کو کمرے کے کونے سے لا کر بالکل لائیٹ کی نیچے لگائی۔

سب کچھ ہونے کے بعد اصل مشکل کا سامنا تھا کہ ان دو صفحات پر آپ کو لکھنا کیا ہے؟ خیر میں نے صفحات اور قلم کو سائیڈ پر رکھا اور کچھ منٹوں کے لئے سوچنے لگا۔ میں اپنے خیالات میں مرد، عورت، پیسہ، کوٹھا اور سیکس لے آیا۔ لیکن ایک وقت تک مجھے منٹوں صاحب کی افسانے یاد آتے رہے جس میں اس نے کردار، بدکرداری پر باتیں کی تھیں۔ جس میں اس نے کوٹھوں اور اس میں بسنے والوں کا بے انتہا ذکر کیا تھا۔ لیکن میری یہ کوشش تھی کہ میں خود سے کچھ شامل کروں۔

بالآخر میرے ذہن میں ہمارا لاہور ٹور آ ٹپکا اور اس ٹور میں مجھے وہ پنجابی طالبعلم یاد آ گیا جو ایم فل کر رہا تھا۔ جس کے ساتھ ہم دوستوں کی طویل بیٹھک ہوئی تھیں۔ اور اس بیٹھک میں ہمارا بنیادی موضوع بازار حسن رہا تھا۔

جب ہم دوستوں نے اس سے بازار حسن کے حوالے سے پوچھا تو پہلے تو اس نے تھوڑی بہت تاریخ پر نظر دوڑائی، بازار حسن جو اب ہیرا منڈی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ لاہور میں ایک علاقہ ہے یا یہ کہہ لیں کہ بیچ بازار میں کچھ عمارتیں ہیں۔ جہاں پر اب جسم فروشی کا کاروبار ہوتا ہے۔ شروع شروع میں اس علاقے کو رقص کرنی والی عورتوں یا جسم فروشی کی طور پر نہیں جانا جاتا تھا۔ بلکہ اس علاقے کو رنجیت سنگھ کی موت کے بعد ریاست مملکت پنجاب کے وزیر اعظم ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب کیا تھا۔ پہلے پہل یہ بازار پرفارمنگ آرٹس کے لیے مشہور تھا اب صرف یہاں جنسی تجارت کا لین دین ہوتا ہے اور لوگ بھی اسی سے جانتے ہیں۔

وہ کہہ رہا تھا اس علاقے میں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جو بالکل دور دراز علاقوں سے صرف اپنے جسم کی پیاس بجھانے اسی کے لئے آتے ہیں۔ اور کچھ جو کسی کام کے غرض سے لاہور تشریف لاتے ہیں وہ بھی یہاں ضرور جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہاں پر بہت سارے ایسے لوگ بھی دیکھے گئے ہیں جو مشاہدات بڑھانے، سٹوری لکھنے، ڈاکومینٹری بنانے اور ڈرامے اور فلم بنانے کے غرض سے آتے ہیں، لیکن وہ بھی یہاں بد فعلی کے مرتکب ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

جب اتنی ساری علم اور اس جیسے علاقے کا جو اچھی نہیں سمجھی جاتی اس کے پاس دیکھا تو ہمارا یہ سوال تو بنتا تھا کہ آپ کو اتنا سارا علم کیسا؟

تو اس نے دو وجوہات ہمیں بتائیں
ایک تو کہہ رہا تھا میں لاہور کا رہنا والا ہوں۔ تو اسی علاقے کا علم رکھنا میرے لیے ضروری ہے۔

دوسری وہ بتا رہا تھا کہ میرے دوست کی اس علاقے اور ان لوگوں پر ریسرچ تھیں تو ان سے مجھے کافی معلومات ملی ہیں۔

جب ہم نے اس سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کون کون سے شہروں سے لوگ یہاں زیادہ آتے ہیں۔ تو بتا رہے تھے کہ پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں۔ جس میں ہم کسی صوبے یا کسی شہر کو نکال نہیں سکتے۔ کہہ رہا تھا میرے دوست کے ریسرچ کے مطابق سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں کوئی اسی طرح کا مرکز نہیں جہاں کھلم کھلا یہ کام ہوتا ہو، تو ان صوبوں کے لوگ بھی انتہائی زیادہ تعداد میں یہاں تشریف لے آتے ہیں۔ جو باہر کے صوبوں سے یہاں تشریف آتے ہیں، ان میں سے ان لوگوں کی تعداد تقریباً ستر فیصد ہو گی جو عزت دار گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اور وہ شخص جو مثلاً خیبر پختون خوا سے آتا ہے وہ اپنے علاقے میں انتہائی معزز، شریف اور عزت والا ہو گا۔

یعنی مثال لیتے ہیں۔ آپ سب یونیورسٹی کے طالبعلم ہے۔ باڈی سٹرکچر، گفتگو سب پہلوؤں سے آپ قابل اور عزت دار لگتے ہیں۔ آپ اپنے علاقے اور شہر میں بہت سے فلاحی کاموں کا حصہ ہوں گے۔ آپ کا نام شہر میں اچھے ناموں میں شمار کیا جائے گا۔ تو آپ اگر یہاں اس بازار حسن میں جا کر کسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ اور کوٹھے سے باہر نکل کر آپ کردار والے نہیں رہ سکیں گے۔ پھر بھی آپ اپنے شہر میں کردار والے ٹھہرائے جائیں گے۔ اور آپ بھی دوسروں کو عقل اور قانون سکھائیں گے۔

معذرت کرتے ہوئے اس نے ہمیں کہا کہ میں آپ لوگوں کی کردار پر شک نہیں کر رہا بس مثال کے ذریعے سے سمجھانا مقصود تھا۔

چوں کہ وہ ایک تعلیم یافتہ شخص تھا اس کی یہ باتیں ہمیں انتہا درجے کی پسند آئیں اور سب سے بڑھ کر یہ طریقہ۔

آخر میں جب میں نے اس سے پوچھا کہ بدکردار پھر ہر جگہ عورت کیوں ہے؟ تو اس نے ہمیں بتایا کہ مرد کو اس معاشرے نے اتنی طاقت بخشی ہے کہ مرد کبھی بدکردار ہو ہی نہیں سکتا، میں آپ سب کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک پسماندہ علاقے سے ایک شخص بھی یہاں آ کر بد فعلی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی بھی اس پسماندہ علاقے کی عورتیں اس غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ تو آپ بتائیں بد کردار اصل میں کون ہوا؟

اس آخری جملے کے ساتھ ہم نے اس سے اجازت چاہی، چائے کا اس نے کہا لیکن ہم شکریہ کے ساتھ ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ میں ہوٹل کی طرف جاتے جاتے سوچ رہا تھا کہ اصل میں بدکردار کون ہے؟ اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں سو گیا، لیکن مجھے اس سوال کا جواب مل گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments