پشتونخوا ملی عوامی پارٹی: ماضی، حال اور مستقبل


پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی ابتداء خان عبدالصمد خان اچکزئی (محمود خان اچکزئی کے والد) سے شروع ہوتی ہے جو کہ برطانوی استعمار اور پھر آزادی کے بعد پاکستان میں سول اور فوجی آمریت اور جاگیردارانہ سوچ کے خلاف اپنی جدوجہد کے لیے مشہور ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انہوں نے برٹش بلوچستان، موجودہ خیبر پختونخوا اور سابقہ ​​فاٹا پر مشتمل ایک علیحدہ صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا جس کی پاداش میں انہیں قیام پاکستان کے بعد غدار قرار دیا گیا اور جس کو 23 سال متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج اور قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں پاکستانی حکمرانوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔

عبدالصمد خان اچکزئی نے 1938 میں اپنی پہلی سیاسی جماعت انجمن وطن بنائی۔ 1954 میں ورور پشتون جسے 1956 میں نیپ میں ضم کر دیا گیا، بعد میں جب انہوں نے بلوچستان کے پشتونوں کے لیے علیحدہ پشتون صوبہ نہ بنانے پر اپنے تحفظات کے باعث NAP سے علیحدگی اختیار کر لی تو عبدالصمد خان اچکزئی نے 1970 میں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی بنائی۔ جب عبدالصمد خان 1973 میں شہید کیے گئے تو ان کے بیٹے محمود خان اچکزئی پی این اے پی کے چیئرمین بنے۔ 1989 میں پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی (PNAP) اور مزدور کسان پارٹی (MKP) کے انضمام سے PMAP (پختونخوا ملی عوامی پارٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا منشور مندرجہ زیل مطالبات جس میں پشتونخوا وطن کی خودمختاری، پاکستان میں وفاق کی مضبوطی اور جمہوریت کا دفاع، آزاد خارجہ پالیسی، پشتونوں کے حقوق کا تحفظ، پشتو زبان کا فروغ، صوبائی خودمختاری (جہاں وفاقی حکومت کو صرف کرنسی، خارجہ پالیسی، اور دفاع پر اختیار ہو) ، پشتون وطن کے قدرتی وسائل کا تحفظ، برٹش بلوچستان، موجودہ خیبر پختونخوا بشمول فاٹا پر مشتمل ایک مشترکہ پشتون صوبے کی تشکیل، کراچی میں مقیم پشتونوں کے حقوق کا تحفظ، خواتین کے حقوق کی فراہمی وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

تاریخی طور پر، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی قوم پرستانہ سیاست پر اپنی خصوصی توجہ کے ساتھ چھوٹی قوموں کے حقوق کے تحفظ، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمتی جماعت رہی ہے۔ اگرچہ، صوبائی اسمبلی ( 2013 کے الیکشن کے علاوہ جس میں اس کے 14 اراکین تھے، جو اس کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھے ) ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کا حصہ برائے نام رہا ہے، لیکن اس کے مضبوط نظریاتی منشور اور مضبوط یونٹ کی سطح پر متوسط ​​طبقے کی نمائندگی نے اسے سیاست کا ایم کھلاڑی بنا دیا تھا۔

ایک بات جو یقینی طور پر پارٹی کے وجود کو اب تک برقرار رکھی ہوئی ہے وہ محمود خان اچکزئی کی لیڈرشپ ہے جو 1973 میں اپنے والد کی شہادت کے بعد سے بطور چیئرمین پارٹی کی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم ایک مسئلہ جو کہ مستقبل میں پارٹی کو درپیش ہو گا وہ قیادت کا ہو گا۔ پاکستان میں، زیادہ تر سیاسی جماعتیں خاندانی طور پر چلائی جاتی رہی ہیں۔ اگرچہ خاندانی سیاست جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور اقدار کے خلاف ہے، لیکن دوسری طرف، اس نے سیاسی جماعتوں کو متحد رکھا ہوا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف کے برعکس، جہاں نواز، بے نظیر، اور مولانا فضل الرحمان کے وارثوں کو پارٹی کی نئی اور متبادل قیادت کے طور پر سامنے لایا جا چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اس کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

اگرچہ محمود خان اچکزئی نے حال ہی میں اپنے بیٹے کو صوبائی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کیا ہے لیکن اب بھی صورتحال مبہم ہے۔ کیا محمود خان اچکزئی اپنے بیٹے کو مستقبل کے لیڈر کے طور پر تیار کر رہا ہے؟ کیا مستقبل میں وہ محمود خان اچکزئی کی طرح پارٹی پر اپنی گرفت رکھ سکے گا؟ اور کیا اس کو پارٹی کے سینیئر رہنما قبول کر پائے گے؟ ان تمام سوالات کے جوابات پارٹی کی موجودہ اندرونی خلفشار کو دیکھ کر لگتا ہے غیر یقینی ہیں

دوسرا بڑا چیلنج مرکزی اور صوبائی کمیٹیوں میں نئی ​​قیادت کی شمولیت ہوگی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں تمام ممبران عمر رسیدہ ہیں جن کی عمریں 50 سال سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ صوبائی ایگزیکٹو کمیٹی کی صورتحال بھی کچھ نوجوانوں کی شمولیت کے باوجود بہتر نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی اس بحران سے کیسے نمٹیں گے، یہ ان کئی قیادت اور وسیع نظری کا امتحان ہو گا۔

مثبت تنقید اور اختلاف رائے جمہوریت کی اہم خصوصیات رہی ہے۔ 2013 کے انتخابات میں تاریخی کامیابی کے بعد ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 14 صوبائی اراکین، 4 ایم این اے، 4 سینیٹرز، اور بلوچستان کی گورنر شپ حاصل کرنے میں کامیابی رہی۔ ایک طرف تو یہ شاندار فتح تھی، دوسری طرف یہ پارٹی کے اندر اندرونی کشمکش کا باعث بن گئی۔ اس اختلاف نے پارٹی کارکنوں کو بد دل اور مایوس کر دیا، جس کی وجہ سے 2018 کے انتخابات میں پشتنونخوا ملی عوامی پارٹی بری طرح شکست سے دوچار ہوئی، اور پی بی 31 کوئٹہ VIII سے نصر اللہ خان زیرے کے علاوہ پارٹی صوبہ بھر سے دوسری صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی ساتھ ساتھ پارٹی قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہ جیت سکی۔

محمود خان اچکزئی نے خود اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری ضلعی سطح کی قیادت مکمل طور پر ناکام رہی، اگر وہ پرعزم ہوتی اور ایمانداری دکھا کر پوری کوشش کرتی تو پارٹی ہر قیمت پر 5 سے 6 ایم پی اے جیت سکتی تھی۔ لیکن اندرونی کشمکش کی وجہ سے پارٹی بری طرح پٹ گئی۔ 2013 کے الیکشن کے دن کوئٹہ کے بہت سے پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کرتے ہوئے میں نے (لکھاری ) نے خود دیکھا کہ بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ موجود ہی نہ تھے، وہ بھی ایک ایسے شہر میں جہاں پارٹی کا مضبوط ووٹ بنک اور ایک پڑھا لکھا طبقہ موجود ہو۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلاشبہ بے آواز پشتونوں کی آواز ہے جو اپنے بنیادی حقوق اور قدرتی وسائل سے محروم ہیں۔ یہ ایک مضبوط جمہوری قوت، ترقی پسند اور بائیں بازو کی آواز اور صوبائی خودمختاری کی محافظ رہی ہے۔ موجودہ دور میں پارٹی شدید بحرانوں کا شکار ہے جو کہ بنیادی طور پر اندرونی ہیں جس میں اہم قیادت کا خلا ہے کہ مستقبل میں پارٹی کی قیادت کون کرے گا۔ اس پارٹی کی مضبوطی وقت کی ضرورت ہے۔ خدا نہ کرے اس پارٹی کی کمزوری کا مطلب پشتون بیلٹ میں بنیاد پرستی کو تقویت دینا ہو گا۔ جو اس قوم کو مزید اندھیروں کی کھائی میں دھکیل دے گا۔ کیا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت اس حساسیت کو محسوس کرے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments