خالد سعید: سادھاں دی گولی


(ایک مدھر تحریر جو مدھر ملک نے لکھی ہے۔ یہ ایک مدھر ہستی کی مدھرتا کی حکایت ہے)

آج سے تقریباً اکیس برس پہلے میں نے فرسٹ ائر میں داخلہ لیا تو میرا بڑا بھائی ان دنوں بیک وقت ایم۔ اے اردو اور ایل۔ ایل۔ بی کر رہا تھا۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ شماریات اور ریاضی جیسے واہیات مضامین چھوڑو اور کوئی باذوق مضامین پڑھو۔ ان باذوق مضامین میں ایک مضمون نفسیات بھی طے ہوا۔ انہی دنوں میری پہلی ملاقات خالد سعید سے ایمرسن کالج کی کینٹین پر ہوئی، جہاں خالد سعید بان کی طرح بنا ہوا چمڑے کا براؤن بیلٹ لچک دار کمر پر باندھے ہوئے ایک جھٹکے سے اٹھا اور تبدیلی مضامین کے فارم پر دستخط کرتا چلا گیا۔
پڑھنے کی غرض سے جب میں نے اپنا شہر چھوڑا تھا تو پیچھے فقط ایک گلٹیر کتا چھوڑ آیا تھا۔ اس گلٹیر کی لگڑ دادی اصلی بلٹیر تھی جو لارڈ کرزن کے زمانے میں سیدھی برطانیہ سے خوشاب پہنچی اور یہیں ایک کڑیل جوان بولی کتے سے جفتی کھائی اور اس لذت سنگ پر اینگلو انڈین گلٹیرز کی نسل کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ تاج برطانیہ کی نشانی اور حالیہ مابعد نوآبادیاتی گلٹیر بچہ میرے ملتان جانے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
اب چونکہ میرے والد محترم نے مجھے پہلے ہی چتاونی دے رکھی تھی کہ جانے سے پہلے اس جانور کا بندوبست کر کے جانا تو اس مشکل گھڑی میں مجھے ہمارے مزارعے کی جوان بیٹی کا خیال آیا جس نے پسند کے لڑکے سے شادی نہ ہونے کے سبب کسی اور سے بیاہ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اور دو افغانی نسل کے کتے اور ایک دیسی پستی پال رکھی تھی۔ میں نے سائیکل نکالی، گلٹیر بچہ کیریئر کے ساتھ باندھا اور عازم سفر ہوا۔ گاؤں پہنچا تو اس لڑکی نے میرا اور گلٹیر کا سواگت کیا۔ میں جلدی میں تھا۔ کتا اس کے حوالے کیا اور کہا کہ یوں سمجھو سن 47 کے فسادات شروع ہو گئے ہیں اور میں ہجرت کر کے ملتان جا رہا ہوں۔ لوٹ آیا تو میری امانت مجھے سونپ دینا، نہ آ سکا تو سالم کتا تم رکھ لینا۔ یہ کہہ کر میں نے سائیکل کا پیڈل گھمایا اور واپس شہر کی جانب چل پڑا۔
ادھر ایمرسن کالج ملتان کی نفسیات کی لیب میں جب خالد سعید روسی ماہر عضویات پاولوف کے کتے پر ہونے والے تشریط کے تجربات بیان کرتا تو میری آنکھیں شدت غم سے ڈبڈبا جاتیں۔ خالد سعید کے محبوبانہ اور بے حجابانہ طرز تدریس نے مجھے اتنا دل گرفت کیا کہ میں پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا اور نفسیات میرا پسندیدہ مضمون بن گیا۔ خالد سعید ایک صوفی کی طرح کھو کر پڑھاتا تھا کہ خود ہم وجد میں آ جاتے تھے۔ شام میں پرچیوں پر دنیا جہاں کے اوٹ پٹانگ سوالات لکھ کر ان کے گھر پہنچ جاتے۔ خالد سعید متانت اور سنجیدگی کے ساتھ بیک وقت ہمارے خام سوالات کا قبلہ بھی درست کرتے اور ہمارے سادہ ذہنوں کی آبیاری بھی کرتے جاتے۔ انہیں ملاقاتوں کے درمیان کہیں مجھے خالد سعید سے عشق ہو گیا۔ بارہا حوصلہ باندھا کہ اظہار کر ہی ڈالوں مگر بھابھی سے زیادہ ڈر عامر سہیل سے لگتا تھا۔ عامر سہیل ان دنوں ادبی شباب ملی کا لیڈر تھا اور ملتان آرٹس فورم اور خالد سعید کی کڑی نگہبانی کر رہا تھا۔ اسے ہر دوسرا شخص اردو اکیڈمی مرحوم و مغفور کا سازشی دکھائی پڑتا تھا۔ لہذا میرے اس نوزائیدہ عشق کا اظہار کبھی نہ ہو سکا کہ
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
پھر یہ خالد سعید بھی تو ٹھہرا ہرجائی، سو، سوا، سو تو انہی دنوں اس کے معلوم عاشق تھے۔ کسی خانقاہ کے مرشد کی طرح نہ اسے معاشی دکھ، نہ سیاسی کرب، نہ سماجی تھکن بس انسانوں میں مگن، جو بھی آ رہا ہے پہلو میں جگہ پا رہا ہے۔ جہاں یہ بیٹھ جائے وہیں آستانہ سجا لیتا ہے۔ یہ تہجد گزار کو بھی خوش آمدید کہتا ہے اور گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی بھی اس کے آستانے پر جان کی امان پاتی ہے، بوٹی بھنگ کے رسیا کو بھی کٹیا ملتی ہے اور نابینا حافظ بھی جگہ پاتا ہے۔ اس کے ساتھ طوائف بیٹھ جائے تو شاد کام اور درس نظامی کا فارغ التحصیل بھی راضی۔ اس کے یہاں جو بھی آتا ہے خالد سعید اس جیسا بن بیٹھتا ہے۔ کبھی کوئی گھوڑوں کی نسل اور اقسام پر بات کرے تو یوں شریک گفتگو ہوتا ہے جیسے گھوڑے پال مربعوں کا مالک ساہی وال کا ساہی چودھری ہو۔ موسیقی کا ذکر ہو تو یہ انترے دہرانے لگتا ہے۔ کوئی جیب کترا آ جائے تو اسے بتاتا ہے کہ کیسے انگشت شہادت کے ناخن میں بلیڈ کا ٹکڑا رکھ کر، کاندھے پر اجرک ڈالے، چلتی بس میں جیب تراشتے ہیں۔ ایسے دل پھینک سے بھلا میں کیا عشق کرتا؟
مجھے جنوری کی وہ سرد صبح یاد ہے جب سیکنڈ ائر کے دوران اخبار کے ادبی صفحے پر مجھے خالد سعید کی تصویر نظر آئی۔ یہ شاید اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ تھی۔ کلاس روم سے باہر میں نے بتایا کہ آپ کی نظم ”اک مورکھ ناری ناچتی ہے“ پڑھی ہے تو کندھے اچکاتے ہوئے، لبوں پر ہلکی مسکراہٹ سجائے کہنے لگے، ناچتی کہاں ہے بھائی؟ ناچے تو کیا ہی بات ہے، وہ تو سوچتی ہے۔ (میں غلطی سے لفظ سوچتی کو ناچتی پڑھ گیا تھا)
”تم کچھ لکھتے ہو کیا؟“
”جی سر نظم لکھتا ہوں“
”پھر آیا کرو ناں، ادھر فورم کے اجلاس میں، اتوار سات بجے، ایجوکیشن کالج“
میں اتوار علی الصبح نور حضور کے ویلے ایجوکیشن کالج پہنچ گیا۔ وہاں سوائے چوکیدار کے کوئی نظر نہ آیا۔ اس ادھیڑ عمر چوکیدار نے ترپال کا ایک ٹکڑا اوڑھ رکھا تھا اور اچھا خاصا ہنس مکھ نکلا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا، ”یہاں شہروں میں قل خوانی بھی بارہ بجے دن شروع ہوتی ہے آپ کے دیہات کی طرح فجر کی نماز کے بعد نہیں۔ اور تم اتنی سردی میں صبح صبح شاعروں کو ڈھونڈ رہے ہو، واہ جی واہ۔ یہ راتوں کو جاگنے والے مرغے ہیں۔ رات کے آٹھ ساڑھے آٹھ بجے ملیں گے۔“
شام ہوتے ہی میں نے ایجوکیشن کالج کا رخ کیا۔ سٹاف روم میں پہنچا تو کچھ لوگ نظر آئے۔ ایک کرسی پر خالد سعید پرنسٹن کا سگریٹ عالم نیم مدہوشی میں پھونک رہے تھے۔ میں ہاتھ ملا کر ساتھ رکھی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک ایک کر کے کمرہ لوگوں سے بھرتا چلا گیا۔ اتنے میں ایک مکمل فربہ مگر دلکش خاتون کمرے میں داخل ہوئی جس کے آنچل کا پلو ایک خوبرو نوجوان نے ممکنہ معاشقے اور نسائی عقیدت کی اوٹ میں اٹھا رکھا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خاتون غزل گو شاعرہ آنسہ غزالہ خاکوانی اور خوبرو نوجوان خرم خرام صدیقی ہے۔ عاجز نے بھی یہ منظر حاضرین کے بروزن دیکھا مگر خالد سعید نے اسی مخمور بے نیازی سے ماتھے تک ہاتھ اٹھا کر اس خاتون کو مردانہ وار سلام کیا اور سگریٹ کا ایک طویل کش کھینچا اور دھوئیں کے مرغولوں نے لکھا:
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں
تب ایک گہری سانولی رنگت، طویل کشادہ پیشانی اور گنجے سر والے سیکریٹری نے اجلاس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ صاحب ڈاکٹر علی اطہر تھے جن کے سینے پر عینک لٹک رہی تھی اور انہوں نے اپنی آسیبی گمبھیر آواز میں رپورٹ پڑھنا شروع کی۔ ملتان آرٹس فورم کے اس پہلے اجلاس سے ایلف شفک کے ناول ”دا آرکیٹیکٹس اپرینٹس“ کے دعوت نامے تک اس مرشد کامل خالد سعید کا بھی وہی طریق رہا ہے جو راجستھان کی میرا بائی، استنبول کے مجنوں شیخ اور ٹکسالی دروازے کے شاہ حسین کا تھا۔ کیونکہ یہ آرکیٹیکٹ اپنے ہر اپرینٹس کو یہی بتانا چاہتا ہے ؛

LOVE IS THE HARDEST CRAFT TO MASTER … AND RESENTMENT IS A CAGE, TALENT IS A CAPTURED BIRD.BREAK THE CAGE; BREAK THE CAGE; BREAK THE CAGE…

خالد سعید کبھی اپنے دوستوں کو نہیں بھولتا۔ اس نے جس سے محبت کی اس تعلق کو امر کر دیا۔ آج بھی عرش صدیقی کا خاکہ پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ سگریٹ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اس کی راکھ تک نہیں جھاڑتا بلکہ:
جے کوئی خبر متراں دی لیاوے، ہتھ دے دینی آں چھلے
کہے حسین فقیر نمانڑا، سائیں سنیھڑے گھلے

تصویر بشکریہ: ڈاکٹر علی اطہر شوکت

یہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سرخ چولا پہنے سادھو جو مچ کے گرد گاتا ہے ”سادھاں دی میں گولی ہوساں، گولیاں والے کرم کریساں“ ایک ملامتی صوفی ہے۔ بزرگ فرما گئے ہیں کہ ملامتی وہ ہے جو خیر کو ظاہر نہ کرے اور اپنے شر کو بھی نہ چھپائے۔ ویسے تو اس تفہیم کی زد میں اردو کے کئی سابقہ و حالیہ پروفیسرز بھی آتے ہیں لیکن خالد سعید سراپا اخلاص سے لذت یاب ہے اور پسند نہیں کرتا کہ اس کے احوال و اعمال کی کسی کو خبر ہو کیونکہ یہ بات اخلاص کے منافی ہے۔ خود کو بڑا ادیب اور متقی شمار ہونے سے بچائے رکھتا ہے۔ کسی بات پر غصہ کرتا ہی نہیں۔ اگرچہ اپنی ذات کے دلے بھٹی کو مقید کر رکھا ہے، مگر وہ اسے سونے نہیں دیتا۔ بالائی منزل کے کتب خانے میں اکثر اسے مزاحمت اور وقت کے جملہ فراعنہ سے ٹکرانے پر اکساتا رہتا ہے۔ کبھی کبھار یہ دلے بھٹی کی تحریک پر ”سن بالشتیے سن“ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے مگر اگلے ہی لمحے اسے بڑی چالاکی سے کتب خانے کی کرسی پر باندھ کر گول باغ نکل آتا ہے۔
ایک دن جب خالد سعید تحصیل چوک پر واقع ایک نجی کالج میں فورم کی اجلاس کے لئے موجود تھا تو دلا بھٹی رسہ کھول کر اجلاس پہنچا اور آ کر اس دین دنی کے شاہ نال بیٹھ گیا۔ اور خالد سعید دو سو فیصد جلالی ہو گیا۔ اور اس جلال کا مبشر مہدی، اجلال زیدی اور بندہ ناچیز شکار ہو گئے۔ ہوا یوں کہ ملتان میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک وغیرہ کے قیام اور اشتہارات وغیرہ کا ذکر انہوں نے ہم سے کیا اور اس سلسلے میں کچھ کام بھی ذمہ لگایا۔ ہم تینوں اپنی ازلی کاہلی کے سبب بھول بھال گئے۔ اجلاس ابھی شروع نہ ہوا تھا۔ احمد ندیم تونسوی اور عاجز موجود تھے اور خالد سعید کش پر کش کھینچتے سگریٹ زنی پرما رہے تھے۔ نیر مصطفٰی جو اجلاس کی کارروائی ہمیشہ اس وقت لکھتا جب اجلاس سر پر آن پڑتا۔ وہ کہیں کونے کھدرے میں چھپا کارروائی لکھ رہا تھا کہ اجلاس تاخیر کا شکار ہو گیا۔

نیر دس دس منٹ کے وقفے کے بعد سگریٹ چباتا ہوا، چہرے پر غیر معمولی حد تک سنجیدہ تاثرات سجائے حاضرین میں آ دھمکتا اور یہی کہتا جاتا کہ فلاں صاحب آ جائیں تو بس اجلاس شروع کراتے ہیں۔ خالد سعید ”ہوں“ کہہ کر سگریٹ پر لگ جاتے۔ نیر پھر کہیں غائب ہوجاتا اور کارروائی لکھنے کا ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑ لیتا، مگر لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا کہ اچانک خالد کو ترقی پسند مصنفین والا قضیہ یاد آ گیا، مجھ سے استفسار کیا تو میں حواس باختہ ہو کر بغلیں جھانکنے لگا، مجھے معاف کرتے ہوئے بولے، ”مبشر کہاں ہے؟“ ۔ ابھی میں کچھ جواب دیتا کہ تونسوی نے پھلجھڑی چھوڑی کہ وہ کہاں آتا ہے بھائی اجلاس میں آج کل۔ بس یہ سننا تھا کہ خالد نے مبشر کو فون ملا دیا۔ ابھی مدھم سروں میں گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ حاضرین کے باکرہ کان ”فک آف، فک آف“ کی کھرج پنچم سے گونج اٹھے۔ اپنے غصے اور سنگلاخ شخصیت کے باعث مشہور لالہ تونسوی اکڑوں بیٹھا بیٹھا وہیں کرسی پر ڈھیر ہو گیا اور کنکھیوں سے خالد سعید و متذکرہ موبائل سیٹ کو تکتا رہا۔
تھوڑی دیر مین فون بند ہوا تو کمرے میں موجود تمام اصحاب موسم کی شدت، ملکی حالات اور آم کی قسم انور رٹول وغیرہ پر لایعنی گفتگو کے سرے کمزور دھاگے کی طرح سوئی میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دس منٹ بعد کسی کونے سے سرکتا ہوا ایک وسیع الجثہ شخص ڈھیلے پاجامے اور ٹی شرٹ میں ملبوس برآمد ہوا اور آتے ہی خالد سعید کے گھٹنے پکڑ کر ”استاد محترم، استاد محترم“ کا ورد کرنے لگ گیا۔ لیکن دلا بھٹی کب کا اس دین دنی دے شاہ کی سوزکی ایف۔ ایکس کا تالا توڑ کر یونیورسٹی روڈ پر گاڑی دوڑاتا، اسکریچنگ کر رہا تھا اور اونچی آواز میں گا رہا تھا:
دنیا جیون چار دہاڑے، کون کسے نال رسے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments