عورت جو ایک ماں بھی تھی، بمبار کیوں بنی


ایم فل ڈگری کی حامل، خاندانی پس منظر انتہائی تعلیم یافتہ، ڈاکٹر شوہر اور دو بچوں کی ماں شاری بلوچ نے تقریباً دس دن پہلے اپنے آپ کو خودکش حملے میں فدا کر لیا۔

اس حادثے میں تین چینی پروفیسرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور بھی اپنی قیمتی جانوں سے گئے۔ اس سی پہلے بھی چینی باشندوں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ اس لیے تھا کہ خودکش حملہ آور ایک بلوچ خاتون تھی۔

اس سے پہلے بلوچ لبریشن آرمی نے کبھی کسی عورت کو اپنے حملوں میں استعمال نہیں کیا۔ اس کے باوجود کہ بلوچ بھائیوں کے ساتھ 1948 سے نا انصافی ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن اس حملے کی کسی طور پر بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔

آنسو بھری آنکھوں سے پلے کارڈز اٹھا کر اپنے گمشدہ بھائیوں، بیٹوں اور والد صاحب کے لئے آواز اٹھانا خودکش حملے سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔

اس ملک میں نا انصافی کس کے ساتھ نہیں ہو رہی؟ ہزارہ برادری، گلگت بلتستان کے لوگ، آزاد کشمیر کے لوگ، کراچی کے مہاجر عوام جو اب تک کوٹہ سسٹم کے تحت نوکریوں اور تعلیمی اداروں سے باہر ہیں، جنوبی پنجاب کے لوگ، اندرون سندھ کے غریب کسان جو جاگیرداروں کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتے، وزیرستان کے مقامی لوگ جن کے نام پر اربوں روپے لئے گئے لیکن وہاں اب تک ایک ڈھنگ کی سڑک اور اسپتال نہیں بن سکا۔

لیکن اس ظلم، ستم اور نا انصافی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب اپنے آپ کو بم سے باندھ کر حملے شروع کر دیں۔ کوئی بھی دلیل اور جواز اس حملے کو جائز قرار دینے کے لئے نہیں تراشا جا سکتا۔

دوسری طرف ریاست کو یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ حملہ کیوں ہوا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچ بھائیوں کی بات سننی ہو گی، ان سے مکالمہ کرنا ہو گا۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع یکساں طور پر سب کو فراہم کرنے ہوں گے تاکہ بقول احمد ندیم قاسمی کے،

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

ہمارا معاشرہ بیمار ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کا حسن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر طرف نفرتوں کے سائے ہیں جو دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر چیز سیاست کی نظر ہو رہی ہے۔ اس طرح کے واقعات کے ہونے کی ظلم اور نا انصافیوں کے علاوہ ایک بڑی وجہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں حد درجہ سیاست کا عمل دخل ہے۔ ہم نے ہنسنا، مسکرانا اور جینا چھوڑ دیا ہے۔

شب قدر کی رات سیاست، چاند رات کو لوگوں کو کہا جا رہا ہے جھنڈے لے کر نکلو۔ مسجد نبوی اور حرم پاک میں سیاست، عید پر لڑکیاں مہندی لگوا رہی ہیں کہ امپورٹڈ حکومت نا منظور۔ اتنی تقسیم؟

میری تمام سیاستدانوں سے التجا ہے کہ کم از کم ہمارے تہوار ہمیں واپس دے دو۔ اپنی کرسی اور اقتدار کی ہوس میں لوگوں کو چند دن یہ خوشیاں اور مسرت کے لمحات میسر ہوتے ہیں، ان کو ہم سے مت چھینو۔

غریب عوام کو ویسے ہی کون سی صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات مہیا ہیں کہ اب ان تیرہ نصیب عوام سے ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی اپنی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھا دی جائیں۔

ان تہواروں پر صرف انہیں موسیقی سے لطف اندوز ہونے دو۔ مزے مزے کے کھانے کھانے دو۔ ایک دوسرے سے گلے ملنے دو۔ مختلف کھیل کھیلنے دو۔ زندگی کو محسوس کرنے دو۔

ایک دوسرے سے گلہ کرنے اور کون سی جماعت ملک کے لئے بہتر ہے بحث کی بجائے آپس میں بیٹھ کر ایسے موضوعات پر گفتگو کرنے دیں جس سے آپس میں پیار بڑھے۔ اطہر شاہ خان مرحوم کہتے تھے کہ میرے گھر کا ایک اصول یہ ہے کہ کھانے کی میز پر ہر کسی کو ایک لطیفہ سنانا پڑتا ہے۔

لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ جب معاشرے میں نا انصافیاں بڑھتی ہیں تو گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ جبر کا موسم بہت عرصے تک رہے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ اور انسان جب باغی ہو جائے تو وہ پھر اپنے حقوق کے لیے کچھ بھی کر گزرتا ہے۔

شاری بلوچ نے بھی یہی کیا۔ شاری بلوچ کا عمل لاکھ غلط صحیح لیکن ریاست کے بڑوں کو سوچنا ہو گا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں سب کو ان کے جائز حقوق دینے پڑے گے۔ ہمیں ان کے آنسو پوچھنے ہوں گے لیکن اگر ہم نے اس سانحہ سے بھی کچھ نہ سیکھا جو کہ ہماری روایت پے تو پھر ہم ایسے سینکڑوں شاری بلوچ پیدا کرتے رہیں گے۔

ریاست کے لئے شاعر رحمان فارس کے یہ اشعار۔
زیتون کی جو شاخ تھی، تلوار کیوں بنی
خود زندگی اجل کی، مددگار کیوں بنی
چپ چاپ سوچیے گا کبھی بیٹھ کر جناب
عورت جو ایک ماں بھی تھی، بمبار کیوں بنی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments