بڑھاپے میں رفاقت کی قیمت


مجھے لگتا ہے کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ورنہ میں بے کار ہو گئی ہوں۔
کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟
کچھ بھی جس سے کارآمد رہوں۔

میرے خیال میں آپ کو اپنے دوست احباب سے ملاقات کرنی چاہیے۔ ان کو ملنا اور بلانا چاہیے۔ یا شاید آپ کی عمر تک آتے آتے ان سے بھی ملنے کا دل نہیں ہوتا۔ کیا ہوتا ہے؟

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ، دیکھو! یہ دوست یار بھی اچھے وقتوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ رشتے غرض سے عبارت ہیں۔ ان کو پالنے کے لئے دولت، کشادگی اور کم از کم صحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی دنیا کا عمومی دستور ہے۔ کسی سے دس روپے لینے کو سو لگانے پڑتے ہیں۔ کسی کی زندگی کا آدھا گھنٹہ چرانے کے لئے دنوں کی توجہ دینی پڑتی ہے۔ خاص طور پر بڑھاپا اور بیماری بڑی ظالم چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے انسانوں کی مصنوعی انسیت کے نقاب اتارتا ہے اور پھر تنہائی کا تحفہ دان کرتا ہے۔

یہ باتیں اس کی ایک ستر سالہ دوست کر رہی تھیں۔ جن سے تجربے کی آنکھ نظر آتی تھی۔ خود اس کی عمر تیس سال ہے۔ وہ دونوں راہ چلتے کیسے قریب آئیں کسی کو معلوم نہیں۔ شاید اس بزرگ خاتون کی خود سے پیش رفت یا اس کا بڑی عمر کے لوگوں سے لگاؤ۔ یہ تعلق کسی بھی غرض سے بے پرواہ ہے۔ شروع کی ملاقاتیں کبھی سیر کے دوران ہوتیں یا کبھی پارک میں۔ مہینوں دونوں ایک دوسرے کے گھر بھی نہیں جا سکیں۔ لیکن یارانہ پروان چڑھتا گیا۔

بعد میں کھلا کہ وہ لمبی چوڑی کشمیرن آنٹی جدی پشتی جاگیر دارنی ہیں۔ ایک دو سال پہلے بیوہ ہوئی تھیں۔ جنہیں اس نے ہمیشہ وہیل چیئر کو پکڑ کے چلتے دیکھا۔ جس کے اوپر ان کی چھوٹی عمر کی کوئی خادمہ بیٹھی ہوتی اور وہ اسے چلا رہی ہوتیں۔ ورنہ وہ اپنے اتنے وزن کے ساتھ دو قدم نہ چل پاتیں۔ جس کی ان کے معالج کی طرف سے سخت تاکید تھی۔ اس لئے یہ حل نکلا جس سے جھولے بھی ملتے رہتے اور چہل قدمی کا شغل بھی ہوتا رہتا۔ اور جہاں پاٰؤں تھکے، دل تنگ ہوا۔ وہیں وہیل چیئر کی بریک لگائی۔ بچی کرسی سے نیچے اور وہ اس پر براجمان۔ سانس درست کی۔ تھوڑی ہمت بندھائی اور پھر سے رخت سفر باندھ کر گھر تک واپسی کی۔

چونکہ بیوگی کا غم ابھی نیا تھا تو ابتدائی واقفیت کے دنوں میں بہت سی باتیں مرحوم شوہر کے ارد گرد گھومتی رہتیں۔ صاحب اولاد تھیں لیکن عدت کے کچھ دنوں نے ہی باور کروا دیا کہ اپنا وزن خود اٹھانا ہے۔ آج کے دور میں وہ ان خوش نصیب والدین میں سے نہیں جن کو اولاد کا سکھ بغیر غرض کے میسر ہو۔ پھر ساری زندگی حکمران رہنے والا معزول ہو کے بھی اپنا آپ پچھلی نشستوں پر برداشت نہیں کر پاتا۔ اس لئے عقل مندی سے الگ ٹھکانہ کر لیا۔

تاکہ سبھی کی وضع داری اور بھرم سلامت رہیں۔ زندگی کے ساتھی کا ساتھ چھوٹنے پر دوسراہٹ اور راجدھانی دونوں ہی ختم ہو گئے تھے۔ اور نہ نظر آنے والے خساروں کا تو شمار ہی نہیں۔ یہ وہ دن تھے جب اولاد کے لیے شکوے بھی زبان پر آ جاتے اور دل بہلانے کو گھر کی در و دیوار ٹی۔ وی کی آواز سے پر ہنگام رہتے۔ عبادات کی پہلے بھی شوقین تھیں، میاں کی وفات کے بعد خلوت میں اسی سے اور جلوے لگانے لگیں۔ جوں جوں بیوگی پرانی ہوتی گئی، تنہائی دوست بنتی گئی اور عبادت رہنما۔ سب گلے اور شکایتیں ہوا میں تحلیل ہوتے گئے اور ٹی۔ وی کا شور معدوم ہوتے ہوتے غائب ہو گیا۔

شروع کے کچھ سال دونوں ہی ایک دوسرے کے ہاں چکر لگا لیتیں۔ پھر ان مہینوں کے درشن میں مزید تعطل آتا گیا جب وہ آنٹی مزید صحت کے مسائل سے دوچار ہوتی گئیں۔ بعد ازاں جب بھی جانا ہوتا۔ وہ جوان دوست ہی ان سے ملنے جاتی۔ لونگ روم میں داخل ہوں تو بائیں طرف کی دیوار کے ساتھ ان کا بیڈ کم صوفہ افقاً لگا ہے۔ جو بستر بھی ہے اور کرسی بھی۔ سارا دن اسی پر براجمان ہیں۔ اور اس کے وسط میں عمودی رخ دو تین چھوٹے بڑے میز پڑے رہتے ہیں۔

جو طرح طرح کی چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جائے نماز، دوائیاں، اخبار جہاں، تسبیح، ان کا پانی کا پیالہ، کھانے کے دو تین جار وغیرہ وغیرہ۔ میز کے دائیں ہاتھ پر دیوار گیر ٹی۔ وی لگا ہوا ہے جس کے نیچے ایک کنسول پڑا ہے۔ اور پھر آگے ایک سنگل صوفہ۔ اور میز کے بائیں طرف بھی صوفوں کی قطار اور اسی طرف سے ان کے بیڈ روم کا دروازہ نکلتا ہے اور دو قدم آگے جائیں تو اوپن کچن شروع ہو جاتا ہے۔ اور جہاں وہ بیٹھتی ہیں وہاں سے ہر سمت نگاہ رہتی ہے۔

سمجھیں ایسی حکمران جس کے ہاتھ میں ہر کام کا ریموٹ ہے جسے وہ بغیر ہلے اپنی جگہ سے کنٹرول کرتی ہیں۔ سب ملنے ملانے والے ادھر بیٹھتے ہیں۔ سب آدھ پکے کھانے وہ وہیں بیٹھے ایک چھوٹے سلنڈر پر پورا کرتی ہیں۔ سب دعوتیں وہیں منائی جاتی ہیں۔ بیٹے، بہوئیں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیوں، پڑپوتوں اور پڑنواسوں سبھی کی بیٹھک اسی جگہ لگتی۔

لکھنے اور بتانے کا مقصد یہ ہے کہ چوتھی نسل کی امین ہیں۔ خود مختار اور خود کار ہیں۔ ابھی تک دینے والوں میں شمار ہوتیں ہیں۔ اولاد کے لئے ابھی تک دیالو اور قیمتی ہاتھی ہیں۔ کھڑے ہو کر جو نہیں کر سکتیں وہ بیٹھ کر کرتی ہیں۔ مدد کے لئے خادم موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی خود کو ناکارہ سمجھتی ہیں۔ بے مصرف خیال کرتی ہیں۔ اکیلے پن کو آباد رکھتی ہیں لیکن پھر بھی ایک نا محسوس کیا جانے والا خلا ہے۔ جو رشتوں سے بھر سکتا ہے۔ ایک ان دیکھی فراغت ہے جو کسی اپنے کے ساتھ سے مصروف ہو سکتی ہے۔ ایک انجانا اکیلے میں کچھ ہو جانے کا خوف ہے جو کسی انسان کی موجودگی سے دور ہو سکتا ہے۔

میں ان کی ہر بات سے متفق ہوں کہ تعلقات انسویسٹمنٹ مانگتے ہیں لیکن خون کے رشتوں میں محبت کا احساس جگانے کو اگر کوئی اپنی جوانی، بھرپور توانائی اور زندگی کے ستر سال لگا دے اور پھر بھی خود کو بے فائدہ کہے۔ تنہا جئے تو ہمیں اپنے معاشرے اور تربیت پر شدید نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جہاں کے بزرگ اپنے تجربے کی بصیرت اگلی نسلوں کو منتقل کر کے اپنے آپ کو کارآمد نہیں سمجھتے، وہاں بڑی تباہیاں منتظر ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments