کے سرا سرا ( جو ہو گا سو ہو گا )


 

کے سرا سرا Que Sera Sera ”یعنی جو ہو گا سو ہو گا“ ڈورس ڈے کا وہ گانا ہے جس نے 1950 کے عشرے میں کروڑوں لوگوں کے دل جیتے اور اب بھی موسیقی پسند کرنے والوں میں یہ گیت خاصا مقبول ہے۔

اسے الفرڈ ہچ کاک نے اپنی شاہ کار فلم ”دی مین ہو نیو ٹو مچ“ (THE MAN WHO KNEW TOO MUCH) میں شامل کیا اور جسے اداکارہ اور گلو کارہ ڈورس ڈے نے پیش کیا۔

ڈورس ڈے 2019 میں ستانوے برس کی عمر میں کیلی فورنیا میں انتقال کر گئیں۔ ڈورس ڈے کی خوب صورتی اور دل موہ لینے والی آواز کے علاوہ نغمگی یا میلوڈی نے اسے چار چاند لگائے اور پھر اس کے بول اور معنی نے راقم کو اس کے سحر میں مبتلا رکھا ہے۔

تین بیٹیوں کا باپ ہونے کی بدولت میں ان خواتین کی زندگی اور جدوجہد میں خاص دل چسپی رکھتا ہوں جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود اس دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ یہاں کامیابی کا مطلب شہرت یا دولت کمانا نہیں بل کہ یہ ہے کہ کس طرح کس خاتون نے حادثوں، ناکامیوں اور دھوکے فریب کا سامنا کرتے ہوئے بھی خود کو سماج میں نمایاں مقام دلایا اور دوسروں سے بہتر اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ڈورس ڈے ایسی ہی ایک عورت تھی جس کا جنون زخموں سے چکنا چور بھی ہوا اور وہ نا انصافیوں کا شکار بھی ہوئی لیکن ہر بار اس نے غیر معمولی ہمت اور جرات سے کام لیا اور کہا کے سرا سرا یعنی اب چاہے جو ہو۔

جب بھی ڈورس ڈے نے خود کو تباہی کے دہانے پر پایا وہیں انہوں نے عزم و حوصلے سے کام لے کر خود کو صدمے سے نکالا اور کہا جو ہو گا سو ہو گا، کے سرا سرا۔

اس طرح انہوں نے رکنے کے بجائے اپنا سفر جاری رکھا اور رکاوٹیں عبور کر کے نئی بلندیاں چھوتی گئیں۔

اپنی عمر کے اسی اور نوے سال پورے ہونے پر بھی ڈورس ڈے نے جدوجہد جاری رکھی اور جانوروں کے حقوق کے لیے قابل قدر کام کرتی رہیں۔ جانوروں اور انسانوں سے محبت ان کا مقصد حیات رہا۔ وہ خوشیاں بکھیرنا جانتی تھیں اور دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی دیکھ کر انہیں دلی خوشی ہوتی تھی۔

اپنی آخری عمر میں بھی ان کے پاس کئی پالتو جانور تھے اس لیے وہ کبھی تنہائی یا بوریت کا شکار نہیں ہوئیں۔ انہوں نے تین شادیاں کیں جو زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوئیں۔ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اپنے ایک شوہر اور بیٹے کی تدفین بھی کرنا پڑی۔

ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان سے وہ لوگ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو ایک یا دو ناکامیوں کے بعد دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔

ڈورس ڈے کی پرورش تنہا ان کی ماں نے کی جو خود مالی مشکلات کا شکار تھیں۔ ڈورس کو شروع سے ہی رقص کا شوق تھا اور اسکول کے دنوں میں انہیں ایک مقامی رقص کے مقابلے میں پانچ سو ڈالر انعام میں ملے تھے۔

انہیں اپنا مستقبل ہالی ووڈ میں نظر آیا جہاں منتقل ہونے سے صرف ایک رات قبل ان کی کار ریل سے حادثے میں تباہ ہو گئی اور وہ خود شدید زخمی ہوئیں۔

اس حادثے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور کئی جگہ فریکچر آئے جس سے ان کے رقاصہ بننے کے خواب ٹوٹ گئے۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ہار مان لیتا لیکن انہوں نے کہا کے سرا سرا یعنی اب چاہے جو ہو انہیں اس صدمے کو پیچھے چھوڑنا ہو گا۔

ان کا نیا مشغلہ گلوکاری تھا جس کے لیے طویل ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کے لیے سبق لینا شروع کیے اور مسلسل ریاض کرتی رہیں۔ تربیت سے ان کی آواز بہتر سے بہترین ہوتی گئی۔ وہ ایک تراش شدہ ہیرے سے نکل کر چمکتا دمکتا الماس بن گئیں۔ انہوں نے بار میں گایا اور ساحلوں پر اپنی گلوکاری دکھائی۔ تعلیمی اداروں میں نغمے سنائے اور تفریحی مقامات پر اپنی آواز کا جادو جگایا۔ پھر گھومتا پھرتا موسیقی کا بینڈ اپنا لیا۔

انہیں ایک موسیقار ساتھی سے محبت ہو گئی اور اکیس سال کی عمر میں وہ شادی شدہ ہو گئیں تو معلوم ہوا کہ ان کا۔ شوہر تشدد پر مائل رہتا ہے جو انہیں مارنے پیٹنے لگا۔ اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ شادی کے دو سال بعد ہی انہیں طلاق لینا پڑی۔

چوبیس سال کی عمر میں انہوں نے دوسری شادی کی مگر یہ تجربہ بھی ناخوش گوار رہا ایک سال کے بعد ہی راستے جدا ہو گئے۔ کوئی عام سی عورت پچیس سال کی عمر میں دو طلاقوں کے بعد ہمت ہار دیتی مگر ڈورس ڈے نے اپنے بچے کے ساتھ بھرپور زندگی کا سفر جاری رکھا۔ انہوں نے پھر کہا کے سرا سرا یعنی اب جو ہو سو ہو۔

اپنی محنت سے انہوں نے گلوکاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ ہالی ووڈ تک بات پہنچی۔ انہیں ہالی ووڈ معاہدے کی پیش کش آئی جو انہوں نے قبول کی اور 1948 سے 1951 تک بے پناہ محنت کرتے ہوئے کوئی درجن بھر فلموں میں اداکاری اور گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی دل کش شخصیت سے لوگ متاثر ہوتے گئے اور تیس سال کی عمر تک وہ ایک معروف فلمی ستارے کے روپ میں سامنے آ چکی تھیں۔

اب ان کی زندگی میں تیسرا مرد داخل ہوا۔ مارٹن میلچر نامی فلم ساز نے ان سے محبت کا ڈھونگ رچایا اور ان کے اکلوتے بیٹے ٹونی کو اپنانے کی حامی بھری 1951 میں ان کی شادی ہو گئی جب وہ تیس سال کی ہونے والی تھیں۔

1953 میں ان کی فلم ”کلے میٹی جین ( CALAMITY JANE ) بڑی کامیاب رہی جس میں انہوں نے ایک بہادر عورت کا کردار بخوبی نبھایا۔ جب میں اپنی بچیوں کو یہ فلمیں دکھاتا تھا تو وہ بہت خوش ہوتی تھیں اور جین ان کی ہیرو بن گئی تھی۔ یہ ایک ویسٹرن فلم تھی جس میں جین یعنی ڈورس ڈے پستول کی دھنی ہیں خوب اپنے دشمنوں اور مجرموں کا صفایا کرتی ہیں۔

1955 میں آنے والی فلم LOVE ME OR LEAVE ME تھی جس میں انہوں نے جیمز کیگنی کے مقابل کردار نبھایا جو اس وقت ایک سینئر سپر اسٹار تھے اور کوئی بیس سال سے ہالی ووڈ کی فلمی دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ پھر ان کی غالباً سب سے شاہ کار فلم 1956 میں الفرڈ ہچ کاک نے بنائی۔ ”دی مین ہو نیو ٹو مچ“
( THE MAN ڈبلیو ایچ او KNEW TOO MUCH ) میں جمیز اسٹورٹ ان کے شوہر بنے اور اس فلم میں ڈورس ڈے نے اپنا سب سے مشہور گانا ”QUE SERA SERA“ گایا۔ اس فلم میں ان کا ایک نغمہ اور تھا ”we ’ll Love Again“ ۔ کے سرا سرا کو بہترین اصل گیت کا آسکر انعام ملا۔ یہ فلم اور اس کے گانے اتنے مسحور کن ہیں کہ شائقین انہیں بار بار دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس فلم میں ان کے بیٹے نے بھی اداکاری کی تھی۔ یوٹیوب پر یہ نغمہ اب کسی بھی وقت دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ فلم ڈورس ڈے کی دسویں فلم تھی جو باکس آفس پر ٹاپ ٹین میں شامل رہی۔

اب جب کہ انہیں اپنی زندگی پرسکون اور خوشیوں سے بھرپور لگ رہی تھی ان کے بھائی وفات پا گئے اور ان کے اس دباؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے تیسرے شوہر نے ان کے تمام مالی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور ایسا اجازت نامہ بھی بنا لیا جس کی رو سے وہ ڈورس ڈے کی جانب سے معاہدے بھی کر سکتا تھا۔ 1969 میں مارٹن میلچر نے اس وقت کی کام یاب ترین فلموں میں شمار ہونے والی فلم ”PILLOW TALK“ بنائی جس میں ڈورس ڈے اور راک ہڈسن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اسی رومانوی جوڑے نے دیگر مزاحیہ اور رومانوی فلموں میں بھی ساتھ کام کیے جن میں لور کم بیک ( LOVER COME BACK ) اور سینڈ می نو فلاورز ( SEND ME NO FLOWERS ) شامل تھیں۔

1963 میں ان کی ایک اور تفریحی اور مزاحیہ فلم MOVE OVER DARLING ”موو اور ڈارلنگ“ پردے پر آئی ایک بیوی کسی جزیرے میں پھنس جاتی ہے اور پانچ سال بعد جب اسے بچا کر واپس لایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسی دن اس کے خاوند کی نئی شادی ہو رہی ہے۔ اس میں کچھ بہت ہنسانے والے واقعات ہیں۔

اس کامیابی کے سفر کے دوران میں انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا شوہر ان کی دولت پر خوب ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ میلچر نے ڈورس ڈے کی اٹھارہ فلمیں بنائیں جو 1956 سے 1968 کے دوران عوام کو سینما گھروں میں بھاتی رہیں۔ کئی فلموں کو سائن کرتے ہوئے اس نے ڈورس سے پوچھا تک نہیں کیوں کہ وہ اپنے خاوند پر پورا بھروسا کرتی تھی۔ جب 1968 میں میلچر کی موت واقع ہوئی تو پتا چلا کہ ان کی ساری دولت غائب ہے اور دراصل ان پر بہت قرض چڑھے ہوئے ہیں۔

ڈورس کی طرف سے اجازت نامے یا پاور آف اٹارنی کو استعمال کرتے ہوئے میلچر نے ڈورس ڈے کو اگلے پانچ سال کے لیے ٹی وی پروگراموں میں بھی منسلک کر دیا تھا اس کا نام ”ڈورس ڈے شو“ تھا اور وہ اب اس میں کام کرنے پر مجبور تھیں کیوں کہ ان کا مرنے والا شوہر پہلے ہی بیعانہ وصول کر کے ہڑپ کر چکا تھا۔

پھر ڈورس کو یہ معلوم ہوا کہ ان بارہ سال میں میلچر دیگر خواتین کے بھی تعلقات میں تھا۔ اب ایک بار پھر وہ تنہا تھیں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں۔

پھر انہوں نے خود کو مجتمع کیا اور پانچ سال بڑی کامیابی سے اپنا شو چلایا گو کہ انہیں اب معاوضہ بھی تھوڑا بہت ہی مل رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنے شوہر کے پارٹنر کے خلاف عدالت میں گئیں اور طویل مقدمے بازی کے بعد تقریباً سوا دو کروڑ ڈالر حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔

اپنی زندگی کے آخری چالیس سال وہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی رہیں اور شاذونادر ہی ٹی وی پر آتیں۔ 2004 میں انہیں ایک اور سانحے سے گزرنا پڑا جب ان کا اکلوتا بیٹا ٹیرس باسٹھ سال کی عمر میں مر گیا۔

اگر آپ ڈورس ڈے کا آخری انٹرویو ٹی وی پر دیکھیں تو حیرت کریں گے کہ کس طرح اس ضعیف خاتون نے خود کو سنبھالا ہوا ہے اور نوے سال کی عمر کے بعد بھی خوش و خرم نظر آتی ہیں۔

بلاشبہ ڈورس ڈے ایک مثالی خاتون تھیں جو تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے مشعل راہ بنیں۔ پدر سری معاشروں میں عورتوں کو کام یابی کے لیے مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کسی مایوسی کا شکار ہیں تو ڈورس ڈے کی کم از کم چار فلمیں ضرور دیکھیں۔ کلے میٹی جین، دی مین ہو نیو ٹو مچ، پلو ٹاک اور موو اور ڈارلنگ۔

آپ ان کی زندگی کے بارے میں ان کی آپ بیتی بھی پڑھ سکتے ہیں اور ان کے انٹرویوز یوٹیوب پر بھی دیکھ سکتے ہیں یا صرف کے سرا سرا نغمہ ہی دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments