شریف بہو بیٹیاں پیوٹن کی باتیں نہیں سنتیں


کئی برس سے یورپ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر 2005 میں ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ کرٹ ویسٹر گارڈ کے بنائے ہوئے بارہ گستاخانہ خاکے شائع ہوئے۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ پہلے ڈنمارک میں تین مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا جو ویسٹر گارڈ کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ پھر ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا جو کہ اس کو چاقو سے قتل کرنے کے ارادہ سے اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھا۔

ان خاکوں کی اشاعت میں یورپ کی حکومتوں کا ایک ہی رد عمل تھا کہ ہمارے قانون میں رائے اور اظہار کی مکمل آزادی ہے اور معلومات حاصل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اگر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو اس بنا پر ہم اپنی روایات کو ترک نہیں کر سکتے۔ یہ خاکے اس کارٹونسٹ کا ذریعہ اظہار ہیں اور قانون اسے اس کی مکمل آزادی دیتا ہے۔

یہ لیکچر ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ اس کے بعد اس جیسے دوسرے واقعات شروع ہو گئے۔ خاص طور پر 2015 میں فرانس میں شارلی ایبڈو نامی جریدے میں شائع ہونے والے خاکے عالمی توجہ کا مرکز بنے۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ اس کے جواب میں اہل یورپ نے پھر وہی بھاشن شروع کر دیے کہ ہمارے ممالک میں اظہار کی آزادی ہے اور ہر قسم کی معلومات حاصل کرنے کی آزادی ہے۔ ہم مسلمانوں کے شور کی وجہ سے اپنی اقدار کو ترک نہیں کر سکتے۔ اور بعض سرکاری عمارات میں بھی یہ خاکے آویزاں کیے گئے۔ اس کے نتیجہ میں شارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا اور 12 افراد قتل ہو گئے۔ اور سکول میں ایک استاد نے مسلمان طلباء کی موجودگی میں یہ خاکے دکھائے اور اس کے بعد اس استاد کا قتل ہوا۔

معلوم یہ ہوتا ہے کہ یورپ کے کئی لیڈر یہی چاہتے تھے کہ یہ اس مسئلہ پر تنازعہ چلتا رہے۔ چنانچہ کچھ برس قبل فرانس کے صدر میکرون نے یہ بیان داغا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو کہ بحران کا شکار ہے۔ اور ان خاکوں کا دفاع کیا۔ اس پر پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں شدید احتجاج کیا گیا اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی۔

بہر حال یہ بحث تو چل رہی تھی کہ پیوٹن صاحب کی قیادت میں روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں مغربی دنیا پر جو کپکپی طاری ہوئی وہ اب تک جاری ہے۔ عسکری لحاظ سے سلامتی کے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے اہل یورپ کی پریشانی ایک قدرتی بات تھی۔ لیکن پیوٹن صاحب کی اس حرکت پر یورپ کا رد عمل کچھ ایسا ہی جیسے کوئی ہٹا کٹا مسٹنڈا کسی زنان خانے میں گھس آیا ہو اور شریف بہو بیٹیاں اوئی اوئی کی آوازیں نکالتے ہوئے دوڑ کر اپنے اپنے دوپٹے ڈھونڈ رہی ہوں۔ لیکن اب اس بھاگم دوڑ میں یورپ کی بے مثال اور مادر پدر آزاد آزادی اظہار اور معلومات حاصل کرنے کی آزادی بھی قدموں تلے روندی جا رہی ہے۔

بجائے اس کے کہ اس نادر موقع پر اہل یورپ آزادی اظہار پر اپنے بھاشن از سر نو شروع کرتے، انہیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اے نوج! اگر روسی مسٹنڈوں کی مخرب اخلاق باتیں ہمارے گھر کی عورتوں اور کچے ذہن کے بچوں کے کان میں پڑیں تو کیا ہو گا۔ چنانچہ یورپ کے سیانے سر جوڑ کر بیٹھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ یورپ میں روس کے ان چینلز کی نشریات پر پابندی لگا دی جائے، جن پر روس کی ریاست کا کنٹرول ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر رشیا ٹوڈے اور سپوٹنک چینلز کی بالواسطہ اور براہ راست نشریات پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پر کچھ سیانوں نے کہا کہ اگر ان پر پابندی لگائی تو آزادی اظہار پر ہمارے ان لیکچروں کا کیا ہو گا، جن کو سن سن کر دنیا کے کان پک گئے ہیں۔ کیا اس پابندی سے معلومات حاصل کرنے کی آزادی متاثر نہیں ہو گی۔ اور ہمارے قانون میں تو اس کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔

چنانچہ اس اشکال کو دور کرنے کے لئے یورپین یونین کے چوٹی کے سفارت کار جوزف بورل میدان میں اترے اور یورپین پارلیمنٹ میں اس بحث کے دوران ایک تقریر کی۔ اور ان کم عقل معترضین کو فہمائش کی کہ تم سمجھے ہی نہیں یہ چینلز کوئی آزاد میڈیا تو نہیں ہیں۔ یہ تو روس کی ظالم حکومت کے ہتھیار اور اثاثے ہیں۔ ہم یہ بتانے کی کوشش نہیں کر رہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے؟ لیکن ہمیں اپنی توجہ اس بیرونی ہاتھ پر مرکوز کرنی پڑے گی جو کہ ہماری فضا میں غلط اطلاعات کا زہر پھیال رہا ہے۔

لو اور سنو! اب تک تو یہ حضرات ہمیں ہر قسم کی آزادی پر گھوٹ گھوٹ کر لیکچر پلاتے رہے۔ اور اب اپنے پراپیگنڈا کی خود نفی کر دی۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ ان چینلز پر نشر ہونے والی باتیں وہ جھوٹی باتیں ہیں جو روس کے جابر حکمرانوں نے پھیلائی ہیں تو تم اپنے چینلز پر ان کی حقیقت نشر کر دو اور لوگوں کو فیصلہ کرنے دو کہ کیا جھوٹ ہے اور کیا سچ ہے۔ یہ کون سی آزادی ہوئی کہ اہل یورپ تمہارا نقطہ نظر تو دن رات سنیں لیکن جب دوسرے کا نقطہ نظر سننے کی باری آئے تو ان کے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ اچھے بچے ایسی باتیں نہیں سنتے۔

اور ان چینلز کی نشریات کو بالواسطہ نشر کرنے پر بھی پابندی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی یورپ کا باشندہ اپنی سائٹ پر ان روسی چینلز کا کوئی کلپ نشر کرتا ہے تو یہ بھی جرم ہو گا۔ اب یورپ کی آزادی اظہار کہاں گئی؟ اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ ان روسی چینلز کا موقف درست ہے اور وہ اس کا کلپ نشر کر کے اس رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے اس کا حق ہونا چاہیے۔ جس طرح یورپ کے ان سیانوں کے نزدیک گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو اس طرح اظہار کا حق تھا۔

بہر حال جوزف بورل صاحب نے کہا کہ یہ چینلز وہ مشینری ہیں جن کے ذریعہ ہوشیاری سے پیوٹن اپنے مقاصد کا پراپیگنڈا کر رہا ہے اور اگر معلومات میں اس طرح سوچے سمجھے انداز میں جھوٹ کی آمیزش کی جائے اور اسے توڑ موڑ کر پیش کیا جائے تو عام لوگوں کے خیالات میں بھی کجی پیدا ہو جاتی ہے۔ سرکار! مسلمان بھی تو یہی کہہ رہے تھے کہ یہ اظہار رائے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مخالفین کا پروپیگنڈا کرنے کا لچر انداز ہے۔ لیکن اس دلیل کو سن کر اہل یورپ پر تشنج کے دورے پڑنے لگتے تھے کہ نہیں ہم آزادی اظہار اور معلومات کی آزادی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔

اگر اہل یورپ آزادی اظہار کے بارے میں واقعی اتنا سنجیدہ تھے تو آج موقع تھا کہ وہ اپنا نیک نمونہ دنیا کے سامنے رکھتے اور جس طرح سکول میں گستاخانہ خاکے دکھائے گئے تھے اور سرکاری عمارتوں میں انہیں آویزاں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا کہ اب فرانس میں اور دوسرے یورپی ممالک میں ان روسی چینلز کی نشریات سکولوں میں اور سرکاری اداروں میں دکھائی جاتیں کہ تمہارے لئے دوسرے کا نقطہ نظر سننا ضروری ہے۔

لیکن اور تو اور نیٹفلکس ادارے نے بھی اس قسم کی نشریات نشر کرنی بند کر دیں۔ نیٹفلکس پر تو دنیا بھر کے لوگ اپنی دلچسپی کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ یہ سب پابندیاں تو لگی سو لگی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سائنسی تحقیق کے جریدے ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہ پابندی لگا دی ہے کہ وہ روس سے تعلق رکھنے والے محققین کے ریسرچ پیپر بھی شائع نہیں کریں گے۔ معلوم نہیں اب آزادی اظہار اور معلومات کی آزادی کس حجرے میں سو رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments