اوکاڑہ میں غیرت کے نام پر بھائی کے ہاتھوں بہن کا مبینہ قتل: ’قتل کی وجہ مقتولہ کو ماڈلنگ سے باز رکھنا بنی‘

شمائلہ خان - صحافی، انڈین لینگوئجز


قتل و غیرت
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان فیشن ماڈل سدرہ خالد کو اُن کے چھوٹے بھائی حمزہ خالد نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔

رینالہ خورد سٹی کے ایس ایچ او انسپیکٹر جاوید خان کے مطابق ’سدرہ خالد کو ماڈلنگ کا شوق تھا اور وہ فیصل آباد میں ماڈلنگ کیا کرتی تھیں۔ رمضان کے مہینے میں واپس اپنے گھر اوکاڑہ آئیں تھیں اور عید الفطر کے بعد واپس کام پر جانے لگیں تو گھر والوں نے اعتراض کیا۔‘

قتل کے محرکات پر بات کرتے ہوئے انسپکٹر جاوید نے بتایا کہ اُن پر گھر والوں کی طرف سے ماڈلنگ چھوڑنے کے لیے دباؤ تھا اور ‘قتل کی وجہ مقتولہ کو ماڈلنگ سے باز رکھنا بنی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اِس قتل کی ایف آئی آر سدرہ خالد کی والدہ کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے۔‘

واضح رہے کہ 22 سالہ سدرہ خالد نے بی اے تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی، ان کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ پولیس کے مطابق اِن چار بہنوں کے واحد بھائی حمزہ خالد کی عمر 20 برس ہے۔

انسپیکٹر جاوید خان کے مطابق ’سدرہ کے گھر والوں نے اُن کے ماڈلنگ کرنے پر اعتراض کے ساتھ اُنھیں گھر میں ہی رہنے کی تلقین کی لیکن وہ بضد ہو گئیں اور دونوں بہن بھائیوں (سدرہ اور حمزہ) میں تلخ کلامی ہوئی۔’

پولیس کے مطابق ‘اِس وقت ان کے والد بھی گھر میں ہی موجود تھے، انھوں نے بھی سدرہ کو روکنے کی کوشش کی، جب وہ باز نہ آئی تو اُن کے بھائی نے اپنے باپ کے پستول سے اُس پر فائر کردیا جو اُسے بائیں آنکھ کے اوپر لگا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔‘

پولیس نے اطلاع ملنے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے نعش کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور مقدمہ درج کرکے ملزم کو آلہ قتل ساتھ گرفتار کر لیا، جو اِس وقت حوالات میں ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس قتل کے پیچھے دیگر افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں مزید تفتیش کر رہی ہے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کی تعداد

ہیومن رائٹس واچ کی سال 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔

البتہ پاکستان میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے 478 کیسز رجسٹر ہوئے۔ جبکہ

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اداروں کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اکثر ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے۔

یہ بھی پڑھیے

’غیرت‘ کے نام پر قتل اور میڈیا

’شادی کے بعد پہلی مرتبہ میری بیٹی لاش کی صورت میں گھر آئی‘

ایران میں چودہ سالہ لڑکی کا ’غیرت کے نام پر قتل‘، ملک میں غم و غصہ

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں باقاعدہ اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں نے 2021 میں بجا طور پر پاکستان میں ‘فیمیسائیڈ ایمرجنسی‘ لگانے کی بات کی۔‘

قندیل بلوچ کا قتل اور پاکستان میں جاری قومی بحث

غیرت کے نام پر قتل بلحاظِ صوبہ

غیرت کے نام پر خواتین کے بڑھتے ہوئے قتل کے واقعات ایک قومی بحث کا موضوع بنے ہوئِے ہیں۔ اِن واقعات میں عموماً خواتین کے قریبی مرد رشتہ دار جیسے کہ شوہر، والد، بیٹے، بھائی، کزنز یا چچا اور تایا وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔

یہ خواتین خاندان کی مرضی کے بغیر شادی کرنے سے لے موبائل فون استعمال کرنے اور سوشل میڈیا پر ایک تصویر لگانے تک جیسی خطاؤں کے جُرم میں اپنے مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں’غیرت کے نام پر’ قتل ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بھی آج بھی شوبز اور ماڈلنگ کو لڑکیوں کے لیے معیوب پیشہ سمجھا جاتا ہے۔

یوں تو ہر سال پاکستان میں سینکڑوں خواتین غیرت کے نام پر بھینٹ چڑھ جاتی ہیں لیکن سدرہ خالد کے قتل سے ملتا جلتا کیس جولائی 2016 میں پیش آیا تھا جب ماڈل قندیل بلوچ کو اُن کے بھائی وسیم خان نے غیرت کے نام پر اُن کا گلا دبا کر قتل کیا تھا۔

قندیل بلوچ ایک مقبول سوشل میڈیا شخصیت تھیں۔

https://twitter.com/Yousafzais_/status/1522519842670235648?s=20&t=tzEDy3fxKcRceexQ1NiYQg

قندیل بلوچ کے قتل کے بعد ایک تاریخی قانون بِل منظور کیا گیا جس کے تحت مقتول کے خاندان کی معافی کے بعد بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے والا شخص قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا۔

واضح رہے کہ دیت اور قصاص کے اسلامی قوانین متصادم ہونے کی وجہ سے ملک کے بااثر مذہبی حلقوں کی جانب سے اس قانون کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔

البتہ قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میں مرکزی ملزم اور مقتولہ کے بھائی محمد وسیم کی عمر قید کی سزا کو ابھی تین سال ہی ہوئے تھے کہ فریقین میں راضی نامہ اور گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے پر لاہور ہائی کورٹ نے رواں سال فروری میں وسیم کی کی سزا ختم کرتے ہوئے انھیں بری کر دیا ہے۔

اس فیصلے پر بھی پاکستان کے سرگرم کارکنوں اور قندیل بلوچ کے لیے مہم چلانے والے افراد کی طرف سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments