بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیاں: ’بیبگر کو جیسے گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا‘

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


’ہم اپنے کزن بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کے باعث عید کی خوشیاں تو نہیں منا سکے لیکن جب وہ بازیاب ہو کر ہمارے پاس آ گئے تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہی اوران کی بازیابی کا دن ہی ہمارے لیے عید کا دن تھا۔‘

یہ کہنا تھا پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے طالب علم سالم بلوچ کا جن کے کزن بیبگر امداد کو 27 اپریل کو سکیورٹی اداروں کی جانب سے یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے سے اٹھایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بیبگر امداد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں اور وہ چھٹیاں گزارنے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے کزن کے پاس گئے تھے۔

سکیورٹی اداروں کی جانب سے بیبگر امداد کو دس مئی کو رہا کیا گیا ہے۔

سالم بلوچ کا کہنا تھا کہ ‘بیبگر امداد کو منگل کی صبح ان کے وکیل حیدر بٹ کے حوالے کیا گیا تھا۔’

بیبگر امداد کو کہاں اور کس کے حوالے کیا گیا؟

پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ سٹوڈنٹس کے ایک نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بیبگر امداد کو پیر اور منگل کی درمیانی شب گیارہ بجے کراچی سے لاہور منتقل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں لاہور پہنچانے کے بعد صبح نو بجے کے قریب بیبگر امداد کے وکیل حیدر بٹ ایڈووکیٹ کے حوالے کیا گیا۔

حیدر بٹ ایڈووکیٹ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ‘انھیں ایک فون آیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ آ کر بیبگر امداد کو لے جائیں۔’

’رہائی کے بعد بیبگر امداد کے رشتہ داروں سے میں نے فون پر رابطہ کیا اور ان کے والدین اور رشتہ داروں کو بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں۔ اس موقع پر بیبگر نے خود بھی اپنے رشتہ داروں سے بات کی۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ بیبگر امداد کو سکیورٹی اہلکاروں سے لینے کے بعد انھیں ان کے چچازاد بھائی اور دیگر طلبا کے پاس لے گئے۔

اس سوال پر کہ بیبگر امداد کو کیوں حراست میں لیا گیا، ان کے وکیل حیدر بٹ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’عدالت سے باہر ہمیں جو معلومات فراہم کی گئیں ان کے مطابق بیبگر امداد سے کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خود کش بم حملے سے متعلق تحقیقات کی جانی تھیں۔‘

یاد رہے کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔

اس حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی اور یہ حملہ خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش نے کیا تھا۔

حیدر بٹ نے بتایا کہ بیبگر امداد کی بازیابی کے لیے جو درخواست دی گئی تھی اس کی اگلی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں 20 مئی کو ہونی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بیبگر امداد محفوظ طریقے سے بازیاب ہوئے اور وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں جس کے پیش نظر ان کے رشتہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مزید کارروائی کے لیے زور نہیں دیں گے اوراپنی درخواست کو ہائی کورٹ سے واپس لے لیں گے۔’

ان کے ایک اور رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بیبگر بلوچ سے مختلف سوالات پوچھے گئے جن میں کالعدم عسکریت پسندوں سے متعلق سوالات بھی شامل تھے۔

’سو رہے تھے کہ بیبگر کو اٹھانے کے لیے دروازے پر دستک ہوئی‘

سالم بلوچ نے بیبگر امداد کو حراست میں لیے جانے والے واقعے کو یاد کرتے کہا کہ ’بیبگر کو جیسے گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’رمضان کے آخری عشرے میں سحری کے بعد ہم سو رہے تھے کہ صبح سات بجے کے قریب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر چار میں میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔ بیبگر نے مجھے اٹھایا اور کہا کہ کوئی دروازے پر دستک دے رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب میں نے دروازہ کھولا تو دروازے پر یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر کے علاوہ دو دیگر افراد کھڑے تھے جن کو میں نہیں جانتا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی ان لوگوں نے پوچھا آپ میں بیبگر امداد کون ہیں تو بیبگر نے خود کہا کہ وہ ہیں۔‘

سالم بلوچ کے مطابق ‘ان افراد نے پہلے بیبگر سے پوچھا کہ ان کے پاس فون ہے کیونکہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں جس پر بیبگر نے اپنا فون ان کے حوالے کیا، اسی طرح لیپ ٹاپ کے بارے میں پوچھنے پر بھی بیبگر بالکل پُراعتماد تھے اور انھوں نے اپنا لیپ ٹاپ بھی فوری طور پر ان کے حوالے کیا۔’

سالم بلوچ کے مطابق ‘فون اور لیپ ٹاپ کی حوالگی کے بعد ان افراد نے بیبگر کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ چلیں کیونکہ انھوں نے ان سے پوچھ گچھ کرنی ہے، جس پر میں نے یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر کو کہا کہ یہ کون لوگ ہیں تو انھوں نے کچھ نہیں بتایا اور بیبگر کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنے کے لیے کہا۔’

سالم بلوچ نے بتایا کہ ’ان افراد سے بیبگر کی گرفتاری سے متعلق وارنٹ کا بھی پوچھا کہ اس کے بغیر وہ اسے کیسے لے جا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کوشش کی ان کو کوئی قانونی دستاویز دکھائے بغیر بیبگر کو نہ لے جانے دوں مگر انھوں نے مجھے دھکہ دے کر کمرے میں بند کر دیا۔‘

سالم بلوچ کا کہنا تھا کہ اس دوران انھوں نے کمرے سے باہر نکلنے کے لیے کوشش کی لیکن دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی گئی تھی اس لیے انھوں نے اندر سے زور زور سے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا۔

ان کا کہنا تھا اس دوران کمرے کے باہر سے گزرنے والے کسی شخص نے شور سن کر ان کے کمرے کا دروازہ کھولا۔

’میرا خیال تھا کہ جب تک میں باہرجاؤں گا اس وقت تک وہ افراد بیبگر کو لے جاچکے ہوں گے لیکن بیبگر کی مزاحمت کی وجہ سے وہ ابھی تک ان کو گاڑی میں نہیں ڈال سکے تھے جس کے باعث انھیں چھوٹی سی ویڈیو بنانے میں کامیابی ملی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں ویڈیو بنا رہا تھا تو مجھے سختی سے ویڈیو بنانے سے منع کیا گیا تاہم ویڈیو بنانے کا سلسلہ جاری رکھنے پر نہ صرف میرے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیاگیابلکہ مجھے بھی اٹھانے کی دھمکی دی گئی۔‘

یہ بھی پڑھیے

شاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘

’جب میرے شوہر کو اٹھایا گیا تو میں نو ماہ کی حاملہ تھی‘

14 روز تک وائس چانسلر کے دفتر کے باہر جگہ کو اوڑھنا بچھونا بنایا

سالم بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ان کے کزن بیبگر بلوچ کے جانے کے بعد وہ متعلقہ پولیس تھانہ گئے تاکہ بیبگر کے اغوا کی ایف آئی آر درج کرائی جائے لیکن ایس ایچ او نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔

’ہمارے ساتھ قانون کا بھی ایک طالب علم تھا جس نے ایس ایچ او کو قانون کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ایس ایچ او نے ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے ان سے اس سلسلے میں درخواست لیتے ہوئے کہا کہ اس پر غور کیا جائے گا۔‘

سالم بلوچ کا کہنا تھا کہ بیبگر کی بازیابی کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کیا اور 14روز تک اس جگہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

ان کا کہنا تھا وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاج کے ساتھ ساتھ وہ پولیس کے ایس ایچ او کے جواب کا انتظار کرتے رہے مگر دو روز بعد ایس ایچ او کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے کا جواب ملا۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج نہ ہونے کی صورت میں لاہور ہائی کورٹ میں کزن کی جبری گمشدگی کے خلاف درخواست بھی وکیل کے ذریعے دائر کروائی گئی ۔

بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ایک نمائندے نے بتایا کہ اس احتجاج کی وجہ سے نہ صرف بلوچ طلبا کی تعلیم متاثر ہوئی بلکہ جن طلبا کے امتحانات ہو رہے تھے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔

کونسل کے نمائندے کے مطابق بلوچ طلبا کو جس طرح سے جبری گمشدگیوں کا سامنا ہے اس کے پیش نظر پنجاب، اسلام آباد اور دوسرے علاقوں میں وہ ہر وقت اس خدشے سے دوچار رہتے ہیں کب دوسروں کی باری آئے گی۔

بیبگر کی بازیابی کے لیے احتجاج کے باعث عید نہیں مناسکے

بازیابی کے بعد میں نے بیبگر امداد سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے کزن سالم بلوچ نے بتایا وہ اس وقت بات کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بیبگر امداد کو احتجاجی کیمپ میں ہمارے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ کیمپ کے باہر ہم نے ان کا استقبال کیا اور پھر وہ وہاں سے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے طلبا سے ملنے آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بیبگر کو جس انداز سے گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا لیکن جب میں نے دوبارہ ان کو اپنے سامنے پایا تو میں بے ساختہ ان کو گلے سے لگا کر بوسہ دیا۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘بیبگر اسلام آباد سے میرے پاس اس لیے آیا تھا کہ ہم لاہور سے اکھٹے عید منانے کے لیے بلوچستان میں اپنے آبائی علاقے تربت جائیں گے لیکن ان کی جبری گمشدگی کے باعث ہم عید پر بھی لاہور میں احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب میں نے ان کو اپنے آنکھوں کے سامنے پایا تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ ہم اور دیگر بلوچ طلبا ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کی وجہ سے عید الفطر تو نہیں مناسکے لیکن جب ہم نے ان کو دوبارہ اپنے آنکھوں کے سامنے کھڑے دیکھا تو اس وقت کی خوشی ہمارے لیے عید کی خوشیوں سے کم نہیں تھی۔’

انھوں نے بتایا کہ ’کزن کی بازیابی کے بعد ہم نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے دفتر کے باہر 14روز سے جاری اپنے دھرنے کو ختم کر دیا ہے۔‘

رواں سال اب تک تین بلوچ طالبعلموں کی بازیابی

بیبگر امداد بلوچ وہ تیسرے طالب علم ہیں جن کی بازیابی عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ احتجاج کے باعث ممکن ہوئی۔

ان سے چند روز قبل پنجگور میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایک طالب علم شاہ بیگ بلوچ کو بس سے اتارکر تحویل میں لیے جانے کے خلاف لوگوں نے بڑا احتجاج کیا تھا۔

شاہ بیگ بلوچ کیچ کے علاقے سے کوئٹہ آ رہے تھے کہ پنجگور میں ایک چیک پوسٹ پر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے انھیں مسافر بس سے اتارا تھا۔ جس پر سب سے پہلے بس کے مسافروں نے اس کے خلاف سڑک کو بطور احتجاج بند کیا تھا تاہم بعد میں پنجگور سے خواتین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کے لیے جمع ہوئی تھی۔

اس احتجاج کے نتیجے میں شاہ بیگ کو حراست میں لینے کے چند گھنٹے بعد پہلے پولیس کے حوالے کیا گیا تھا جہاں سے بعد میں ان کو رہا کیا گیا۔

شاہ بیگ سے پہلے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل کے طالب علم حیفظ بلوچ خضدار سے لاپتہ ہوئے تھے۔

ان کے رشتہ داروں کے مطابق ان کو چھٹیوں پر آنے کے باعث خضدار شہر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جس کے بعد بلوچ طلبانے ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا لیکن سب سے طویل احتجاج اسلام آباد میں کیا گیا۔

اس احتجاج کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے نتیجے میں حفیظ بلوچ کی گرفتاری ضلع خضدار سے متصل بلوچستان کے دوسرے ضلع جھل مگسی سے ظاہر کی گئی لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کے باعث ان کی رہائی ممکن نہیں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments