چوپڑیاں اور دو ، دو


عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا موقف تبدیل کر رہے ہیں۔ پہلے ان کی توپوں کا رخ شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی طرف تھا۔ پھر اچانک امریکہ کی طرف پستول تان دی۔ پھر رمضان المبارک میں جیسے ہی ثاقب نثار سے ملاقات ہوئی عدلیہ پر کچھ حد تک حملے کم کر دیے۔ پھر اپنے خلاف سازش کا ذمہ دار نواز شریف کو ٹھہرا دیا۔ آج کل عمران خان کی توپوں کا رخ فوج کی طرف ہے۔ کبھی وہ براہ راست فوج پر تنقید کر رہے ہیں اور کبھی بلاواسطہ تنقید کر رہے ہیں۔

10 اپریل سے لے کر عمران خان کے میانوالی جلسے کے دن تک جس دن عمران خان نے اپنی تقریر، پریس کانفرنس یا ٹویٹ میں فوج کے متعلق کوئی بات کی پھر ان کا سوشل میڈیا آرمی چیف جنرل باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور جنرل ساحر شمشاد کو اپنے ہدف پر رکھ لیتا ہے۔ پھر 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر عمران خان کا میڈیا سیل اس مہم کو لیڈ کرتا ہے۔ پھر جیسے ہی عمران خان اپنی توپوں کا رخ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز یا عدلیہ کی طرف کرتے ہیں تو فوراً عمران خان کا میڈیا سیل حرکت میں آتا ہے اور ان کی ایسی تیسی پھیرنا شروع کر دیتا ہے۔

ابھی کل ہی ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا مجھے گزشتہ سال ہی پتہ چل گیا تھا کہ نون لیگ میرے خلاف سازش کر رہی ہے۔ اگر سازش نون لیگ نے کی ہے تو پھر امریکہ، پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ کو سازش کا ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا نون لیگ اتنی طاقتور جماعت ہے جو امریکہ اور پاکستانی فوج سمیت تمام اداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئی؟ عمران خان کا ہر جھوٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ بے نقاب ہو رہا ہے۔

عمران خان کے اردگرد چند ایسے نمونے موجود ہیں جو اینٹی فوج، اینٹی آئی ایس آئی اور اینٹی عدلیہ مائنڈ سیٹ کے ہیں۔ ان نمونوں کا خیال ہے وہ عمران خان کے منہ سے ان اداروں کے خلاف بیانات دلوا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان کو دوبارہ اقتدار دلوایا جائے گا۔ یہ ان کی خام خیالی ہے عمران خان یہ بات اپنے ذہن میں اچھی سے نوٹ کر لیں اب وہ وقت گئے جب ماں دو، دو چوپڑیاں روٹیاں کھلاتی تھی۔ پاکستان فوج اور آئی ایس آئی دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت کا ذریعہ ہے۔

ان دو اداروں کی وجہ سے پاکستان کا دنیا میں بھرم ہے۔ کیا عمران خان پاکستان کو عراق، شام، لیبیا یا صومالیہ بنانا چاہتے ہیں؟ جب تک عمران خان وزیراعظم تھے جنرل باجوہ نے ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ تعاون کیا جو ان کا حلف اور آئین پاکستان کہتا ہے۔ جنرل باجوہ تب بہت اچھے تھے جب عمران خان کو سعودی عرب اور یو اے ای سے قرضے لے کر دے رہے تھے۔ آج عمران خان وزیراعظم نہیں رہے تو ان کو جنرل باجوہ برے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔

جنرل بابر افتخار نے گزشتہ دنوں اپنی پریس کانفرنس میں واضح کہا کہ اب پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا۔ جمہوریت عوام کا سرچشمہ ہے۔ فوج کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ فوج آئین پاکستان کے تابع ہے اور حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے۔ شاید یہی الفاظ عمران خان کو ہضم نہیں ہو رہے۔ عمران خان کا اداروں کے مخالف بیانیہ بری طرح پٹ چکا ہے۔ قوم نے بھی عمران خان کا یہ بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ فوج اور قوم لازم ملزوم ہے قوم فوج کی طاقت ہے اور فوج نے قوم کی مدد سے ہی ملک بھر کے نو گو ایریا تک عوام کی رسائی ممکن بنائی ہے۔

ابھی چند سال قبل کوئی پاکستانی سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن آج سوات سیاحوں کی پہلی ترجیحی بن چکا ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ افواج پاکستان اور ہمارے شیر دل شہداء کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے علاقہ غیر کو بھی امن کا گہوارہ بنایا ہے۔ لہذا عمران خان سیاستدانوں کی طرح سیاست کریں ورنہ ریٹائرڈ منٹ کا اعلان کر کے گھر چلے جائیں۔

شیخ رشید جیسے نمونے اب عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم نہیں بنا سکتے بلکہ ایسے لوگ ذاتی مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر ادارے خود کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو عمران خان بار بار ان کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ سیاستدان، فوج اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کریں اور ارض پاک کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے سب مل کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments