امی جان (خاکہ)


ماں پر قلم اٹھانے کے لیے بڑا دل و گردہ چاہیے اس لیے اکثر نے اپنی ماں پر خاکے نہیں لکھے۔ حالانکہ ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے ساتھ انسان سارا بچپن، لڑکپن، جوانی اور بعض مرتبہ بڑھاپا بھی گزارتا ہے اور انسان کے پاس لکھنے کو بہت سا مواد ہوتا ہے۔ لیکن شاید خاکے لکھنے کے لیے جو بے باکی اور برجستگی چاہیے وہ ماں جیسے رشتے کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ اس لیے اگر خاکہ لکھا بھی جائے تو اس میں تقدس کا پہلو زیادہ واضح نظر آتا ہے لیکن ایک کوشش بلکہ جرات ہم بھی کر رہے ہیں۔ شاید ہم بھی دوسروں کی طرح ناکام ٹھہریں، پر ہمارا محبت نامہ قبول ہو جائے۔

ہم نے تمام عمر امی جان کو کام کرتے دیکھا ہے۔ ما شاء اللہ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ ان میں ہم سب سے بڑے ہیں۔ ابا جان کو بچوں کا بہت زیادہ شوق تھا۔ اکثر وہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ بچوں کی کرکٹ ٹیم بنائیں گے۔ والدہ ماجدہ ان کی اس بات سے بڑا گھبراتی تھیں اور خاندانی منصوبہ بندی پر سختی سے عمل کرتیں لیکن پھر بھی ہر سال بچے کی آمد ایک معمول تھا۔ آخر تنگ آ کر آپ نے آٹھویں بچے کی پیدائش پر آپریشن کرا لیا تاکہ ’نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری‘ ۔ ہمیں قوی یقین ہے کہ اگر والدہ ماجدہ آپریشن نہ کرواتیں تو والد صاحب ضرور کرکٹ ٹیم اکٹھی کر لیتے۔

امی جان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ہر بچے کی منت بھی کرتیں اور زبردستی بھی۔ ہمارے منجھلے بھائی جن کا تعلیم کی طرف بالکل رجحان نہیں تھا، ان کو بھی آپ نے میٹرک کروا دی۔ حالانکہ وہ ہمیشہ اپنے پرچے صاف صاف دے کر آتے تھے کیونکہ لکھنے سے صفحے میلے ہو جاتے تھے۔

آپ مطالعہ کی شوقین ہیں اور ہم نے ہمیشہ آپ کو خواتین رسائل، ناولز اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا۔ ان کے مطالعے کے شوق کی وجہ سے ہمارے اندر بھی مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور ہم نے عمرو عیار کی کہانیاں اور عمران سیریز پڑھنا شروع کی اور آج بہت سا الٹا سیدھا لکھ رہے ہیں کیونکہ بہت کچھ الٹا سیدھا پڑھا، ’جو آپ نے دیا وہی آپ کو لوٹا رہے ہیں‘ ۔ آپ نے والد صاحب کے سامنے ہمیشہ بچوں کی تعلیم کے حق میں بولا اور تمام بچوں کی تعلیم پر زور دیا۔

ہم نے ان سے اردو بولنا سیکھی حالانکہ ہماری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن والدین نے ہمیں اردو بولنا سکھائی جبکہ ہمارے والدین آپس میں سرائیکی میں بات کرتے تھے اور ہم سے اردو میں کلام کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم گلابی اردو بولنے لگے جس میں سرائیکی کے الفاظ اور لہجہ شامل ہے۔ مثال کے طور پر ہم آج تک اردو کو اڑدو، پردہ کو پڑدہ، الماری کو الماڑی کہتے چلے آ رہے ہیں۔

ہم نے آج تک والدہ ماجدہ کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ جب دیکھا ان کو شفیق اور نرم خو پایا۔ والد صاحب غصہ کے تیز تھے لیکن آپ ان کے سامنے نہیں بولتی تھیں۔ خاص طور پر بچوں کے سامنے آپ نے والد صاحب کو پلٹ کر جواب کبھی نہ دیا اور ہمیں بھی تلقین کی کہ اپنے ابو کی عزت کرو۔

ہم مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے جہاں ایک طرف ہماری دادی اور دو چچا رہتے تھے، درمیان میں ایک وسیع صحن تھا اور صحن کی دوسری طرف ہمارا حصہ تھا جس میں دو کمرے، ایک اسٹور اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانے میں چولہا نیچے لگا ہوتا تھا۔ امی جان پیڑھی پر بیٹھ کر باورچی خانہ میں کام کرتی تھیں۔ شام کو روٹی جب آپ بناتیں تو سارے بچے آپ کے گرد اکٹھے ہو جاتے اور آپ توے سے گرم گرم روٹی اتارتی جاتیں، ہم کھاتے جاتے۔

ہر روز اس بات پر بحث ہوتی کہ کون پہلی روٹی لے گا۔ ہر بچے کی خواہش ہوتی کہ پہلی روٹی اس کو دی جائے لیکن والدہ اپنی مرضی سے روٹی تقسیم کرتیں تاکہ جھگڑا نہ ہو اور ہم بھی وہیں باورچی خانے میں پیڑھی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ مرغی اپنے چوزے پروں میں دے کر ان کو دانہ کھلا رہی ہے۔ ہمیں یاد نہیں کہ ہم کو کبھی کھانا دیر سے ملا ہو یا ہم بھوکے سوئے ہوں۔ جب ہم یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ہماری یونیورسٹی کی بس (روٹ) صبح پونے سات بجے لینے پہنچ جاتا اور اگر آپ لیٹ ہوں تو روٹ چھوٹ جاتا تو یونیورسٹی جانے میں بڑی مشکل ہوتی۔ لیکن اتنی صبح سویرے روٹ آنے کے باوجود آج تک ہم کبھی بھی بھوکے یونیورسٹی نہیں گئے۔ ان کو ہم سے زیادہ ہمارے کھانے کی فکر ہوتی کہ کہیں بچہ بھوکا نہ چلا جائے اور ہم دو سال میں کبھی بھی بھوکے یونیورسٹی نہیں گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پی ٹی وی عروج پر تھا اور ہم پورا خاندان رات آٹھ بجے اکٹھے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے تھے اور اگر غلطی سے اس وقت والد صاحب آ جاتے تو اس بات پر ناراض ہوتے کہ سارے بچے کیوں والدہ کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ اور ہم ابا جی کو دیکھ کر مختلف کونے کھدروں میں چھپ جاتے اور ڈرامہ دیکھنا بھول جاتے لیکن آٹھ بجے والا ڈرامہ ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہوتا اور ہر قسط کا انتظار کیا جاتا اور اس پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی اور آنے والی قسط کی پیشن گوئی بھی کی جاتی کہ اب آگے کیا ہو گا اور اس تمام بحث کے اندر والدہ صاحبہ کی باتوں کو سب پر اولیت حاصل رہتی اور وہ اس گفتگو میں بھرپور حصہ لیتیں۔

ایک عادت جو انہوں نے سکھائی وہ اب تک ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ جب بھی ہم کوئی چیز بازار سے اپنے لیے خرید کر لاتے تھے تو وہ اس میں سے ضرور تھوڑا سا حصہ اپنے لیے رکھ لیتی تھیں۔ بعض مرتبہ ہمیں غصہ بھی آتا تھا کہ ہماری ہر شے میں سے حصہ لے لیتی ہیں۔ اگر ہم غصے کا اظہار کرتے تو وہ سمجھاتیں ”بیٹا! اس طرح تمہیں اپنی شے بانٹنے کی عادت ہو گی جو تمام عمر تمہارے کام آئے گی“ ۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے اپنی شے کیوں بانٹنی ہے، اس کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی سی عادت سے ہم نے کیا کچھ سیکھ لیا۔

انہوں نے کبھی بھی بیٹی اور بیٹے میں فرق نہیں کیا۔ ہمیشہ دونوں کو اپنی آنکھ کا تارا بنا کر رکھا۔ بلکہ اپنے بیٹوں کو سکھایا کہ وہ اپنی بہنوں کا خیال رکھیں اور ان کو پرایا نہ سمجھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باوجود اختلاف رائے کے ہمارے گھر میں ہم تمام بہن بھائی اکٹھے ہو کر چلتے ہیں۔ امید واثق ہے آگے بھی چلتے رہیں گے۔

ہمارے والد صاحب کی وفات صرف تریپن سال کی عمر میں ہو گئی تھی لیکن والدہ صاحبہ نے والد صاحب کی وفات کا غم ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ کبھی ہم نے ان کو روتے، آنسو بہاتے نہیں دیکھا بلکہ اللہ کی رضا سمجھ کر اس کو قبول کیا۔ لیکن والد صاحب کے ایصال ثواب کے لیے ہر سال ہمارے ہاں برسی ضرور منائی جاتی ہے۔ ہم کو ہمیشہ اعتراض ہوتا ہے کہ ہم برسی کیوں مناتے ہیں، کیا ہم والد صاحب کو بھول گئے ہیں۔ لیکن امی جان کہتی ہیں ”بھول نہیں گئے لیکن یاد بھی تو نہیں کرتے، چلو اسی بہانے ہم ان کو یاد کر بیٹھتے ہیں۔“ بات ان کی ٹھیک ہے۔

امی جان کا قد درمیانہ، رنگ صاف، جسم بھاری اور چہرہ ہلکی سی مسکراہٹ لیے ہوئے ہوتا ہے اور لب ہمیشہ ہلتے نظر آتے ہیں۔ شاید وہ ورد کرتی رہتی ہیں، اللہ کو یاد کرتی ہیں۔ شوگر، بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں لیکن بیماری کو کبھی روگ نہیں بنایا، دوائی مستقل استعمال کرتی ہیں، پرہیز بھی کرتی ہیں لیکن ان کو رات کو نیند جلد نہیں آتی۔ حالانکہ اکثر رات کو سونے کی دوائی بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس کا حل انہوں نے موبائل پر یوٹیوب میں نکالا ہے۔ آج کل ”ہم ٹی وی“ دیکھ کر دل کو بہلاتی رہتی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ان کا سایہ ہم پر تا دم قیامت قائم رہے اور ہم ان کی مسکراہٹ کو یوں ہی دیکھتے رہیں اور ان سے دعائیں وصول کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments