سلیم صافی کی صحافت اور پیپلز پارٹی سے بغض


سلیم صافی صاحب روزنامہ جنگ کے کالم نگار، جیو میں ایک پروگرام کے میزبان اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ موصوف کو اپنی صاف گوئی، حق و صداقت پہ مبنی صحافت پہ بڑا ناز ہے۔ وہ اپنے پروگرام جرگہ میں بڑے تند و تیز سوالات کرتے ہیں اور اچھے خاصے سیاسی رہنماؤں کو پسینہ پسینہ کر دیتے ہیں۔ وہ خود کو غیر جانبدار، حق و صداقت پہ مبنی صحافت کا علمبردار سمجھتے اور برملا کہتے ہیں۔ ان کی غیر جانبداری، حق و صداقت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنی نفرت، بغض اور کینہ کھلے عام سوشل میڈیا کے ذریعے اور اپنے کالموں کے ذریعے گاہے بگاہے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔

ان کا لکھا ہوا، بولا ہوا ایک ایک لفظ پیپلز پارٹی، اس کی قیادت، حکومت سندھ کے خلاف زہر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کا بیانیہ صافی اور ان جیسے نفرتوں کا پرچار کرنے والے زہریلے لوگوں نے ہی بنایا تھا اور اپنے اسی بیانیے کو سچا دکھانے کا کوئی موقع سلیم صافی صاحب ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کے نکلنے کے بعد سلیم صافی صاحب بغض پیپلز پارٹی میں پیپلز پارٹی کے دشمنوں کو بھی مات دے گئے، جس جماعت نے پی ڈی ایم بنائی اسے ہی پی ڈی ایم توڑنے کی سازش کا ذمے دار قرار دیتے رہے۔

روزانہ نئے نئے مفروضوں پہ مشتمل کہانیاں بنا کر پیپلز پارٹی کے خلاف زہر اگلنا سلیم صافی صاحب کے ایمان کا حصہ ہے، وہ کبھی فوج سے ڈیل کی کہانی بنا کر پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بناتے تو کبھی کوئی اور الزام لگا کر۔ صافی صاحب یقیناً اپنا تجزیہ کرنے میں آزاد ہیں، ان کا اپنا نقطہ نظر بھی ان کا حق ہے، پیپلز پارٹی پہ تنقید بھی ان کا حق ہے، مگر پیپلز پارٹی پہ سازشوں کے الزامات لگانے، قیادت کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنا، بدتمیزی سے مخاطب کرنے کا حق انہیں کسی نے نہیں دیا۔

پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت نے جس سیاسی دانشمندی اور بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے اس کا اعتراف سوائے صافی صاحب کے پیپلز پارٹی کے بدترین ناقد بھی کر رہے ہیں، نجم سیٹھی صاحب نے کہا کہ آصف علی زرداری کی دانشمندانہ سیاست اور بلاول بھٹو کی ذہانت اور دو ٹوک موقف نے پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کے موقف کا ساتھ دینے پہ مجبور کر دیا جبکہ صافی صاحب کو اس میں بھی پیپلز پارٹی کی سازش نظر آتی ہے۔ صافی صاحب نے کچھ عرصہ قبل روزنامہ جنگ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک کالم میں پیپلز پارٹی پہ سندھ میں مطلق العنان حکومت قائم کرنے کا الزام عائد کیا تھا، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو نا اہلی اور بری حکمرانی کا ذمے دار قرار دیا تھا اور کراچی کی تباہ حالی سمیت سندھ کی ترقی کی صورتحال پہ انتہائی متعصبانہ کالم لکھا تھا۔

سلیم صافی صاحب کو سندھ میں پھیلا این آئی سی وی ڈی کا جال نظر نہیں آیا، انہیں کراچی میں سڑکوں انڈر پاسز، پارکس کی بحالی تزئین و آرائش نظر نہیں آئی، انہیں گمبٹ میں مگس نظر نہیں آیا، انہیں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ نظر نہیں آیا، انہیں شہید بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر کراچی نظر نہیں آیا، انہیں پاکستان کا پہلا اور واحد وومن کیڈٹ کالج نوابشاہ نظر نہیں آیا، انہیں کینسر کے علاج کا جدید ترین طریقہ علاج نظر نہیں آیا سب کے لیے بالکل مفت ہے مگر پیپلز پارٹی کی ہر کام میں برائی ضرور نظر آ جاتی ہے۔

سلیم صافی صاحب نے اپنے اس کالم میں سندھ میں بسنے والے سندھی اور اردو بولنے والے سندھیوں میں نفرت کا بیج بونے کی مذموم کوشش کی۔ اپنے ٹویٹس میں وہ پیپلز پارٹی اور قیادت کے خلاف انتہائی نفرت انگیز اور قابل اشتعال زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں وزارتوں اور ملک کی صدارت اور پنجاب کی گورنر شپ پہ مسلم لیگ نون کو بلیک میل کر رہی ہے، پھر انہوں نے فرمایا کہ بلاول بھٹو میاں نواز شریف سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے لندن جا رہے ہیں، لیکن اپنی ہر ٹویٹ کے نتیجے میں انہیں ذلت و رسوائی ہی ملی کیونکہ پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی کے تحت نہ صرف موجودہ وسیع البنیاد قومی حکومت کو طاقت و جلا بخشی بلکہ کوئی بھی غیر اخلاقی مطالبہ نہیں کیا۔ اب بھی ان کو اعتراض ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ سعودی عرب جانے والے وفد میں بلاول بھٹو صاحب ہیں مگر حنا ربانی کھر نہیں ہیں۔ صافی صاحب کو اتنی گری ہوئی ٹویٹ کرتے وقت صحافتی اخلاقیات کا بھی ذرا برابر احساس نہیں ہوا کہ یہ ایک جماعت کا ذاتی اختیار ہے کہ وہ کس کو وفد میں شامل کرتی ہے کس کو نہیں۔

سلیم صافی صاحب اپنے آپ کو صحافی کہتے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو اپنی شرانگیز قلم کاری سے، ایک جماعت اور اس کی قیادت سے اپنی ازلی نفرت اور سندھ اور سندھی بولنے والوں سے خدا واسطے کے بیر کی وجہ سے شرمسار کر دیا ہے۔ سلیم صافی صاحب پیپلز پارٹی دشمنی میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہر بار وہ پیپلز پارٹی پہ مکروہ ڈیل کا الزام لگاتے ہیں، انہوں نے لکھا کہ بلاول بھٹو صاحب کو پی ڈی ایم سے دغا کے بدلے مقدمات میں چھوٹ ملی، میں پوچھتا ہوں صافی صاحب کوئی ایک مقدمہ بلاول بھٹو صاحب پہ ہے تو بتائیں یا پھر صحافت چھوڑ کر اپنے ذہنی معیار کے مطابق کوئی اور کام کریں جو آپ پہ جچتا ہو۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نیب کی تحقیقات میں نہ صرف بار بار پیش ہوئے بلکہ مکمل تعاون کیا۔ سلیم صافی صاحب نے سندھ کے بلدیاتی نظام پہ تنقید کی جو ان کا حق ہے مگر کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ بنا پڑھے سندھ کے بلدیاتی نظام کو خراب کہنا کون سی صحافت ہے، سندھ کے بلدیاتی نظام میں ترامیم کر کے اسے مزید بہتر بنایا گیا ہے، پھر بھی اگر کسی فریق کو اعتراض ہے تو عدلیہ آزاد ہے اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ سلیم صافی صاحب نے صوبائی فنانس کمیشن بنانے کی بات کی ہے جو یقیناً بننا چاہیے مگر کیا کسی اور صوبے میں بنا ہے، انہیں صرف سندھ ہی کیوں نظر آیا پنجاب یا کے پی کے کیوں نہیں نظر آیا۔

سلیم صافی صاحب مسلسل پیپلز پارٹی کی قیادت پہ اخلاق باختہ الزامات لگانے سے باز نہیں آ رہے، وہ صحافت کے بھیس میں پیپلز پارٹی کے خلاف شرپسند کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ مسلسل پیپلز پارٹی کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سلیم صافی صاحب پیپلز پارٹی کے کارکنان کے صبر کا بھی کڑا امتحان لے رہے ہیں، مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان ایسی مکروہ ڈس انفارمیشن مہم کا پانچ دہائیوں سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور نجانے کتنے سلیم صافیوں کو اپنی عوامی جمہوری اور سیاسی جد و جہد سے نہ صرف منہ توڑ جواب دیتے آئے ہیں بلکہ انہیں دھول چٹاتے آئے ہیں اور اب بھی سلیم صافی جیسے شرپسندوں کو منہ توڑ جواب کے ذریعے دھول چٹائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments