سفیر کی آپ بیتی: بھٹو کی ہزار سالہ جنگ اور یحییٰ خان کی سوویت صدر سے جھڑپ


”چمن پہ کیا گزری“ ہمارے ایک نامور سفیر سلطان محمد خان کی سرگزشت سفارت کاری ہے۔ کتاب کا نام حبیب جالب کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔

ہم گزر کر خزاں سے آئے ہیں
ہم سے پوچھو چمن پہ کیا گزری

پاکستان کی وزارت خارجہ میں آپ نے اپنی خدمات کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی کیا۔ مختلف ممالک بشمول امریکہ میں سفیر ہونے کے علاوہ 1970 تا 1972 سیکریٹری خارجہ رہے۔ 1976 میں پنشن یاب ہوئے لیکن صدر ضیاءالحق نے آپ کو 1979 تا 1981 ایک بار پھر امریکہ میں سفیر مقرر کیا۔

آپ کا آبائی تعلق ہندوستان میں راج کے دور کی ایک چھوٹی سی ریاست جاورہ سے تھا۔ آپ نے عملی زندگی کا آغاز برٹش آرمی میں کمیشنڈ افسر کے طور پر کیا تھا جہاں سے بعد میں آپ سول سروس کے لیے منتخب ہوئے۔

آپ نے 91 سال کی عمر میں وفات پائی اور کراچی میں سپرد خاک ہوئے۔
ان کی کتاب سے کچھ دلچسپ اور کچھ چشم کشا واقعات قارئین کی نذر کرتا ہوں۔

” یہ 1959 کا سال تھا۔ منظور قادر ہمارے وزیر خارجہ تھے۔ وہ سر عبدالقادر کے بیٹے تھے۔ وہ ایک مشہور وکیل اور اردو ادب کے سرپرست رہ چکے تھے۔ انہوں نے دفتر خارجہ میں کچھ جدت طرازیاں کی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ کئی سفارت خانوں کو بند کر دیا جائے۔ کیونکہ کثیر تعداد میں سفیروں کی ہمہ وقت موجودگی اسراف بیجا ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ متعلقہ ملک کے وزیر خارجہ سے خود بات کر لیں گے۔ انہوں نے کفائت کی غرض سے یہ فیصلہ کیا کہ سفارت خانوں میں بس ایک فاکس ویگن کار کافی ہو گی۔ یہ سفیر اور دیگر افسروں کے سرکاری کاموں کے لیے بہت ہے۔ اپنے نجی کاموں کے لیے انہیں بسوں اور سائیکلوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ان کی ایک ندرت یہ بھی تھی کہ جب سالانہ کارکردگی کی رپورٹ لکھی جائے تو تیار کنندہ افسر کو چاہیے کہ ایک نقل متعلقہ افسر کو بھی ارسال کرے اور ماتحت اپنے رپورٹنگ افسر کی کارگردگی کے بارے میں اپنی رائے بھی لکھے۔ ان کا خیال تھا اس طرح افسران کی کارکردگی بہتر طور پر سامنے آئے گی۔“

”وہ وقت کی پابندی پر بھی زور دیتے تھے۔ دفتر کا متعینہ وقت شروع ہونے کے پندرہ منٹ بعد صدر دروازے کو بند کرا دیا کرتے تھے۔ دیر سے آنے والوں نے اس کا یہ حل نکالا گھر واپس لوٹ کر فون کر دیتے تھے کہ آج طبیعت خراب ہے اس لیے دفتر نہ آ سکوں گا۔ مجبوراً کچھ ماہ بعد یہ طریقہ کار ختم کر دیا گیا“ ۔

2۔ بحیثیت سینئر ڈائریکٹر جنرل میرا ان سے بہت سابقہ پڑتا تھا۔ آئے دن دفتر میں مختلف ملاقاتوں میں شرکت کے علاوہ ان کے ہمراہ کئی بین الاقوامی سفر بھی کیے اور اس طرح انہیں نہایت قریب سے دیکھا۔ اپنے رتبے کے گھمنڈ سے مستثنیٰ تھے۔ دفتر خارجہ میں کسی سے ملنے سے عار نہ تھی۔ دل کو چھو لینے والی ایک صفت یہ تھی کہ کسی بھی مضحکہ خیز یا بیوقوفی والی بات پہ بے ساختہ ہنس پڑتے تھے، چاہے خود ان سے ہی سرزد کیوں نہ ہوئی ہو۔ ایک دفعہ جب ہم سینٹو کی میٹنگ میں شرکت کے لیے انقرہ کے ہوائی اڈہ پر اترے تو دیکھا برخلاف توقع ان کے استقبال کے لیے گارڈ آف آنر صف بستہ ہے۔ وی اس وقت سادہ کپڑوں یعنی بش شرٹ اور پتلون میں تھے۔ دوران خون کی بے ترتیبی کی وجہ سے پاؤں میں چپل پہن رکھے تھے۔ فرمانے لگے، ترک بھی کیا سوچیں گے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ اس حلیے میں گارڈ آف آنر کا معائنہ کر رہا ہے۔ خیر امید ہے اس صدمہ کو سہار لیں گے۔

3۔ ”1965 کی جنگ جاری تھی۔ ہر ایک کا حب الوطنی کا جذبہ پورے شباب پر تھا۔ مسلح افواج اپنی جنگی صلاحیتوں کے جوہر خوب دکھا رہی تھیں۔ ایک وقت آیا کی سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کا پیغام آیا کہ جنگ بندی کی بات کو ٹال دیا جائے کیونکہ پاکستان عنقریب کمانڈنگ پوزیشن میں آنے والا ہے۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ خبر آئی کہ پاکستان کی وہ پیش قدمی جو اس کے واحد آرمرڈ ڈویژن نے کی تھی ناکام ہو گئی ہے۔ جس میدان میں ٹینک آگے بڑھ رہے تھے اسے بھارتی فوج نے پانی چھوڑ کر سیلاب زدہ کر دیا۔ دوسری طرف راجستھان سرحد پر ہم کافی علاقہ گنوا بیٹھے تھے۔

ادھر سلامتی کونسل کا اجلاس بھی جاری تھا۔ کونسل دونوں ممالک پر زور دے رہی تھی کہ جنگ بند کر کے اپنی اپنی سرحدوں میں واپس چلے جائیں۔ آرمرڈ ڈویژن کی ناکامی کے بعد بھٹو کو ہدایت دی گئی کہ نیو یارک پہنچ کر جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیں۔ میں اس وفد کا ایک رکن تھا۔ بھٹو کی آمد ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ برفانی طوفان کی وجہ سے نیو یارک کا ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا اور بھٹو کا طیارہ مانٹریال کی طرف موڑ دیا گیا۔ ساعت بہ ساعت اجلاس ملتوی کیا جاتا رہا تا کہ بھٹو کارروائی میں شرکت کر سکیں۔ بالآخر یہ رات ایک بجے ممکن ہوا۔

بھٹو نے سلامتی کونسل کو نہایت آب و تاب سے مخاطب کیا۔ دنیا کی آزادی کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے جذبات میں کانپتی ہوئی آواز سے انہوں نے سوال کیا۔ کیا کشمیر کے عوام انسان نہیں کہ انہیں حق خود ارادیت سے محروم رکھا جائے۔ پھر ہندوستان کے وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ سردار صاحب ہم نے مصمم ارادہ کر رکھا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق دلا کر رہیں گے اور اگر ضروری ہوا تو اس جدوجہد کو ہزار سال تک جاری رکھیں گے۔

اب پہلے سے طے شدہ ناٹک کے مطابق ایک پاکستانی سفارت کار اجلاس میں نمودار ہوا اور یو این میں پاکستان کے سفیر سید امجد علی کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی۔ انہوں نے ایک پرچہ پہ کچھ لکھ کر بھٹو کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ بھٹو نے یہ کہہ کر کہ مجھے صدر پاکستان کا فون سننا ہے صدر اجلاس سے درخواست کی کہ کارروائی تھوڑی دیر کے لیے روک دی جائے۔ وہ اسی کمرے میں ایک بوتھ پر گئے اور مصنوعی گفتگو کرنے لگے۔ اب واپس آ کر آبدیدہ ہو کر بولے، میں ہزار سالہ جنگ کی بات کر رہا تھا لیکن میرے صدر نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور مجھے ہدایت کی ہے کہ میں پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کو قبول کر لوں۔

اجلاس کے بعد جب ہم کاروں کی طرف چلے تو بھٹو نے قہقہہ مار کر کہا، ایوب خان غضبناک ہوں گے لیکن میں جب کراچی میں اتروں گا تو عوام مجھے پھولوں سے لاد دیں گے۔

بھٹو سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی ہدایت لے کر آئے تھے اور اس کی وکالت بھی انہوں نے خود ہی کی تھی۔ لیکن فون کا ناٹک کھیل کر انہوں نے اس موقع کو سیاسی مقبولیت کے لیے استعمال کیا ”۔

4 ”۔ 1969 میں وزیر اعظم روس کوسیگن پاکستان آئے تھے۔ جوابی دعوت پر 1970 میں یحیٰی خان ماسکو گئے۔ یہ عمومی دورہ تھا مگر دو واقعات کی وجہ سے خاص ہو گیا۔ ایک تو روسی تعاون سے کراچی میں زیر تعمیر سٹیل مل کے معاہدے کی توثیق کرنا، دوسرے کریملن میں ایک لنچ کے دوران صدر پڈگورنی نے تاشقند معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاک و ہند کے درمیان منقطع مذاکرات کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ یحیٰی خان نے جواباً کہا کہ ہندوستان کے رویے کو دیکھتے ہوئے اس کے امکانات نہیں ہیں۔ پڈگورنی نے کہا کہ وہ یحیٰی خان اور اندرا گاندھی کی ملاقات پر زور دیں گے۔

مترجم نے روسی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ insist کیا تھا وہ شاید موزوں نہیں تھا۔ اس لفظ نے یحیٰی خان کا پارہ چڑھا دیا۔ انہوں نے جوش بھرے الفاظ میں کہا، اس میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے مجھے کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔ اسی لہجہ میں جواب دیتے ہوئے میز پر مکہ مار کر پڈگورنی نے کہا، آپ کو شریک ہونا پڑے گا۔ اب یحیٰی خان نے میز پر اتنی زور سے مکا مارا کہ اس پہ رکھے گلاس آپس میں ٹکرا گئے اور کہا ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہو گی۔ اس کے بعد کمرے میں سکوت چھا گیا۔ رفتہ رفتہ دونوں کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا اور دونوں نے معقولیت کا اظہار جام صحت کو باہم ٹکرا کر کیا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments