کیا ہمارے جسم پر لگنے والے زخموں کا علاج ایک چوہے کے پاس ہے؟


سپائنی ماؤس
مونیکا ساؤسا ایک تجربہ کار سائسندان ہیں لیکن انھیں بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے سامنے لیبارٹری کی میز پر پڑے ہوئے پلاسٹک کے ڈبے میں ایک چوہیا پڑی ہوئی تھی جس کی پچھلی ٹانگیں نیم مردہ ہو چکی تھیں اور وہ گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی بے جان ٹانگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر اِدھر سے اُدھر جا رہی تھی۔

لیکن مونیکا نے دیکھا کہ آج وہی چوہیا یہاں سے وہاں مزے سے چھلانگیں لگا رہی تھی، حالانکہ مونیکا اور ان کی ٹیم نے اسے درد کی دوا کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں دی تھی۔

یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا جس کی ماضی میں کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ چھوٹے چھوٹے چوہوں سے لے کر انسان تک، تمام ممالیا (دودھ پلانے والے جانور) عموماً ریڑھ کی ہڈی یا اعصابی نظام کے زخم سے صحتیاب نہیں ہو پاتے۔ اب لگتا ہے کہ افریقی نسل کے نوکدار بالوں والے یہ چوہے (سپائنی ماؤس) اپنے زخم اندونی طور پر ٹھیک کر لیتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کینیا، صومالیہ، تنزانیہ اور کچھ دیگر افریقی ممالک کے بنجر علاقوں میں پائی جانے والی اس مخلوق کے پاس ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے جو کسی تحفے سے کم نہیں۔ چوہوں کی یہ نسل اپنی جلد، دل، گردے اور ریڑھ کی ہڈی کے نہایت مہلک زخموں پر بھی قابو پا سکتی ہے۔

سنہ 2012 سے پہلے کچھ امریکی سائنسدانوں سمیت کسی بھی سائنسدان کو یہ توقع نہ تھی کہ سپائنی ماؤس نسل کے چوہے اپنی جلد کے بڑے بڑے زخموں کو خود سے ٹھیک کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

چرسی چوہے 540 کلو گرام منشیات ہڑپ کر گئے

کیا کبھی پرانے دل کی جگہ نیا دل بنایا جا سکے گا؟

وھیل کی قے سونے سے قیمتی کیوں؟

وہ مچھلی جس میں انسانی جسم کے زخم بھرنے کی صلاحیت ہے

اسی لیے پرتگال کی یونیورسٹی آف پورٹو سے منسلک اعصابی نظام کی ماہر مونیکا ساؤسا کہتی ہیں کہ ’ہم سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔‘ مونیکا اور ٹیم اس وقت واقعی ششدر رہ گئے جب لیبارٹری میں رکھی ہوئی چوہیا نے حیران کُن طور پر اپنی ریڑھ کی ہڈی کے زخم پر قابو پا لیا۔ فالج زدہ چوہیا چند ہی ہفتوں میں مکمل تندرست ہو چکی تھی۔

اس دریافت کے بعد افریقی چوہوں کی یہ نسل ان غیر ممالیہ جانوروں کی ایک خصوصی فہرست میں شامل ہو گئی جو اپنے جسم کے اہم حصوں کی تخلیقِ نو (ری جینیریشن) کر لیتے ہیں۔ جسم کے حصوں کو دوبارہ تخلیق کرنے کے اس عمل میں جسم کے ضائع ہو جانے والے ٹِشوز (بافتوِں) کی جگہ نئے ٹِشوز بن جاتے ہیں۔

اس صلاحیت سے لیس جانور، مثلاً ایگزولوٹلز (بربحری چھپکلی) ،رینگنے والے چپٹے کیچوے (فلیٹ ورم)، زیبرا مچھلی اور جیلی فِش کی کچھ اقسام اپنے جسم کے بڑے بڑے حصوں کو دوبارہ بنا لیتے ہیں۔ سنہ 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق نوزائیدہ مگر مچھ بھی اپنی ضائع ہونے والی دُم کو بار بار بنا لیتے ہیں۔

لیکن ان تمام جانوروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو جسمانی ساخت کے لحاظ سے انسانوں کے اتنے قریب ہو جتنا افریقی سپائنی چوہے ہوتے ہیں۔

بر بحری چھپکلی

ایگزولوٹلز (بربحری چھپکلی) میکسیکو میں پائی جاتی ہے اور اس جانور میں جسم کے ضائع ہونے والے حصوں کو دوبارہ بنانے کی صلاحیت حیران کن ہے۔

بہت سے محققین کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کے جسم میں کوئی ایسا راز پنہاں ہو سکتا ہے جو طب کی دنیا میں انقلاب لانے میں مدد کر سکتا ہے اور انسانوں کو بڑے بڑے حادثات کے نتیجے میں لگنے والی چوٹوں اور اعصابی امراض کے علاج دریافت کرنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن سائنسدان تسلیم کرتے ہیں کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اور ان جانوروں پر تجربات کرنے کے حوالے سے کئی اخلاقی سوالات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے جس میں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا کسی علاج کی امید پر جانوروں کو تختہ مشق بنانا جائز ہے یا نہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ برسوں کے تجربات کے بعد بھی ہم کوئی ایسی چیز دریافت نہ کر سکیں جس سے انسانی جسم کے ضائع ہو جانے والے بڑے اعضا کو دوبارہ بنا لینے کی صلاحیت حاصل ہو جائے۔

جہاں تک نوکدار بالوں والے افریقی چوہوں میں اپنے جسم کو بحال کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے، تو اس کہانی کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

یہ بات ہے سنہ 2011 کی جب ایشلے سیفرٹ، جو فلوریڈا یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے، فلوریڈا میں ہی مقیم حیوانات کے ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر کے گھر کے باغ میں کھڑے تھے۔ ڈاکٹر کا نام ایلیٹ جیکبسن تھا جھنوں نے اپنے باغ میں کئی سانپ پال رکھے تھے۔

سیفرٹ کو سانپوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن کسی نے انھیں بتا دیا تھا کہ جیکبسن نے اپنے ہاں افرقی سپائنی ماؤس نسل کے کچھ چوہے بھی پال رکھے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں اس نسل کے چوہے فروخت ہوتے رہے ہیں، لیکن انھیں خریدنا اتنا آسان بھی نہیں۔ جیبکسن نے کسی طرح سنہ 1990 کی دہائی میں کچھ سپائنی ماؤس ایک عجائب گھر سے حاصل کر لیے تھے اور بعد میں اپنے ہاں ان کی افزائش نسل کرتے رہے تھے۔

جب سیفرٹ ان کے ہاں گئے، تو اس وقت جیکبسن کے پاس 40 چوہے تھے اور انھوں نے تمام چوہے سیفرٹ کو دے دیے۔ تب سے سیفرٹ ان چوہوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

اگرچہ ان دنوں سیفرٹ کے ذہن پر کوئی اور دھن سوار تھی، لیکن انھیں اپنے ایک دوست سے باتوں باتوں میں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ افریقی اسپائنی ماؤس میں حیران کن صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ جلد ہیں سائنسی حلقوں میں یہ بات پھیل گئی کہ افریقہ میں کچھ ایسے چوہے پائے جاتے ہیں جو اچانک اپنی پوری کھال جھاڑ دیتے ہیں۔

سیفرٹ نے سوچنا شروع کر دیا کہ چوہوں کی جو نسل یوں اچانک اپنی پوری کھال بدل سکتی ہے، ہو سکتا ہے اس میں زخم مندمل کرنے کی کوئی حیران کن صلاحیت بھی موجود ہو۔

پہلی مرتبہ اس قسم کے چوہوں سے سیفرٹ کا ٹکراؤ کینیا میں ہوا، جہاں وہ کچھ لوگوں کو ایک تحقیقی سفر پر لے کر گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس سے پہلے کبھی سپائنی ماؤس نسل کے چوہوں کو چھو کر نہیں دیکھا تھا، لیکن کینیا میں انھیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اگر آپ نوکدار بالوں والے ان چوہوں کو ذرا زور سے پکڑیں تو ان کی جلد آپ ہاتھ میں آ جاتی ہے۔

سیفرٹ نے تجربے کے طور پر ان چوہوں کے کانوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کر کے دیکھا تو انھیں ایک حیران کن بات معلوم ہوئی۔ چوہوں کی جلد میں وہ سوراخ اس قدر تیزی سے بھر گئے کہ سیفرٹ حیران رہ گئے۔ ان کے جلد میں سوراخ نہ صرف تیزی سے بھر گئے بلکہ ان کی جلد پر بننے والے نئے ٹِشوز پر بال بھی تھے اور نئے ٹشوز میں ویسی ہی چربی تھی جو جلد کے باقی حصوں میں موجود تھی۔

’میں نے جب خورد بین سے دیکھا تو نئے بالوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔‘

اسی تحقیق کے دوران، سیفرٹ اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ افریقی سپائنی ماؤسں کی جلد غیر معمولی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ جب انھوں نے اس کا مقابلہ گھروں میں پائے جانے والے عام چوہوں سے کیا تو سیفرٹ اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوا کہ سپائنی ماؤس کی جلد کی نسبت عام چوہوں کی جلد 20 گنا زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی اس تحقیق کی تفیصل سنہ 2012 میں شائع کی تھی۔

سپائنی ماؤس کی تخلیق نو کی اس صلاحیت کو دیکھنے کے بعد، سیفرٹ نے اس کا مزید مطالعہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور وہ جلد ہی جیکبسن سے حاصل کیے ہوئے چوہوں پر تحقیق کر کے اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے۔

سیفرٹ کی دریافت کے بعد کے دس برسوں میں دوسرے محققین کی ایک چھوٹی سی تعداد نے افریقی اسپائنی چوہوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اس کی ایک مثال گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک معروف مقالے میں ملتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ چوہے گردوں کی شدید چوٹ سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں اور خود بخود صحتمند ہو جاتے ہیں۔ چوہوں کی دیگر نسلوں میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سپائنی چوہوں نے اپنی جلد دوبارہ بنا لینے کی صلاحیت ارتقاع کے نتیجے میں پیدا کی ہے، تاہم دوسرے شکاری جانوروں سے بچاؤ کے علاوہ اس ارتقاع کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

وجہ کوئی بھی ہو، یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جسمانی لحاظ سے بہت سے ممالیہ جانوروں اور سپائنی ماؤس میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن ایسے جانور بہت کم ہیں جن تخلیقِ نو کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ سیفرٹ نے حال ہی میں ایک تحقیق مکمل کی ہے، جس میں انھوں نے دیکھا کہ برش جیسی جلد والے چوہوں (برش فرڈ ماؤس) میں بھی شاید اعضاء کی تخلیقِ نو (ری جنریشن) کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

سنہ 2012 کے بعد کئی سائنسدانوں نے سیفرٹ کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔

سیفرٹ کہتے ہیں کہ ان سائنسدانوں کی تحقیق بھی ان کے لیے اتنی ہی حیران کن ہے جتنی ان کی اپنی دریافت تھی۔ سیفرٹ کے بقول مونیکا ساؤسا اور ان کی ٹیم کی تحقیق واقعی حیران کن ثابت ہوئی ہے، کیونکہ اس تحقیق میں ٹیم نے دس سپائنی چوہوں کی ریڑھ کی ہڈیوں کو مکمل طور پر توڑ کر دیکھا تھا۔

سوائے تین کے، ان تمام چوہوں نے چند ہی ہفتوں میں اپنی ریڑھ کی ہڈیوں کو مرمت کر لیا اور معمول کے مطابق اچھلنے کودنے لگے۔ ان میں سے کچھ ایسے چوہے بھی تھے جن کی ریڑھ کی ہڈی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، بلکہ کچھ کی ہڈیوں کو دو مرتبہ توڑ کے دیکھا گیا تھا۔

سیفرٹ کہتے ہیں ’میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ چوہوں نے مکمل کٹی ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ جوڑ لیا اور بالکل صحت مند ہو گئے۔‘

یہ بات قابل غور ہے کہ لیبارٹری میں آپریشن کے ذریعے صفائی سے کاٹی ہوئی ہڈی کے مقابلے میں ریڑھ کی ہڈی کے ان زخموں کا بھر جانا زیادہ مشکل ہوتا ہے جو چوہوں یا دیگر جانوروں کو جنگل میں روز مرہ آتے رہتے ہیں اور ان کی ہڈیاں چکنا چور ہو جاتی ہیں۔

سیفرٹ کی طرح مونیکا ماؤسا کو بھی سپائنی ماؤس کی اس صلاحیت کے بارے میں اچانک ہی معلوم ہوا تھا۔ مونیکا کے ایک ساتھی محقق نے انھیں ایک دفعہ بتایا کہ سپائنی ماؤس نسل کے چوہے اپنی جلد اور ہڈیوں کو خود بخود مرمت کر لیتے اور ان کی جگہ نئے ٹِشوز بنا لیتے ہیں۔ اس پر مونیکا نے اپنے کچھ طالبعلموں کو 341 میل دور یونیورسٹی آف الگریوو بھیجا تاکہ وہ وہاں پر موجود چوہوں کا معائنہ کر کے آئیں اور دیکھیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے۔

اپنے میزبانوں کی اجازت سے طالبعلموں نے کچھ چوہوں کی ریڑھ کی ہڈیوں میں جا بجا کچوکے لگا دیے، لیکن جب واپس دیکھنے آئے کہ اب ان چوہوں کا کیا حال ہے تو وہ بالکل پہچان نہیں پائے کہ کن چوہوں کو زخم لگائے تھے کیونکہ ان کے جسم پر نئے ٹِشوز آ چکے تھے اور ان کے زخم بالکل مندمل ہو چکے تھے۔

اس مضمون میں جن تجربات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں چوہوں کی ہڈیاں جان بوجھ کر توڑی گئی تھیں، اسی لیے اس قسم کے تجربات کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ آیا ایسا کرنا اخلاقی طور پر درست ہے۔ یاد رہے کہ مونیکا ساؤسا نے جو تجربات کیے ان میں صرف سپائنی نسل کے چوہے صحتیاب ہوئے اور باقی چوہوں کی ریڑھ کی ہڈیاں خودبخود ٹھیک نہیں ہوئیں۔

جب سائنسدان امریکہ یا پرتگال جیسے ممالک میں اس قسم کے تجربات کرتے ہیں تو انھیں ایتھِکس کمیٹی سے منظوری لینا پڑتی ہے جو کہ خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ساؤسا بڑے پرزور انداز میں بتاتی ہیں کہ خود بخود صحتمند نہ ہونے والے چوہوں کو درد کی دوائیں دی گئی تھیں اور تجربات کے تمام مراحل میں ان کی مکمل دیکھ بھال کی جاتی رہی ہے۔

’بعض اوقات لوگ سوچتے ہیں کہ سائنسدان جانوروں کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ فی الحال چوہوں کی ریڑھ کی ہڈی کی پیچیدگی کی وجہ سے اسے کسی سیل کلچر یا دوسرے ماڈل کے ذریعے دوبارہ نہیں بنایا جا سکتا۔‘

لیکن، زندہ سپائنی چوہوں پر تجربات کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں زندہ جانوروں کی بجائے سیل کلچر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سائنسدان اس قسم کے تجربات کا ایک جواز یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ایسے تجربات لاکھوں لوگوں کی زندگی بدلنے والی ادویات اور دوسرے علاج دریافت کرنے میں بہت مددگار ہو سکتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے تجربات سے پہلے آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسا ہی ہو گا، تاہم ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں پر تجربات سے طب کے شعبے میں بہت ترقی ہو سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے اس شعبے میں کام ماضی قریب میں ہی شروع ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان ابھی تک ری جنریشن یا تخلیقِ نو کے عمل کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، مختلف جانوروں میں خلیے دوبارہ بنتے کیسے ہیں۔ لیکن ماہرین کو اس میدان میں خاصی زیادہ معلومات حاصل ہو چکی ہیں۔

ریٹینائڈز کی مثال ہی لے لیجیے۔ ریٹینائڈز سے مراد ایسے قدرتی اور کیمیائی اجزا ہیں جن کی مدد سے انسان اور دوسرے جانور اپنے جسم میں وٹامن اے بناتے ہیں۔ کچھ جانور ریٹینائڈز کی مدد سے حیران کن کام کر لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ’سی کیوکمبر‘ (کھیرے کی شکل کی سمندری مخلوق) جو تخلیقِ نو کے ذریعے اپنے جسم میں نئی انتڑیاں بنا لیتی ہے۔ اسی طرح سنہ 2019 کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ تخلیقِ نو کے اس عمل میں ’ریٹینائڈ ایسڈ‘ استعمال ہوتا ہے اور زیبر مچھلی اس مادے کی مدد سے اپنی کھال پر نئے پر اُگا لیتی ہے۔

ہمارے لبلبے میں ایسے خلیے ہوتے ہیں جو ٹائپ ون ذیابیطس کی صورت میں ہمارے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہو جاتے ہیں جس سے ہمارا جسم انسولین کی صحیح مقدار پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ گذشتہ ایک دو دہائیوں میں، ڈاکٹروں کو مرنے والے ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں سے آئیلیٹ سیلز لے کر دوسرے مریضوں میں پیوند کاری کرنے میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

سی کیوکمبر

دیکھنے میں شاید سی کیوکمبر (سمندری کھیرے) آپ کو بے وقعت دکھائی دیں، لیکن سمندری حیات کی یہ قسم اپنی پوری آنت دوباہ بنا لینے کی صلاحیت رکھتی ہے

لیکن اب ماہرین کو (نان سپائنی) چوہوں پر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹر ایک دن انسانی لبلبہ میں آئیلیلا سیلز بنانے کے عمل کو متحرک کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں تاکہ ان خلیوں میں بھی تخلیقِ نو کی صلاحیت پیدا کی جا سکے۔ تاہم، ماہرین اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عمل جو چوہوں میں کامیاب ثابت ہوتا ہے، انسانوں میں بھی کام کرے گا یا نہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں جن سے ہم تخلیقِ نو کی صلاحیتوں کے حامل جانوروں کے مطالعے سے سیکھ رہے ہیں۔ مثلاً 2019 میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق، زیبرا فش لاروا، جو اپنی ریڑھ کی ہڈی کو ریڑھ کی ہڈی کے چوہوں کی طرح دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اس کو ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں کے علاج کے لیے تیار کی گئی ادویات کی افادیت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دنیا میں ایسے کچھ ایسے جاندار موجود ہیں جو اچھی طرح سے ری جنریشن کا عمل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے انسٹیٹیوٹ فار ہارٹ اینڈ لنگ ریسرچ نامی ادارے سے منسلک میکس پلانک کہتے ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ یہ بات واقعی ہوش ربا لگتی ہے کہ جانور ایسا کر سکتے ہیں۔‘

’اس بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک سائنسدان کی حیثیت سے میرے لیے دیگر جانداروں میں فطرت اور حیاتیات کی بنیادی باتوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔‘ تاہم، یہ بات کہ اس سے ہمیں طب کے میدان میں کوئی بڑی کامیابی مل سکتی ہے، یہ ایک دوسرا سوال ہے۔

اپنے جسم کے حصوں کو دوبارہ بنا لینے والے زندہ جانوروں پر تحقیق کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات اپنی جگہ، لیکن اس میں شک نہیں کہ سپائنی ماؤس پر تحقیق سے کسی انقلابی دوا کی دریافت کا سفر طویل اور غیر یقینی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان جانوروں پر تحقیق سے طب کی شعبے میں انقلاب کی امید بھی اتنی زیادہ ہے کہ آپ اس سے نظر بھی نہیں چرا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments