قاسم علی شاہ: ایک حقیقی استاد


اللہ تعالیٰ کی ان گنت مہربانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اپنے بندے کی زندگی میں کچھ عظیم اور کامیاب لوگوں کا اضافہ کر دیتا ہے اور اسے ان کا ساتھ عطا ہوجاتا ہے۔ یہ چار سال پہلے کی بات ہے کہ ایک روز میں حسب معمول اپنی ڈیوٹی میں مصروف تھا کہ مجھے خبر ملی کہ معروف موٹیویشنل سپیکر جناب قاسم علی شاہ صاحب خانیوال تشریف لا رہے ہیں۔ یہ خبر میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھی کہ شاہ جی ہمارے شہر تشریف لائیں گے اور جناح لائبریری میں سامعین سے خطاب بھی کریں گے۔ میں بہت خوش تھا کہ ہزاروں بار سوشل میڈیا پر ان کے متاثر کن لیکچر سننے کے بعد آخر کار وہ گھڑی آن پہنچی کہ ہم قاسم علی شاہ صاحب کو لائیو دیکھیں اور سنیں گے۔

”بدل دو خانیوال“ کے نام سے اپنے اس دورے میں شاہ جی نے خانیوال کے نوجوانوں کی کثیر تعداد سے بہت متاثر کن خطاب کیا اور سچ کہوں تو میرے دل میں علم کی سچی پیاس پیدا کرنے میں شاہ جی کے ان کلمات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ چنگاری ابھی ذرا سی ہی بھڑکی تھی کہ خدائے لم یزل نے ایک اور موقع فراہم کیا کہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن لاہور میں دس روز ”ٹرین دی ٹرینر“ پروگرام کا آغاز ہوا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح چھٹیوں کا انتظام کیا اور دس دن کے لیے ٹرین دی ٹرینر پروگرام کا حصہ بن گیا۔ یہ پروگرام میری ذات کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا کہ اس میں قاسم علی شاہ صاحب کے علاوہ بھی پاکستان بھر کے نامور ٹرینرز اور لائف کوچز کے لیکچرر سننے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ دس قیمتی کتابوں کا تحفہ علیحدہ سے عطا ہوا۔ اس کے علاوہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی 100 ایسی فلموں کی لسٹ ملی کہ جنھوں نے انسانوں کی زندگیاں بدل کے رکھ دیں۔ یہ دس روزہ پروگرام تو ختم ہو گیا مگر ان گنت یادوں کے نقوش دل و دماغ پر ثبت کر گیا۔

کتابوں سے کمزور پڑتا رشتہ ایک بار بھی تازہ دم اور مضبوط ہو گیا۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے والے ائیڈیاز اور کتابوں سے آشنائی حاصل ہوئی۔ آپ یوں کہیے کہ زندگی کو ایک نئی ڈگر ملی اور ایک نیا حوصلہ عطا ہوا۔ اس علم کے گہوارے میں بیٹھ کر دل سے دعا نکلی تھی کہ اے اللہ! علم انبیائے کرام کی میراث ہے تو ہمیں علم کی دولت سے مالامال فرما اور اپنے علم پر عمل کی توفیق بھی عطا فرما۔ انھی دعاؤں اور نداؤں کا ارتعاش تھا کہ مالک کے کرم سے ڈھیر ساری کتابیں پڑھنے کے ساتھ اس پلیٹ فارم کی برکت سے بے شمار ایسے لوگوں سے میل ملاقات کا موقع ملا جو اپنے اپنے میدان کے شہسوار نکلے۔ یہاں اگر میں ان حضرات کے نام لکھنا شروع کروں تو مجھے لگتا ہے کہ سلسلہ تحریر بہت طوالت اختیار کر جائے گا اس لیے اس موضوع پر میں آئندہ علیحدہ سے ایک تحریر لکھنے کا متمنی ہوں۔

سچی طلب ہی کا شاخسانہ تھا کہ میرا ٹرانسفر ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ پنجاب ہو گیا اور مجھے پولیس ٹریننگ کالج لاہور میں ہزاروں افسر کو پڑھانے کا موقع مل گیا۔ سونے پہ سہاگا دیکھئے کہ اب میری مادر علمی یعنی قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن مجھ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ خداوند قدوس کے کرم سے میں نے فاؤنڈیشن میں کئی ٹریننگز میں حصہ لیا اور بہت سی کتابوں کی تقاریب رونمائی میں شرکت کی۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں بننے والی متعدد وڈیوز میں وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر کام کیا جو تادم تحریر جاری و ساری ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب سے ہونے والی ہر ملاقات میں شاہ جی کو انتہائی محبت کرنے والا اور متواضع انسان پایا۔ میں مشکور ہوں شاہ جی کا کہ انھوں نے ایک حقیقی گرو، مینٹور اور مسیحا کے روپ میں میرے ہی نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی نحیف و نزار سوچوں کو زندگی کی رمق عطا کی، بنجر آنکھوں کو خوابوں کی چلمن عطا کر ڈالی۔

قاسم علی شاہ صاحب پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیغام کو عام کر دیا ہے۔ آج دنیا کے ہر اس گوشے میں جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، قاسم علی شاہ صاحب کو دیکھا، سنا، سمجھا اور پہچانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک شاہ جی اور ان کے کام کو مزید برکتوں اور سعادتوں سے نوازے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments