عمران خان کا امتحان شروع ہوگیا ہے


ہم نے دیکھا ہے بہت بار دیکھا ہے ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے ان کو جو صبح کو تخت نشین تھے شام کو مجرم ٹھہرے زیر عتاب ہوئے پابند سلاسل ہوئے۔ یہ بھی تو المیہ ہے ہم جیسے ملکوں کا کہ جو جیسے اقتدار میں آتا ہے ویسے ہی نکالا جاتا ہے۔ جس شان سے تخت نشین ہوتا ہے اتنی ہی رسوائی اور ذلت آمیز رویے کے ساتھ تخت شاہی سے اتارا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اگر روکنا ہے اور اگر تخت نشین کو باعزت واپسی کا راستہ دینا ہے تو پھر مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے طریقہ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ وگرنہ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا تھا کہ جو لاتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں۔ واپسی کی ذلت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے حصول سے انکار کرنا ہو گا۔

سیاست کی طاقت پر یقین رکھنے والے جمہوریت پسندوں کو جب سیاست کے نتیجے میں طاقت مل جاتی ہے تو پھر ان کو طاقت کی سیاست سے گریز کرنا ہو گا۔ کیونکہ طاقت تو جادوئی چراغ کا وہ جن ہے جب آپ کے ہاتھ لگ گیا تو ہر چیز آپ کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے مگر سوچنا ہو گا کہ اگر یہ جن کسی اور قابو میں آ گیا تو پھر کیا ہو گا۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے فی الوقت طاقت کا جن کل کی اپوزیشن جو آج کے حکمران ہیں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج کی اپوزیشن جو کل تک اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی سراپا احتجاج ہے۔ مگر اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہے بہت دیر ہو چکی ہے۔ یہ تو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب جنبش ابرو پر سزا و جزا کے فیصلے ہوتے تھے۔

وطن عزیز کی سیاست میں جس قدر تیزی آ گئی ہے اس کو بیان کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پے در پے تبدیل ہونے والی سیاسی صورتحال نے گویا بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ وفاق کے بعد پنجاب بھی ہاتھ سے نکل گیا اور باپ کے بعد بیٹے نے حلف اٹھا کر گویا ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ طاقت اپنا کام کر رہی ہے اپنے وجود کو منوا رہی ہے اپنی مرضی اور منشا سے سیاسی منظر نامے کے کینوس پر رنگ بھر رہی ہے۔ احساس دلا رہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہی وقت کا سکندر ہے۔ سمجھا رہی ہے کہ با ادب بامراد اور بے ادب بے مراد۔ اس آفاقی قانون سے کون واقف نہیں کہ طاقت کے ساتھ چلا جاتا ہے نا کہ طاقت کے مدمقابل رہ کر اپنی توانائیاں ضائع کی جاتی ہیں۔

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا بلکہ ہم ہر تجربہ خود کر کے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک بار پھر طاقت کی مخالفت کا تجربہ کیا گیا اور حسب توقع یہ تجربہ بھی ماضی کے تجربات کی طرح ناکام ہو گیا۔ تجربہ کرنے سے قبل ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری سیاسی قدوقامت کسی کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اور اگر بالفرض نا بھی ہوتو بھی ہمارا قد کاٹھ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ ہم کسی نظام کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور آخری بازی ہمارے ہاتھ میں رہے۔

یہ کوئی ماضی کا میدان جنگ نہیں کہ جہاں لشکر مدمقابل ہوں اور شام تک ہارجیت کا فیصلہ ہو جائے۔ یہ تو عہد جدید کی مروجہ سیاست کا میدان جنگ ہے جہاں آہستہ آہستہ معاملات کو بہتر کیا جاتا ہے حالات کو اپنے حق میں کیا جاتا ہے مسائل پر قابو پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسلسل ارتقائی عمل ہے جہاں شام تک ہارجیت کا فیصلہ نہیں ہونا بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آہستہ آہستہ منزل کی جانب سفر جاری رکھنا ہوتا ہے

سیاسی سفر میں کھلے دل دماغ کے ساتھ منزل کی جانب بڑھنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ غیر لچکدار رویے سیاسی تنہائی کا شکار بنا دیتے ہیں ناقابل قبول بنا دیتے ہیں سفر مشکل ہوجاتا ہے۔ عمران خان بھی اسی غیر لچکدار رویے کا شکار ہے جس چیز کو کپتان اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے اصل میں یہ وہ بنیادی غلطی ہے جس اس سے قبل بہت سے سیاسی رہنما کرچکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں سیاسی منظر نامے سے ہٹ چکے ہیں۔ مقبول سیاسی نعروں سے وقتی طور پر مجمع کی ہمدردیاں اور حمایت تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر اس سے امور مملکت نہیں چلائے جا سکتے، مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔

مسائل کے حل کے لیے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے اور نظام کے اندر رہ کر اس کی خامیوں کو دور کر کے بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا جاتا ہے۔ اگر یہ طریقہ کار قبول نہیں تو کوئی بات نہیں دوسرا طریقہ انقلاب کا ہے جہاں سب کچھ ختم کر کے اپنی سوچ کے مطابق نئے نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ تو کیا اتنی سکت ہے کہ انقلاب لایا جا سکے۔ اور کیا اتنی قابلیت بھی ہے کہ ایک مکمل نیا نظام دیا جا سکے۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بعد از انقلاب جو نیا نظام دیا جائے گا وہ کامیاب بھی ہو پائے گا۔

اب بھی وقت ہے کہ کپتان مروجہ سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ طویل اپوزیشن کے بعد مختصر اقتدار کے بعد ایک بار پھر لمبی اپوزیشن کا سامنا ہے کپتان کو۔ تو کیا وہ وقت نہیں آیا کہ کپتان ایک بار رک کر اپنے سیاسی فلسفے پر پھر سے غور کرے اپنے سیاسی طرز عمل کا جائزہ لے۔ جہاں جہاں کوئی غلطی ہوئی ہے اس کی نشاندہی کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔ ٹکراؤ کی سیاست کی بجائے مفاہمت کی سیاست کا آغاز کرے۔ نظام کو چلنے دیا جائے اور نظام میں موجود خامیوں کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے۔

کپتان اور اس کے سپورٹرز کو سوچنا ہو گا۔ آج نہیں تو کل لازمی سوچنا پڑے گا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ رہی بات موجودہ صورتحال کی تو عمران خان کے لیے پہلی بار ایک مشکل اور طویل اپوزیشن کا دور شروع ہو گیا ہے اور یہ دور کپتان اور اس کے سپورٹرز کے صبر، محنت، جدوجہد اور ثابت قدم رہنے کے امتحان کا دور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments