مختصر افسانہ: کھوج


ہوٹل کا شاندار بال روم ہلکے رنگ کی روشنی سے جھلملا رہا تھا، دھیمے سروں میں گونجتی موسیقی کی مدھر جھنکار پر بال روم میں موجود جوڑے محو رقص تھے، حقیقت یہ تھی کہ گلوکار کی بھاری و خوابیدہ آواز رقصاں جوڑوں کے جذبات جگا رہی تھی۔

” آئی ایم یور مین“

گلوکار کی آواز گونجی تو نادر نے گنگناتے ہوئے آرزو کی آنکھوں میں جھانکا، وہ کھل کر ہنسی، اور دھیرے سے اس کے گلے لگ گئی۔

کیا میں اس کو اقرار سمجھوں، نادر نے سرگوشی کی۔
آرزو نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،
آج میں نے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا ہے، نادر کو حیرت ہوئی،

لیکن اس نے حیرت پر قابو پا کر کہا، تم نے ایسا کیوں کیا ہے، آرزو مسکرا کر گویا ہوئی، ہم اکثر اسی طرح لنچ یا ڈنر پر ملتے ہیں، دل چاہا کہ آج کچھ دیر تنہائی میں بھی وقت گزاریں، جہاں صرف میں اور تم ہو۔ نادر نے بھی مسکرا کر کہا اچھا ٹھیک ہے۔

، نادر کی طبعیت میں بچپن سے ہی بہت تجسس تھا

وہ اپنے سارے کھلونے چھری یا چاقو سے کھولنے اور دوبارہ بنانے کی کوشش کرتا۔ والدین تنبیہ کرتے تو کہتا، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیسے بنا، نوجوانی میں بھی یہی شوق برقرار رہا، کالج میں اس کے شوق کو استاد نے نئی راہ دکھائی، اور کہا کہ مکینکس پڑھو اور مکینیکل انجنیئر بن جاؤ، نادر نے بی ای کیا۔

پھر آٹو مکینکس پڑھی، نمایاں کامیابی حاصل کی۔

نادر کو ملک کی ایک بڑی گاڑیاں بنانے کی کمپنی نے ملازمت کرنے کی دعوت دی، نادر بہت خوش ہوا، اس کے نے بخوشی یہ ملازمت قبول کی۔ اس کے والدین بھی خوشی سے پھولے نہ سمائے۔

نادر کمپنی میں ملازم ہو گیا، اس نے کمپنی کی ٹریڈ مارک گاڑیوں کے نئے ڈیزائن بنائے، گاڑیوں کے انجنوں کو مزید طاقتور بنانے کی تکنیک پر کام کیا، آرام دہ بناوٹ پر بہت محنت کی، پورے ملک میں اس کا نام روشن ہو گیا، اس دوران نادر کی فطرت میں مزید تجسس اور کھوج کا عنصر بھی پروان چڑھتا گیا، اور وہ انسانوں کو بھی کھوجنے لگا، خاص طور پر عورتیں،

پیشہ ورانہ زندگی میں جب بھی وہ کسی خاتون سے ملتا، اس سے دوستی ضرور کرتا، اگر خاتون بے تکلف طبعیت کی ہوتی تو اس کی طرف مائل ہو جاتی لیکن اگر تکلف والی بھی ہوتی تو وہ اس کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا، کئی سال گزر گئے، نادر کے والدین نے اس کو کہا

نادر بیٹا شادی کر لو، لیکن نادر کو یہ سوچ کر ہی الجھن ہوتی کہ ایک ہی عورت کے ساتھ زندگی کیسے بسر ہو گی، وہ اکتا جائے گا

دن گزرتے رہے۔ نادر بیالیس سال کا ہو گیا۔

کمپنی میں نئی بھرتیاں ہوئیں، آرزو نامی انجینئر لڑکی کمپنی میں ملازم ہوئی، اور جلد ہی اپنی ذہانت سے کمپنی میں نمایاں مقام بنا لیا۔

وہ کمپنی کے کنواروں کی آرزو بن گئی،
شادی شدہ اسے حسرت سے دیکھتے، نادر کا براہ راست آرزو سے واسطہ نہیں ہوتا تھا۔

ایک کمپنی ڈنر میں نادر اور آرزو کی تفصیلی ملاقات ہوئی، نادر آرزو کی ذہانت با اعتماد انداز اور آبنوسی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوا، آرزو کی چمکتی آنکھیں بھی یہی کہتی محسوس ہوئیں۔

انہوں نے فون نمبرز کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے لگے، چند ماہ گزرنے کے بعد نادر نے فیصلہ کر لیا، کہ وہ آرزو سے ہی شادی کرے گا۔

حالانکہ وہ تقریباً اس کی ہم عمر تھی، لیکن نادر کا دل اس پر ٹھہر گیا۔

آج ڈنر کرنے کے بعد ہوٹل کے بال روم میں محو رقص ہونے سے پہلے نادر نے آرزو سے اظہار محبت کیا تھا اور بتایا تھا کہ آج دوران رقص میرے پسندیدہ گلوکار کے نغمے پیش کیے جائیں گے۔ آرزو صرف مسکراتی رہی تھی اور رقص کرنے کھڑی ہو گئی تھی۔

رقص کا دور ختم ہونے کے کچھ دیر کے بعد وہ ایک خوبصورت کمرے میں موجود تھے۔

کنگ سائز بیڈ پر چھ تکیے موجود تھے، نادر کو کچھ حیرت ہوئی، لیکن وہ خاموش رہا، اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گیا، آرزو بیڈ کی طرف بڑھی اور پانچ تکیے بیڈ سے نیچے قالین پر پھینک دیے نادر چپ رہا، آرزو سینڈل اتار کر اطمینان سے بیڈ پر لیٹ گئی، ۔ ، تھوڑی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہے، آرزو نے ایک لطیف اشارہ کیا،

نادر مسکرایا، اتنی جلدی کیوں جان من، ہم شادی کریں گے، آرزو مسکرائی، وہ بھی کریں گے، لیکن پہلے کچھ باتیں بستر پر بھی کریں گے، آؤ نا ورنہ میں جا رہی ہوں، یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ سے اترنے لگی، نادر تیزی سے صوفے سے اٹھ کر بیڈ پر آ گیا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ آرزو خفا ہو، وہ اس کے قریب بیٹھ گیا، آرزو مسکراتی ہوئی دوبارہ لیٹ گئی اور ادائے دلبرانہ سے اسے دیکھا، نادر اس پر جھک گیا،

جلد ہی وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو گئے، نادر کو ایک طویل عرصے کے بعد گہری نیند آئی۔

صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا آرزو اس کے پہلو میں نہیں تھی، اس نے کمرے میں چہار جانب نظریں دوڑائیں تو اسے آرزو دبیز قالین پر لیٹی ہوئی نظر آئی،

وہ جاگ رہی تھی، اور اس کے اردگرد بہت سی نرم روئی بکھری ہوئی تھی، کمرے کی فضا بھی غبار آلود محسوس ہوئی، نادر کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں، یہ یہ کک کیا ہے وہ ہکلایا، تکیے آرام دہ نہیں ہیں

میں نے ادھیڑ ڈالے، دیکھنا چاہتی تھی، ان میں کیا بھرا ہوا ہے، آرزو اطمینان سے بولی۔
نادر شدید حیرت سے اسے تکتا رہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments