ویڈیوز اور آج کے ٹیپو اور میر جعفر


آج کل کی موبائل اور سٹریمنگ سروسز کو استعمال کرنے والی جنریشن کو شاید اس زمانے کے بارے میں علم نہ ہو جب وی سی آر عام ہوا کرتا تھا اور ہر مارکیٹ میں فلموں کی ایک دو دکانیں ضرور ہوا کرتی تھیں جہاں سے فلمیں کرائے پر دستیاب ہوجاتی تھیں۔ انڈین فلموں پر سرکاری طور پر سینما میں پابندی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ان کرائے کی فلموں کی وساطت سے ہندی فلموں کا دھندا کبھی بھی اس پاک دھرتی میں مندا نہیں ہوا۔ اس پاک دھرتی پر جس کے نوجوان ”مجاہد“ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا عزم کرتے نہیں تھکتے تھے۔ جی ہاں! شاید مسروق انڈین فلمیں دشمن کی ”ترقی“ پر نظر رکھنے کا ایک سستا اور ٹکاؤ ذریعہ تھیں۔

خیر تو بات ہو رہی تھی ان دکانوں کی۔ یوں تو ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں کے رسیا ان دکانوں پر آتے جاتے ہی رہتے تھے۔ لیکن کوئی کوئی گاہک بڑا پراسرار ہوتا تھا۔ یہ پراسرار گاہک دکان میں داخل ہو کر فلم بھی نہیں لیتا تھا لیکن ایک ایک فلم کے پوسٹر اور ٹائٹل بار بار پڑھتا تھا۔ گاہک کی اس پراسراریت سے دکاندار خود ہی بھانپ لیا کرتا تھا کہ اس کو کون سی والی فلم درکار ہے۔ اگر دکاندار کے پاس مخصوص ”فلم“ ہوتی تو وہ اس کو کسی خفیہ خانے سے نکال کر فراہم کر دیتا ورنہ بتا دیتا کہ گاہک کے مطلب کی فلم اس کے پاس موجود نہیں۔

اچھا زمانہ تھا جناب۔ لوگوں کی آنکھ میں اس وقت ”حیا“ تھی۔ تمام ہیجان انگیز اور دلچسپ و حیرت انگیز معاملات اشارے کنایوں میں ہی نپٹائے جاتے تھے۔ مجال ہے کہ چسکا خوری پر سینہ زوری بھی ہو۔ اب تو بس آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ آج کل چند مخصوص ویڈیوز کا بڑا چرچا ہے۔ یاد رہے کہ یہ مبینہ ویڈیوز ”مارکیٹ“ میں فی الوقت دستیاب نہیں ہیں۔ وہ جو اوپر اوپر سے مذمت کر رہے ہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں ایسا مواد نہیں پھیلانا چاہیے وہ بھی یہ پوچھے بنا نہیں رہتے کہ ”آپ کے پاس ویڈیوز ہیں؟“ ۔ اس سوال کی آڑ میں وہ جو کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ”اگر ہیں تو مجھے بھی بھیج دیں“ ۔ کچھ پوچھنے والے ذرا زیادہ بے شرم قسم کے بھی ہیں کھل کر مانگ لیتے ہیں گھبراتے بالکل نہیں ہیں۔ دونوں قسم کے شوقین مزاج یہ یقین نہیں کرتے کہ فدوی کے پاس ایسی کوئی ویڈیو نہیں۔

مبینہ ویڈیوز پھیلانے والوں سے زیادہ اس کا ممکنہ ”نشانہ“ بننے والے خود اس کی تشہیر میں مصروف ہیں۔ میرے نزدیک اصل بات جو زیادہ فکر کا باعث ہے وہ ان ویڈیوز کی خاطر عام لوگوں میں پھیلا ہوا ہیجان ہے۔ جس کو دیکھو وہ ان ویڈیوز کے بارے میں جاننا اور ان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ ویڈیوز اصلی بھی ہیں تو بھی صاحبان ویڈیوز سے زیادہ اس کو دیکھنے کے خواہش مند کی ذہنی حالت پر آپ کو ترس آتا ہے۔ ان صاحبان ویڈیوز کو پسند کرنے والوں کی اکثریت ان ویڈیوز کے باعث ان کی حمایت بند نہیں کریں گے۔ ان کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ ان کو اپنے لیڈر کے تضادات دکھائی دیتے ہیں اور نہ کسی کے منطقی دلائل۔ اس بات پر مجھے عمر شریف مرحوم کے کسی شو کا ایک سین یاد آ گیا جس میں وہ مزاحاً کہتے ہیں کہ ”خدا پوچھے گا تو نے شراب پی؟ تو میں کہوں گا ہاں پی!“ ۔

جہاں تک صاحبان ویڈیوز کے مخالفین کی مخالفت کا تعلق ہے تو وہ ان ویڈیوز کی محتاج نہیں۔ پھر بھی وہ ان ویڈیوز کو دیکھنے کے شدید خواہش مند ہیں۔ یہ خواہش محض چسکا خوری اور تماش بینی ہے اور کچھ نہیں۔ ویسے تو ایک عوامی لیڈر کی زندگی عوام کی امانت ہوتی ہے اس کی ذات کی نہیں خاص طور پر ایک ایسا لیڈر جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کا منبع ہونے کا دعویدار ہے، جو قوم کو ہر وقت اپنا احسان جتاتا ہے جو اس نے سیاست میں قدم رکھ کر قوم پر کر دیا ہے۔ اس سب کے باوجود کسی کے بھی کردہ ناکردہ گناہوں کی سچی یا جھوٹی ویڈیوز پھیلانا ایک انتہائی قبیح حرکت ہے جس کا حاصل وصول سوائے غلاظت اور چسکا خوری کے اور کچھ نہیں۔

ہر جانب ایک بھیانک اخلاقی انحطاط ہے جو کھڑا آپ کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ زوال ایک دن میں نہیں آیا۔ اس لشکر کو خاص طور پر ”غزوۂ ہند“ کے لئے بہت ”محنت“ سے تیار کیا گیا ہے۔ ان کی منزل و مراد نہ کشمیر ہے نہ لال قلعہ بلکہ یہ ممبئی فتح کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ وہاں کی ”چٹیاں کلائیاں“ مال غنیمت میں داخل کی جاسکیں۔ اس جنریشن کا ہیرو ارطغرل ہے جس نے ”حلیمہ باجی“ کے لباس کی پیمائش جیسی جان جوکھم میں ڈالنے والی ذمہ داری اپنے اوپر فرض کرلی ہے۔

یہ ٹیپو کی طرح شیر کی ایک دن کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ٹیپو اپنے ان ”جانثاروں“ سے دو سو چوبیس برس پہلے ہی نکل لئے ورنہ مارے شرم کے خود ہی سرنگا پٹم انگریز کے حوالے کر دیتے۔ میر صادق کو اتنی زحمت نہ کرنی پڑتی۔ امریکہ کو کیا پڑی ہے جناب کہ وہ آج کے ”میر جعفروں“ سے ساز باز کرتا پھرے؟ ہم اپنی تباہی کے لئے خود ہی کافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments