اُردو اور ہندی کے باکمال شاعر گوپال داس نیرج


اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے
صرف یہ اک شعر ہی اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ گوپال داس نیرج ایک انسان دوست شاعر تھے اور ہر قسم کی فرقہ واریت اور منافرت سے بالا تر تھے۔ افسوس کہ اردو اور ہندی کے یہ باکمال شاعر 19 جولائی 2018 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ گو کہ ان کی عمر ترانوے سال تھی وہ نوے سال کی عمر تک نہ صرف سفر کرتے رہے بل کہ اپنے حافظے کے بل پر اپنے پچاس ساٹھ سال قبل لکھے ہوئے اشعار اور غزلیں لہک لہک کر سناتے رہے۔ اپنے آخری مرحلے میں ان کا رجحان دوہوں کی طرف ہوگیا تھا اور وہ بہترین دوہے کہنے لگے تھے۔
گوپال داس سکسینہ 1925 میں اتر پردیش میں ایٹا واہ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔ اور کم عمری میں ہی اچھے اشعار کہنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنا قلمی نام اور تخلص ” نیرج ” رکھا۔ اور وہ اُردو اور ہندی کے ادبی حلقوں میں اسی نام سے جانے جاتے تھے۔ اُن کے ادبی قدو قامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1991 میں پدم شری اور 2007 میں پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازے گئے, جو بھارتی حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے اعلیٰ اعزاز ہیں۔
نیرج نے بڑا عرصہ علی گڑھ کے دھرم سماج کالج میں ہندی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے گزارا۔
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ چالیس سال کی عمر تک شاعر نہ بن سکے تو پھر کبھی شاعر نہ بن سکیں گے لیکن شاید یہ بات فلمی شاعری پر لاگو نہیں ہوتی کیوں کہ نیرج نے فلمی شاعری ٹھیک چالیس برس کی عمر میں شروع کی اور کامیاب رہے۔
نیرج ان شعرا میں سے تھے جو اُردو اور ہندی دونوں میں اعلیٰ شاعری بڑی آسانی سے کر سکتے تھے۔ مثلاً یہ غزل دیکھئے۔
اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلا جائے
جس میں انسان کو، انسان بنایا جائے
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں, جہلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے
پیار کا خون ہوا کیوں, یہ سمجھنے کے لیے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو, اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے
جسم دو ہو کے بھی, دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تری پلکوں سے اٹھایا جائے
گیت انمن ہے غزل چپ ہے رباعی ہے دکھی
ایسے ماحول میں نیرجؔ کو بلایا جائے
تقسیم ہند کے وقت نیرج بائیس سال کے تھے اور انہوں کے اُس دور کے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جس طرح مسلم, ہندو اور سکھ لکھنے والے چاہے وہ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ہوں یا کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی سب اسی دور کے الم ناک واقعات کو اپنے قلم سے محفوظ کررہے تھے۔ اسی طرح گوپال داس نیرج کی اس غزل میں اسی دور کی بھرپور عکاسی کے ساتھ امن خواہش کو کس خوب صورتی سے رقم کیا گیا ہے۔
1960 کے عشرے میں فلمی شاعری کی طرف آنے سے پہلے نیرج اردو اور ہندی شاعری میں اعلیٰ مقام حاصل کر چکے تھے۔ اُن کے فلمی شاعری کی طرف آنے کا قصہ بھی اس قصے سے ملتا جلتا ہے, جو ایک اور مشہور فلمی شاعر شیلندر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ نیرج سے پہلے شیلندر کا قصہ سن لیجئے۔
شنکر داس کیسری لال شیلندر راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے اور ترقی پسند سیاست میں شرکت کے ساتھ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن ( IPTA ) میں بھی سرگرم تھے اور بمبئی کے ماٹونگا ریلوے ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ کسی مشاعرے میں شیلندر نے اپنی مشہور نظم ” جلتا ہے پنجاب ” سنائی تو راج کپور کوخبر ہوئی اور انہوں نے شیلندر سے اس نظم کو خرید کر اپنی فلم آگ میں استعمال کرنا چاہا مگر شیلندر نے اس وقت انکار کر دیا ہے مگر بعد میں مالی حالات سےمجبور ہو کر خود راج کپور کے پاس گئے جو اُس وقت یعنی 1949 میں فلم برسات بنا رہے تھے۔ شیلندر نے صرف پانچ سو روپے کے عوض ” پتلی کمر ہے ترچھی نظر ہے ” اور ” برسات میں ہم سے ملے تم ” جیسے گانے لکھ دیئے جو نہ صرف بڑ ے مشہور ہوئے بلکہ شیلندر کے لئے فلمی شاعری کے راستے کھول گئے۔
نیرج اور شیلندر کا تعلق اس طرح بنتا ہے کہ جب 1966 میں شیلندر کا صرف تینتالیس سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تو فلمی شاعری میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا, جس کو نیرج نے اس طرح پورا کیا کہ 1970 کے عشرے میں انہیں مسلسل تین بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ جو 1970 سے 1972 تک تھے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ ایک ایسا شاعر جو چھ سال کی عمر میں یتیم ہوچکا ہو اور جسے دسویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنی پڑی ہو وہ کس طرح اپنی محنت اور لگن سے ادب اور شاعری میں اتنا بڑا مقام حاصل کرنے میں کام یاب ہوا ہوگا۔ جب کہ فلمی شاعری سے اُن کا تعلق صرف پانچ سال رہا۔
نیرج کی فلمی شاعری کی طرف آمد کا قصہ یہ ہے کہ 1966میں مشہور اداکار دیوآنند اپنی فلم ” پریم پچاری ” کے لئے کسی اچھے شاعر کی تلاش میں تھے۔
شیلندر کا انتقال ہوچکا تھا۔ دیوآنند نے نیرج کا کلام ” کارواں گزر گیا, غبار دیکھتے رہے ” سن رکھا تھا۔ اُنہوں نے نیرج کو ممبئی بلا کر مشہور موسیقار ایس ڈی برمن سے ملوایا۔ اُس دور میں فلمی گیتوں کی پہلے موسیقی ترتیب دی جاتی تھی اور پھر اس پر مصرعے لگائے جاتے تھے, کہا جاتا ہے کہ برمن نے نیرج کو آزمانےکےلیے کہا کہ ایسا گیت لکھو جس کا آغاز ” رنگیلا رے ” کے الفاظ سے ہو اور انہیں فلم میں گانے کا موقع محل سمجھا دیا, اگلے ہی روز نیرج نے وہ گیت لکھ دیا جو وحیدہ رحمان پر فلمایا گیا ” رنگیلا رے, تیرے رنگ میں یوں رنگا ہے, میرا من “
پھر راج کپور بھی جو اب تک شیلندر کے گیتوں کو استعمال کرتےتھے, نیرج کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنی فلم ” میرا نام جوکر ” کے گیت لکھنے کا کہا, جس پر سرکس میں فلمایا گیا گانا ” اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو, آگے ہی نہیں پیچھے بھی ” وجود میں آیا جس نے ایک طرح سے زندگی کا پورا فلسفہ بیان کر دیا کہ زندگی میں کس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواجہ احمد عباس کے مکالموں اور اسکرین پلے نے اس فلم میں جان ڈال دی تھی مگر پھر بھی یہ فلم وہ کام یابی حاصل نہ کرسکی جس کی راج کپور کو توقع تھی۔
” میرا نام جوکر ” کی موسیقی شنکر جے کشن نے ترتیب دی تھی اور اس طرح نیرج کو ایس ڈی برمن کے ساتھ شنکر اور جے کشن کا بھی سہارا مل گیا جو دو الگ افراد تھے, مگر جوڑی کی شکل میں موسیقی ترتیب دیا کرتے تھے۔ شنکر سنگھ ریاست حیدرآباد کے تھے اور جے کشن پنچل گجراتی مگر بمبئی میں دونوں نے مل کر شان دار گیتوں کی موسیقی دی۔ مگر بدقسمتی سے شیلندر کی طرح جے کشن بھی صرف بیالیس سال کی عمر میں کرگئے سال تھا 1971 ۔
جے کشن کے انتقال کے بعد شنکر اکیلے موسیقی ترتیب دیتے رہے مگر اُنہوں نے شنکر جے کشن کا نام ہی استعمال کیا۔
“پریم پجاری ” اور ” میرا نام جوکر ” دونوں 1970 میں منظر عام پر آئیں پھر نیرج نے دیو آنند کی ہی ایک اور فلم ” گیمبلر ” کے لئے گیت لکھے جن میں ” میرا من تیرا پیاسا, پوری کب ہو گی آشا ” بہت مقبول ہوا اس گیت کو محمد رفیع کی آواز نے چار چاند لگا دیئے تھے اور اب بھی اس گانے کو سن کر لوگ جھومتے ہیں۔ گیمبلر 1976ِ میں نمائش کے لئے پیش کی گئی۔
یاد رہے فلمی شاعری تو نیرج نے ” رنگیلا رے ” سے شروع کی مگر اُن کا کلام ” کارواں گزر گیا, غبار دیکھتے رہے ” 1965 کی فلم ” نئی عمر کی نئی فصل ” میں رفیع صاحب گا چکے تھے۔ فلم ” پریم پجاری ” میں نیرج کا ایک اور گیت مشہور ہوا ” پھولوں کے رنگ سے, دل کے قلم سے ” جسے کشور کمار نے گایا۔ اس طرح گیمبلر کا ایک اور گانا ” دل آج شاعر ہے, غم آج نغمہ ہے ” بھی کشور کمار نے خوب گایا۔ اسی طرح ” پریم پجاری ” کا ایک اور گیت ” شوخیوں میں گھولا جائے پھولوں کا شباب, اس میں پھر ملائی جائے تھوڑی سی شراب ” بھی خاصا مقبول ہوا جو کشور کمار نے ہی گایا تھا۔
اسی طرح 1971کی ایک فلم شرمیلی کا گیت ” کھلتے ہیں گُل یہاں کِھل کے بکھرنے کو, ملتے ہیں دل یہاں مل کے بچھرنے کو ”  کسے یاد نہیں۔ ششی کپور اور راکھی پر فلمایا یہ گیت آج تک کانوں میں رس گھولتا ہے۔
نیرج کے اس گیت کی موسیقی بھی ایس ڈی برمن نے ترتيب دی تھی۔ زرا دیکھیے۔
” جھلیوں کے ہونٹوں پر, میگھوں کا راگ ہے, پھولوں کے سینے میں, ٹھنڈی ٹھنڈی آگ ہے, دل کے آئینے میں تو, یہ سماں اتار لے ” اب اس کا موازنہ نیرج کے ایک اور گیت سے کیجیے جو 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ” کنیا دان ” سے ہے اور ششی کپور اور آشا پاریکھ پر فلمایا گیا جسے محمد رفیع نے گایا ” لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے, سویرا جب ہوا تو پھول بن گئے, جو رات آئی تو ستارے بن گئے۔ “
جس وقت فلمی شاعری پر مجروح سلطان پوری, کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی جیسے بڑے نام چھائے ہوئے تھے ایسے میں نیرج نے بڑی جلدی اپنا مقام بنایا۔ اتنی جلدی کامیابی حاصل کرنے کے بعد فلم انڈسٹری چھوڑنے کی بڑی وجہ خود نیرج یہ بتاتے تھے کہ ان کے دو موسیقار جن کے ساتھ انہیں کام کرنے میں مزا آتا تھا ،یعنی جے کشن اور ایس ڈی برمن بالترتیب 1971 اور 1975 میں فوت ہو گئے جس کے بعد نئے موسیقاروں سے ان کی نہ بن سکی اور وہ پھر کل وقتی تدریس اور غیر فلمی شاعری میں مشغول ہو گئے۔ پھر انہوں نے دوہے بھی خوب لکھے اور ہائیکو بھی۔ مثلاً یہ دیکھیے۔
میری جوانی
کٹے ہوئے پنکھوں کی
ایک نشانی
تدریس میں وہ علی گڑھ کی منگلا باتن یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے تک پہنچے اور آخر یہ کہتے ہوئے گزر گئے۔
ہم تو مست فقیر ہمارا کوئی نہیں ٹھکانا رے
جیسا اپنا آنا ویسا اپنا جانا رے۔
گوپال کی کچھ کتابوں کے نام۔
کاؤ یا نجلی, گیت گنگا, نیرج کی غزلیں, پھول کھلیں ہیں گلشن گلشن۔
نیرج کی کچھ شاعری۔
ہے بہت اندھیار اب سورج نکلنا چاہیے
جس طرح سے بھی ہو یہ موسم بدلنا چاہیے
روز جو چہرے بدلتے ہیں لباسوں کی طرح
اب جنازہ زور سے ان کا نکلنا چاہیے
پھول بن کر جو جیا ہے وہ یہاں مسلا گیا
زیست کو فولاد کے سانچے میں ڈھلنا چاہیے
چھینتا ہو جب تمہارا حق کوئی اوس وقت تو
آنکھ سے آنسو نہیں شعلہ نکلنا چاہیے
کچھ اور اشعار دیکھیے۔
خوشبو سی آ رہی ہے ادھر زعفران کی
کھڑکی کھلی ہے پھر کوئی ان کے مکان کی
ہارے ہوئے پرند ذرا اڑ کے دیکھ تو
آ جائے گی زمین پہ چھت آسمان کی
جیوں لوٹ لیں کہار ہی دلہن کی پالکی
حالت یہی ہے آج کل ہندوستان کی
ہائیکو ” کیوں شرمائے, تیرا یہ بانکپن, سب کو بھائے “
” او میرے میت, گا رے ہر پل تو, پریم کے گیت “
اور  ” جینا ہے تو, نہیں ہونا نراش, رکھ وشواس “
” اِس کو بھی اپناتا چل, اُس کو بھی اپناتا چل
راہی ہیں سب ایک ڈگر کے سب پر پیار لٹاتا چل “
بس یہی اپراد میں ہر بار کرتا ہوں
آدمی ہوں آدمی سے پیار کرتا ہوں
جتنا کم سامان رہے گا, اتنا سفر آسان رہے گا
اس سے ملنا نا ممکن ہے, جب تک خود کا دھیان رہے گا
جس میں مذہب کے ہر اک روگ کا لکھا ہے علاج
وہ کتاب ہم نے کسی رند کے گھر دیکھی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments