سوشل ڈیلما اور ینگ جنریشن


کچھ عرصہ پہلے Netflix پر ایک ڈاکیومینٹری دکھائی گئی تھی جس میں سوشل میڈیا کے مطابق معلومات تھی کہ یہ جو آج کل کا میڈیا ہے یہ کتنا کارگر ہے اور اس کے ہمیں کیا فائدے اور نقصانات ہیں اس میں ہمارا مستقبل کدھر جا رہا ہے یہ ڈاکیومینٹری ہمیں بتا رہی ہے انٹرنیٹ ہمارے ذہن کی کس طرح جوڑ توڑ کرتا ہے اور کس طرح ہمیں کنٹرول کیا جا رہا ہے ہماری آج کل کی جنریشن کس طرف جا رہی ہے ہم آج کل واک یا لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں اور موبائل اور انٹرنیٹ کا سہارا لے کر اسی میں لگے رہتے ہیں اس مووی میں ایک جملا تھا ”if you are not paying for the product you are the product“ مطلب اگر آپ کسی چیز کو استعمال کر رہے ہیں پر اس کی کوئی رقم ادا نہیں کر رہے تو تو مطلب آپ خود ایک پراڈکٹ ہو۔ جی ہاں ہم ہیں، سارے سوشل میڈیا کے apps انسٹا گرام، گوگل، فیس بک اور Twitter کے مالک وہ ہمیں اپنا پراڈکٹ بنا کر ہمارے نفسیات کے ذریعے کمائی کرتے ہیں اور ہمارے ہاتھ کے ذریعے بھی ہمارا پورا ڈیٹا کنٹرول کیا جاتا ہے اپ نے کبھی خیال۔ کیا ہے کہ کبھی۔ کبھار ہم کوئی ایک ویڈیو دیکھتے ہیں اور اسے لائک یا شیئر نہیں کرتے اور دیکھتے ہی رہتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد ہمیں ویسی ہی ویڈیوز ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات فیس بک۔ پر بھی۔ ایسی apps اور چیزیں آجاتی جن کو دیکھ کر ہم خود حیران ہو جاتے ہین کہ یہ چیزیں فیس بک۔ کو کیسے پتا لگی دراصل یہ چیزیں ہماری جو ہم دیکھتے ہیں وہ نوٹس ہوتی ہیں اور ہمارا پورا ڈیٹاAI کے ذریعے Trace ہوتا ہے

یہSoftware companies اپنے پروجیکٹ لانچ کرتی ہیں اور ان سے لاکھوں کماتی ہیں لیکن جب میں نے یہ ڈاکومینٹری دیکھی تو میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنے سارے اکاؤنٹ ختم کر دوں گی جہاں اس چیز کے نقصانات ہیں اس کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہ ہے ہم اپنے کاروبار کی مارکیٹنگ بھی انٹرنیٹ پر کرتے ہیں جبکہ آج کل جدید دور ہے اور بہت سے لوگ باہر جانے سے گریز کرتے ہیں اور آن لائن ہی کام کرتے ہیں اپنے اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں اور جب میں خود اس طرح کے کاروبار میں سرگرم ہوں کیونکہ آج کے دور میں میڈیا ایک ریڑھ کی ہڈی کی نسبت دیکھا جا رہا ہے آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے لوگ خاص طور پہ خواہش کرتے ہیں کہ ہم ان لائن کام کرین آن لائن کام جب ہم کرتے ہیں تو ہم جسمانی طور آنا جانا اور جسمانی سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں یہ ہمارے لیے نقصان دہ تو ہے۔ اس کے بغیر ہماری زندگی میں بھی اندھیرا ہے ہم جب گوگل پر کام کرتے ہیں یا فیس بک استعمال کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ سامنے ہمارے سارے کورس آ رہے ہوتے ہیں ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کورس مفت میں ہو رہے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی چارج نہیں دینا ہو گا۔ لیکن وہ اس فری کورس کو ڈالرز میں کما رہے ہوتے ہیں اور ہم ان کے لوجک کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہوتے۔ دیکھا جائے تو ان کمپنیز میں کام۔ کرنے والا ملازم اپنے بچوں کو ان سے اٹیچ نہیں رکھتا

کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ۔ اگے کیا ہونا ہے اور اس کے پیچھے کیا ہو۔ رہا ہے جنرل ریسرچ کے مطابق دنیا کے ٪ 99 نوجوان اس کے عادی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن اور باقی بیماریوں میں مبتلا ہیں آج کل % 78 نوجوان anxiety میں گرفتار ہیں زیادہ تر نوجوانوں کا رجحان اسی طرف ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مایوسی کا شکار ہوتے ہیں میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں جب کرونا جیسی بیماری کی وبا پوری دنیا میں پھیلی تھی تو اس وقت ایک انگریزی مووی کا سین دکھایا جا رہا تھا جس میں بہت سارے لوگ روڈ پر پڑے تھے لوگ اپنے بچوں اور اپنوں کی لاشیں اٹھانے میں لگے تھے سب کو یہ لگا کہ یہ کسی ملک کی موجودہ صورتحال ہے جب کہ وہ ایک مووی کا سین تھا ٹھیک اسی طرح بہت سی غیر حقیقی خبریں آتی جاتی ہین اور عوام اسی کہ پیچھے لگ جاتی ہے اور یہی سوچتی ہے کہ وہ گمراہ نہیں ہوئی وہ uploaded ہے بعض اوقات کچھ چیزیں واقعی ہی uploaded ہوتی ہی۔

جب ہم انہی چیزوں کو اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں تو ہمارا دماغ اس بات پر اکر رک جاتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو ختم کر دے یقین مانے میں نے جب یہ ڈاکومینٹری دیکھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ ختم کر دوں مگر یہ آج کل کے دور میں ممکن نہیں کیونکہ سوشل میڈیا آج کے اس دور میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند اہمیت کا حامل۔ ہے اس کے بغیر ہم اندھے اور لنگڑے ہیں

سوشل میڈیا انٹرنیٹ پر ہے جس طرح کرونا آیا تو سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ٹھیک اسی طرح سوشل میڈیا کے عام ہونے سے نوجوان حضرات کا بھی دھیان فیس بک اور انسٹاگرام پر ہی ٹک گیا ہے جس طرح اس چیز کے فائدے ہیں اسی طرح اس کے نقصانات بھی بہت ہیں امریکا اور انگلینڈ جسے ملکوں میں بھی لوگ خودکشی کرتے ہوئے نظر آئے ہیں پچھلی بار ایک تحقیق سے پتا چلا 40 % لڑکیوں کی تعداد ہے جو خودکشی کر رہی ہیں جن کی۔ عمر صرف اور صرف 15۔ 19 سال ہے اور 20 فیصد ان لڑکیوں کی تعداد ہے جن کی عمر 10 سے 14 سال ہے اس کے علاوہ انڈیا میں بھی بہت سی تعداد پائی گئی ہے اسکے علاوہ ینگ جنریشن میں یہ situation بھی پائی جاتی ہے کہ بندہ دکھ میں ہے تو وہ دکھی موڈ والے دکھی گانے سنے گا اور شیئر کرے گا اگر خوشی میں ہے تو خوشی والے اسٹیٹس شیئر کرے گا اس کے علاوہ ہم۔ کوئی تصویر یا پوسٹ شیئر کرتے ہیں اگر ہمیں اس پر لائک نہ ملے اور ہماری دوست کو زیادہ لائک مل جائے تو ہم ڈپریشن میں آ جاتے ہیں اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر غیر حقیقی دیکھنے اور سننے کو مل جاتی ہے سیاسی معاملات ہر بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں آتی۔

اس ڈاکیومینٹری میں بات ظاہر ہے اپنے موبائل فون کا انٹرنیٹ خاص طور پر فیس بک پر ہم جو یہ بٹن دباتے ہیں تو وہ ہمارا ڈیٹا فیڈ ہو جاتا ہے ایسا کہہ لینا کہ ہماری سرگرمی کو قید کر لیتا ہے ہم جیسا ہی ایک مصنوعی انسان کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اس بات پر یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ ہماری ہر اک بات کی تفتیش ہوتی ہے سوشل میڈیا انسان کو تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ آج کل کے لوگ جسمانی سرگرمی کو چھوڑ کر ڈیلی نیٹ پر اپنا وقت برباد کر رہے ہیں ہمارا صبح سویرے اٹھ کر خالی پیٹ اپنا موبائل چیک کرنا سب سے بڑی بیماری ہے اور صبح سویرے اٹھ کر ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ موبائل چیک کرتے ہیں اس کے بغیر اپنا اپ خالی سا لگتا ہے لاکھوں نوجوانوں کی تعداد سوشل میڈیا پر اور وہ suicide/ anxiety جیسے امراض میں لاحق ہیں ویسے ہی وہ ہر چیز جو زیادہ استعمال میں ہو وہ زہر ہو جاتی ہے ہر چیز کا استعمال اس کی ضرورت کے مطابق رکھنا چاہے تاکہ ضرورت پر ہم اس کا کام کر سکے اس ڈاکیومینٹری میں اچھا سبق دیا جا رہا ہے کہ جس طرح ہماری نسلیں برباد ہو رہی اور اس طرح ہمیں اپنے بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا چاہے۔

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh