مسجد نبوی: ریڈ لائن کراس ہو چکی


پی ٹی آئی کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسجد نبوی میں ہلڑ بازی سے حتمی ریڈ لائن کراس ہو چکی۔ یاد رکھیں کہ پاکستان تحریک انصاف اقتدار سے علیحدگی کے دوران پارلیمنٹ پر شب خون، عدلیہ کی بے توقیری، اسٹیبلشمنٹ کو متنازعہ بنانے کی کوششیں، ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بے احتیاطی کے ساتھ دیے بیانات اور پاکستان کے عالمی تعلقات پر دشنام طرازی کر کے بہت سی ریڈ لائنز عبور کرچکی ہے، لیکن مسجد نبوی میں سیاسی ہلڑ بازی کے نتیجے میں جو ریڈ لائن کراس ہوئی ہے وہ حتمی ہے۔

اس کی وجہ سادہ سی ہے، ایک مقدس مقام کا تقدس جس ذہنیت کے ساتھ پامال کیا گیا ہے، اس ذہنیت کا اندازہ ہمیں پہلے سے تھا لیکن اب اس بات پر مہر ثبت ہو گئی ہے عمران خان نے اپنے غیر سیاسی ذہن کے ساتھ جس طرح اپنے پرستاروں کو اپنے ”پیروکاروں“ میں بدلنے کا عمل شروع کر رکھا ہے، اس کو اگر ابھی نہ روکا گیا کہ تو اس ملک میں وزیراعظم سے لے کر چیف الیکشن کمشنز تک، آرمی چیف سے لے کر چیف جسٹس تک اور گلی محلے میں خان صاحب کی فلاسفی سے اختلاف کرنے والے کسی شخص کے جان و مال محفوظ نہیں رہیں گے۔

عمران خان کو جب ایک ”غیر سیاسی“ سیاستدان کہا جاتا ہے تو بہت سے لوگ اسے ان کی تعریف سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست کو گالی کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن باشعور اقوام میں سیاسی ذہن رکھنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک لیڈر جو اپنی حدود پہچانتا ہو، جو اپنی ذات سے آگے بڑھ کر ملک کی سلامتی و بقا کو مقدم سمجھے، جس کی انا کا غبارہ ملک و قوم سے بڑھ کر نہ ہو۔ لیکن خان صاحب کا حال یہ ہے کہ ان کا اقتدار ہاتھ سے کیا نکلا وہ اشتعال میں آ کر صحیح غلط کا فرق ہی بھول بیٹھے۔

جس طرح اپنے پشاور جلسے میں انہوں نے ایٹمی اثاثوں کو چوروں کے حوالے کرنے کی بات کر کے ان کے غیر محفوظ ہونے کی بات کی، اس سے بدترین دشمنی ریاست پاکستان سے ہو ہی نہیں سکتی۔ جس ریاست کی نہ صرف سالمیت کا انحصار ان ایٹمی اثاثوں پر ہے، بلکہ دنیا عرصہ دراز سے ان پر نظریں جمائے بیٹھی ہے، ان اثاثوں کی ہینڈلنگ کو متنازعہ بنانا کس کی خدمت ہے؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے پاکستان کے یہ ایٹمی اثاثے بھی ان ”چوروں“ کی دین ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا، بے نظیر بھٹو نے میزائل ٹیکنالوجی سے اس پروگرام کو جدید بنایا اور میاں نواز شریف نے امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی سالمیت کو محفوظ ترین بنانے میں اہم کردار نبھایا۔ اس دوران جنرل ضیا الحق، صدر غلام اسحاق صدر اور جنرل پرویز مشرف نے اس پروگرام کو وسعت دینے کے لئے اپنا اپنا کردار نبھایا، تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھا لیکن ایٹمی پروگرام پر آنچ نہیں آنے دی، لیکن عمران خان کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔

اوپر سے سابق وزیراعظم نے امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر جس طرح خود کو عالم اسلام اور پاکستان کا مجاہد اور دوسروں کو ولن بنا کر پیش کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے، اس نے ان کی اندھی تقلید کرنے والوں کی سوچ کو بالکل سلب کر کے رکھ دیا ہے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے معمول کے سیاسی عمل کر جس طرح سازش کا لبادہ اوڑھایا ہے اس سے ان کے چاہنے والوں کی آنکھیں کھلنی چاہئیں تھیں کہ جمہوری حکومتوں میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنا عام سی بات ہے، اور اگر حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہو تو اس کا گر جانا کوئی عالمی سازش نہیں بلکہ ایسا ہی معمول کا عمل ہے کہ جیسے حکومت ووٹ کے ذریعے قائم ہوئی، ویسے ہی ووٹ کے ذریعے ختم ہو گئی۔

لیکن عمران خان نے خود کو پاکستان تو کیا دنیا کے ایماندار ترین اور شفاف لیڈر بنا کر، ریاست مدینہ کے برانڈ میں لپیٹ کر عظیم الشان رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی، اس نے ان کے چاہنے والوں میں نفرت اور تقسیم کی آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ عمران خان بلاشبہ ایک بڑے لیڈر ہیں، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تو وہ پاکستان کے پہلے بڑے لیڈر ہیں، نہ وہ ملک کے واحد بڑے لیڈر ہیں اور نہ ہی آخری بڑے لیڈر ہوں گے۔ انہیں اگر تقدیر نے ملک کی قیادت کے لئے چنا تو انہیں اس پلیٹ فارم کا مثبت استعمال کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے پرستار دلیل، منطق اور شواہد پر بات یا بحث کرنے کی بجائے اندر ہی عقیدت پر یقین کرنے لگے ہیں، جس میں کسی اور کا نہیں بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کا قصور ہے جنہوں نے اپنے رویوں، بیانات اور عمل سے لوگوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

اب اس واقعہ کا ری ایکشن آئے گا۔ حکومتی کابینہ کے اراکین جو سعودی شاہی مہمان تھے، ان کی تذلیل بادشاہ اپنی تذلیل کے طور پر لے گا۔ اس سے ریاست پاکستان اور سعودیہ میں مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کے لئے مزید مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ پہلے ہی عمران خان، سعودی شہزاد محمد بن سلمان کی جانب سے تحفے میں ملنے والے بیش قیمت گھڑی بیچ کر پاکستان کے نام پر دھبا لگا چکے ہیں کہ یہ وہ قوم ہے جو ملنے والے تحفے بھی بیچ دیتی ہے۔

صرف سعودی عرب ہی نہیں۔ امریکہ، یورپی یونین کے خلاف ان کی بیان بازی۔ چین کے سی پیک پراجیکٹ کو سست ترین سطح پر لے جا کر انہوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ چاہے انہوں نے یہ سب غلط نیت سے نہ کیا ہو لیکن ان کا ”غیر سیاسی“ ذہن ریاست اور اپنے ذاتی مفاد کو الگ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان جس طرح ریاست مدینہ بنانے کے داعی ہیں، جس طرح وہ مدینہ شریف ننگے پاؤں اترتے ہیں۔ انہیں تو سرکار ﷺ کے روضہ مبارک میں پیش آنے والے اس واقعہ پر تڑپ اٹھنا چاہیے تھا۔ فوراً ً مذمتی بیان دینا چاہیے تھا لیکن اس واقعہ کے حوالے سے انہوں نے افسوس کا اظہار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا، بلکہ ان کی کچن کیبنٹ اس واقعہ کا دفاع کرتی اور اس کی آڑ میں مخالفین کا ٹھٹھہ اڑاتی نظر آئی۔ اس رویے پر سوشل میڈیا سے لے کر عام پاکستانی تک لوگوں کا بڑا ری ایکشن دیکھنے کو ملا۔

ان سب کا ایک ہی موقف ہے کہ کم از کم روضہ رسول ﷺ کو تو سیاست سے مبرا قرار دے دیتے۔ اس واقعہ کے دوران عمران خان کے قریبی فنانسرز اور دوستوں کی وہاں موجودگی اور ایک روز قبل شیخ رشید کی سعودی عرب میں کچھ ہونے کی پیشگوئی، سوال اٹھاتی ہے کہ آیا یہ پی ٹی آئی کارکنان کے فطری ردعمل کی بجائے ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اوپر سے اس واقعہ کے پیش آنے کے تھوڑی دیر بعد اسلام آباد میں سحری کرتے قاسم سوری پر جو حملہ ہوا اس سے صاف اشارے ملتے ہیں کہ ایسے واقعات سے ردعمل جنم لے گا۔

یہ ردعمل بڑھا تو کسی بھی سیاستدان کے لئے گھر سے نکلنا دوبھر ہو جائے گا، چاہے پھر وہ سیاستدان پی ٹی آئی کا ہو یا مخالف جماعت کا۔ اس لئے ہوش کے ناخن لیں، ابھی بھی کچھ وقت ہے کہ خود کو سدھاریں ورنہ حتمی ریڈ لائن تو آپ عبور کرچکے۔ یہ واقعات جاری رہے تو پھر ریاستی طاقت آپ سے ٹکرانے پر مجبور ہوگی جس کا نتیجہ کیا نکلے گا، ہم سب جانتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments