خانہ جنگی کی دھمکیاں


خانہ جنگی ایک خودمختار ریاست کے اندر موجود حکومت اور ایسے غیر ریاستی عناصر کے درمیان مسلح لڑائی کو کہا جاتا ہے جو ریاست کی سرزمین پر مکمل یا جزوی خودمختاری کا دعویٰ کرتے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں، خانہ جنگی ہمیشہ سیاسی کنٹرول کے معاملے میں عدم مطابقت کے شکار فریقین کے درمیاں مسلح کشمکش کا نام ہے۔ اگر ایسے گروہ کا مقصد کسی ایک علاقے پر مکمل قبضہ کرنا ہو تو اسے علاقائی خانہ جنگی کہتے ہیں۔ گوریلا کشمکش کے آغاز کے بعد علاقائی حدود کچھ مبہم سی ہو گئی ہیں بہرحال پھر بھی ایسے گروپ کے مقاصد وہی ہوتے ہیں۔

اس تعریف کی بنیاد پر، یہ واضح ہے کہ ریاست یا حکومت کے عوام یا کسی گروہ کے ساتھ ظالمانہ یا غیر مساوی سلوک کو خانہ جنگی نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح ”غیر ریاستی تشدد“ جیسے کہ فسادات اور فرقہ وارانہ تشدد بھی خانہ جنگی کی تعریف سے خارج سمجھے جاتے ہیں۔

ہمارا ملک ستر کی دہائی میں ایک خانہ جنگی بھگت چکا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ 7 مارچ 1971 پلٹن میدان میں دس لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ (ہمارے تو دعوے ہی ہوتے ہیں ادھر حقیقتاً موجود تھے۔ ) یہ ایک منظم اجتماع تھا جس میں سٹیج تک پہنچنے کے لیے خصوصی راستہ بنایا گیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کی گاڑی پورے پروٹوکول کے ساتھ سٹیج تک پہنچی۔ وہاں موجود رہنماؤں نے ان کا خیر مقدم کیا اور وہ رسیوں کا سہارا لے کر عارضی زینے پر قدم بہ قدم اوپر جانے لگے۔ عین اس وقت جب ان کا پہلا قدم سٹیج پر پڑ رہا تھا، ایک نعرہ بلند ہوا:

’آمار دیش، تومار دیش
بانگلا دیش، بانگلا دیش ’

آج بھی اس ویڈیو میں ان کے سر کے بالکل اوپر بنگلا دیش کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس جلسہ کے بعد 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب جب پاکستانی فوج نے شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے ایکشن شروع کیا تو ریڈیو پر بنگالیوں کو پیغام دیتے ہوئے اس نے کہا ”ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری پیغام ہو۔ آج بنگلہ دیش کی آزادی کا دن ہے۔ آپ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں اپنی آزادی کے لئے لڑیں۔“ تقریر کے آخر میں اس نے ”جے بنگلہ“ کا نعرہ لگایا اور خانہ جنگی کا شعلہ بھڑک اٹھا۔

جب برصغیر تقسیم ہوا تو بلوچستان میں دو ایسی ریاستیں تھیں جنہوں نے آزادی کی خواہش ظاہر کی۔ بلوچی سرداروں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تو مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ ایوب خاں کی آمریت میں ون یونٹ بنا تو مزاحمت میں شدت آ گئی۔ اس دور میں بلوچستان میں فوجی چھاونیاں بننا شروع ہوئیں۔ یحییٰ خاں نے ون یونٹ ختم کیا تو کچھ حالات بہتر ہوئے۔

بلوچ رہنماؤں کا عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد تھا۔ بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی بنا لی جس نے بھٹو کی اپوزیشن کا کردار سنبھال لیا۔ عراقی سفارت سے اسلحہ کی برآمدگی کے بعد بھٹو صاحب نے اسے عالمی سازش قرار دے کر بلوچوں کی حکومت برطرف کر دی اس کے بعد بلوچستان میں ایک محدود سی خانہ جنگی کا پھر آغاز ہو گیا۔

فاطمہ بھٹؤ نے سردار خیر بخش مری سے اس دور کے بارے میں پوچھا تو اس عظیم آدمی نے جواب دیا ”آپ بھٹو کی پوتی ہیں آپ سے بات کرنا مناسب نہیں ہو گا۔“ برا نہ ماننے کی یقین دہانی کے بعد انہوں نے کہا ”بھٹو ہٹلر سے مختلف نہیں تھا۔ آپریشن کے آغاز میں مظالم چند مخصوص علاقوں میں ڈھائے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظلم کا دائرہ پورے صوبے میں پھیل گیا۔ اس سے قبل ہماری مزاحمت روایتی اور قبائلی تھی لیکن اس کے بعد یہ ایک قومی شکل اختیار کر گئی۔“ اس خانہ جنگی کی کوئی نہ کوئی چنگاری ابھی بھی بھڑک اٹھتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی دھماکہ اس کی ایک مثال ہے۔

بھٹو صاحب کی ساری جدوجہد سیاسی تھی۔ ایوب خاں کے دور میں بھی ان کی جان کو خطرہ موجود رہا۔ پیر صاحب پگاڑا کے حر سندھ میں ان کے درپے رہے۔ نواب صادق حسین قریشی نے، جو اس وقت حکومت کا حصہ تھے، ملتان میں ان پر حملہ کروایا۔ ان واقعات میں پی پی پی کے کچھ کارکنان قتل بھی ہوئے لیکن خود بھٹو صاحب نے کبھی بھی بندوق کا سہارا نہ لیا۔

جب وہ قتل کے مقدمہ میں جیل میں تھے تو انہیں مرتضیٰ بھٹو کی طرف سے مسلح مزاحمت اور غیر ملکی مدد کا پیغام ملا جسے انہوں نے سختی سے منع کر دیا۔ پورا سندھ ان کے ساتھ تھا۔ پنجاب میں ان کے چاہنے والے خود سوزی کر رہے تھے۔ صوبہ سرحد کے عوام مارشل لا کے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہے تھے۔ وہ پھانسی پر جھول گئے لیکن ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی بات نہ کی۔

ان کے بعد الذوالفقار نامی تنظیم کا نام لیتے ہوئے سلام اللہ ٹیپو نے طیارہ اغوا کیا اور اسے لے کر کابل پہنچ گیا۔ بھٹو صاحب کے مشیر راجہ انور مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو لے کر پہلے ہی کابل میں سابقہ امریکی سفارتخانے میں پناہ گزیں ہو چکے تھے۔ وہاں ان کے رابطے کے جی بی اور را سے ہو رہے تھے۔ اس بہانے پاکستان میں کارکنان پر ریاستی تشدد کا آغاز ہو گیا۔

ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو اس جمہوری جدوجہد کو بھی دہشت گردی کا نام دے کر دبایا گیا۔ سندھ کے کئی گوٹھ ملیا میٹ کر دیے گئے۔ ملک دشمن عناصر نے اس سیاسی جدوجہد میں سندھو دیش کا رنگ بھر دیا اور سندھ میں خانہ جنگی کی سی صورتحال بن گئی۔ پی پی پی ملک دشمن قرار پائی اور ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ، جمہوریت اور عوام دشمن۔ اس آگ کو بی بی شہید نے اپنا خون دے کر اور آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔

موجودہ صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پرامن وادی سوات کو تحریک نفاذ شریعت محمدی کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے پہل متحدہ مجلس عمل اور مشرف کی حکومت نے ان کے ساتھ نفاذ شریعت کے معاہدے بھی کیے۔ یہ کشمکش بڑھتے بڑھتے مسلح فساد کی شکل اختیار کر گئی۔ شرانگیزی بڑھتے بڑھتے مردان تک پہنچ گئی اور اس کے شعلے مارگلہ کی پہاڑیوں سے بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔ اسے اگر چہ خانہ جنگی کی بجائے غیر ملکی مداخلت کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ سوات کے عوام اس کے سخت خلاف تھے۔ اس شورش کے خلاف پوری قوم کھڑی ہو گئی اور بالآخر اسے فوجی قوت سے کچل دیا گیا۔

نالہ لئی کی سیاست کے وارث پہلے رشید بٹ کہلاتے تھے پھر بٹ صاحب نے پنڈی کے ایک سابق طالب علم رہنما شیخ رشید کے نام کی مقبولیت دیکھ کر وہ نام اپنا لیا۔ وہ خود کو فخریہ طور پر گیٹ نمبر چار کی پیداوار کہتے ہیں۔ ان کو اپنی پیش گوئیوں پر بہت مان ہے۔ پچھلے ہفتے ارشاد فرما رہے تھے کہ عمران خان چین سے نہیں بیٹھے گا، خانہ جنگی اور بغاوت ہوگی۔ ان کی دھمکی تھی کہ ملک کو خانہ جنگی، خونریزی سے بچانا ہے تو 30 مئی سے پہلے الیکشن کا اعلان کر دیں۔ عمران خان کی شکست کے بعد سب سے پہلے خانہ جنگی کی دھمکی فواد چوہدری نے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مکمل خانہ جنگی کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اب ناراض ہجوم کو قابو رکھنا عمران خان کے قابو میں نہیں رہے گا اور یوں ہم ملک کو اندرونی خلفشار کا شکار ہوتے دیکھیں گے۔

کیا پاکستان میں خانہ جنگی کے امکانات ہیں یا یہ حضرات اور پی ٹی آئی اپنے سابقہ آقاؤں کو صرف دھمکی لگا رہی ہے؟

شیخ رشید جو خود کو ایوب خاں کے دور کا سیاسی کارکن بھی کہتے ہیں (چند روپوں کے عوض سیاستدانوں کی خبریں آقاؤں تک پہنچانا سیاسی کام ہی کہلاتا ہو گا) جانتے بوجھتے خانہ جنگی کی دھمکی لگا رہے ہیں۔ وہ لازمی جانتے ہوں گے کہ خانہ جنگی کسے کہتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے شہری بابو قسم کے کارکن جو کہ بھٹو کے دیوانوں کے عشر عشیر بھی نہیں، اس آگ میں کودنے کی ذرا برابر ہمت نہیں رکھتے۔ وہ جو بھی کر رہے ہیں اور ان کا آخری سہارا، عمران خاں صاحب جو بھی کہہ رہے ہیں اس کا انجام خانہ جنگی کبھی نہیں ہو سکتا۔

لیکن اس فاشزم سے ملک میں نفرت اور بغض کی ایسی وبا پھیلے گی کہ وہ پیار اور محبت کے جذبے کو بالکل سلب کر لے گی۔ لوگ ایسے تنگ نظر اور سنگدل ہو جائیں گے گویا ان کی فطرت بدل گئی ہے۔ مسجد نبوی، میریٹ ہوٹل اور کوہسار مارکیٹ میں ہونے والے واقعات اس فطرت کے بدلنے اور بگڑنے کی علامت ہیں۔ کارکنان کے دلوں میں بغض اور کینہ پیدا ہو چکا ہے۔ ان کے دلوں میں آگ سی جلتی رہتی ہے جس کے شعلے ان کی آنکھوں اور زبان سے نکلتے ہیں۔ اس آگ کو ایندھن چاہیے ہوتا ہے اگر وہ نہ ملے تو آدمی خود اس میں جلنے لگتا ہے جیسے دیے میں تیل نہ رہے تو بتی جل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments