بنگال کے سپہ سالار میر جعفر نے سراج الدولہ کا ساتھ کیوں چھوڑا؟


کلکتہ پر پہلا حملہ

سراج الدولہ نے اگرچہ اقتدار کی جنگ میں اپنی ایک بڑی حریف اور خالہ گھسیٹی بیگم کو حراست میں لے لیا تھا لیکن وہ ان کے ساتھیوں کاصفایا بھی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی خالہ کی حمایت کرنے والے ایک مال دار شخص راج بلبا کو گرفتار کرنا چاہا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کا خاندان کلکتہ میں انگریزوں کی پناہ میں ہے۔ یہی خبر نواب کے غیض و غضب کو دعوت دینے کے لیے کیا کم تھی کہ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کلکتہ میں انگریزوں نے نواب ناظم کی اجازت کے بغیر قلعوں کی تعمیرشروع کر رکھی ہے۔

کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ کے مطابق ابتدا میں نواب نے یہ معاملہ سفارت کاری سے حل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نواب کے ایلچی کے ساتھ انگریز گورنر راجر ڈریک کے توہین آمیز سلوک نے نواب کے ضبط کا بندھن توڑ دیا۔ جون 1756 میں سراج الدولہ نے پہلے قاسم بازار پر قائم انگریزوں کی تجارتی چوکی پر قبضہ کر لیا اور پھر 16 جون کو کلکتہ پر ہی حملہ کر دیا۔ برطانوی تاریخ میں اس حملے کو ’بلیک ہول آف کولکٹا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کلکتہ میں انگریزوں کی فوجی بیرکس میں زیادہ شراب پی کر دھت ہونے والے یا ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں کو جن کوٹھڑیوں میں قید کیا جاتا تھا انہیں ’بلیک ہول‘ کا نام دیا گیا تھا۔ کلکتہ پر قبضہ کر کے سراج الدولہ نے کئی برطانویوں کو انہی تنگ و تاریک قید خانوں میں ڈال دیا تھا۔

بلیک ہول واقعے میں سراج الدولہ پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ انہوں نے چھوٹے سے سیل میں 146 انگریز اہل کاروں اور ان کے اہل خانہ کو بند کر دیا تھا جہاں دم گھٹنے کی وجہ سے 123 افراد کی موت واقع ہو گئی تھی۔ ’پاکستان ٹو پلاسی‘ کے مصنف ہمایوں مرزا کے مطابق بعد کے مؤرخین نے اس تعداد کا مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔

ان کے نزدیک صرف 39 سے 69 کے درمیان لوگوں کو ان کوٹھڑیوں میں قید کیا گیا تھا جس کے باعث 18 سے 46 افراد کی موت ہوئی تھی۔ ہمایوں مرزا کے مطابق انگریز بنیادی طور پر کلکتہ میں اپنی شکست پر بہت برہم تھے۔ اس لیے انہوں ں ے بلیک ہول واقعے میں ہونے والی اموات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔

انگریزوں کے خلاف فوج کشی سے پہلے سراج الدولہ نے فرانس اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنیوں سے مدد طلب کی تھی۔ لیکن دونوں ں ے انکار کر دیا تھا۔ اسی لیے کلکتہ میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ نے فرانسیسی اور ڈچ سوداگروں سے بھی بھاری ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا تھا۔

زوال کا آغاز

کلکتہ کی مہم میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ خود کو ایک مضبوط حکمران سمجھ رہے تھے۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے انتقام کی تیاریاں شروع کردی تھیں کیوں کہ انہیں بنگال میں اپنے تجارتی مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے تھے اور اپنے حریف فرانس کی خطے میں موجودگی کی وجہ سے وہ بنگال سے پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔

اسی لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں اپنی قوت جمع کرنا شروع کی اور جولائی 1756 میں کلکتہ میں اپنی تنصیبات بحال کرنے کے لیے مہم کا آغاز کر دیا۔ دسمبر 1756 تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی تیار کی گئی فوج کے برطانوی کمانڈرلارڈ کلائیو ایک بڑی فوج لے کر بنگال پہنچ چکے تھے اور انہوں ں ے سراج الدولہ کو اپنے مطالبات سے آگاہ کر دیا تھا۔

سراج الدولہ نے شروع میں بات چیت سے انکار کیا تو کمانڈر لارڈ کلائیو نے کلکتہ پر قبضہ کر لیا اور جنوری 1757 تک وہ ہوگلی میں ہندوستانی قلعوں تک پہنچ گئے۔

اسی اثنا میں یہ خبر ہندوستان پہنچی کہ یورپ میں فرانس اور برطانیہ میں جنگ جاری ہے۔ یہ 1756 میں شروع ہونے والی ’سات سالہ جنگ‘ تھی جو 1763 تک جاری رہی۔ یہ خبر ملتے ہی لارڈ کلائیو کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب فرانس جنوب میں پونڈی چری اور چندرنا گور کے علاقوں میں اپنی پوری قوت سے سراج الدولہ کی مدد کر سکتا ہے۔

اس موقع پر سراج الدولہ سے انگریزوں کی فوجی قوت کا درست اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی تھی۔ وہیں انہیں افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملے کی خبریں موصول ہو رہی تھیں اوریہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ منافع بخش تجارت کی وجہ سے بنگال بھی ان حملوں کا نشانہ بنے گا۔

ایسے حالات میں نواب نے سب سے پہلے برطانوی خطرے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور کلکتہ کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ کلکتہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سراج الدولہ نے فرانس سے بھی مدد مانگی لیکن فرانسیسی اس سے قبل کلکتہ میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ کا رویہ دیکھ چکے تھے۔ اس لیے انہوں ں ے فوری مدد سے گریز کیا۔

کامیابی کے بعد ناکامی

سراج الدولہ کی فوج کلکتہ پہنچی تو لڑائی سے قبل مذاکرات کیے گئے۔ انگریز بنگال میں نواب کے ہاتھوں ہونے والے اپنے نقصانات کے ازالے کے ساتھ ساتھ کلکتہ میں قلعے بنانے اور اپنے سکوں کی ڈھلائی کے لیے ٹکسال لگانے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ مذاکرات کے باوجود لارڈ کلائیو نواب پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور انہیں سراج الدولہ کی عددی برتری کا اندازہ بھی تھا۔

لارڈ کلائیو کو معلوم ہو چکا تھا کہ سراج الدولہ کے ساتھ 40 ہزار کی فوج ہے۔ انگریزوں کے پاس 470 فوجی اور 1400 ملاح اور ہندوستانی سپاہی تھے۔ میدان جنگ میں اس افرادی برتری کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے لارڈ کلائیو نے 5 فروری 1757 کو خیمے پر حملہ کر کے سراج الدولہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جو ناکام رہا۔ سراج الدولہ محفوظ رہے اور انگریزوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ہمایوں مرزا لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ نے کبھی کسی جنگ میں براہ راست فوج کی کمان نہیں کی تھی۔ وہ اپنے تجربے کار کمانڈروں کی مدد سے ہی کامیاب ہوتے رہے تھے۔ اسی ناتجربے کاری کی وجہ سے انگریزوں کے شب خون میں محفوظ رہنے کے باوجود وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور انہوں نے لارڈ کلائیو کو پیغام بھیجا کہ وہ انگریزوں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس پیش کش کے بعد 9 فروری 1757 کو سراج الدولہ اور انگریزوں میں معاہدہ طے پاگیا جس کے بعد انگریزوں کو کلکتہ میں قلعے تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ مؤرخین کے مطابق سراج الدولہ نے کلکتہ میں بغیر اجازت قلعے بنانے پر سزا دینے کے لیے ہی انگریزوں پر چڑھائی کی تھی۔ لیکن بعد میں انہوں نے انگریزوں کا یہی مطالبہ تسلیم کر لیا۔

مؤرخین کے مطابق سراج الدولہ کو دربار کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی تو یہ فیصلہ نہ ہوتا۔ لیکن وہ پہلے ہی بنگال میں با اثر طبقے کو شدید برہم کرچکے تھے اور انہیں بنگال میں اپنی حکومت کے کمزور ہونے کا اندازہ تھا۔ تبھی انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مفاہمت میں ہی عافیت جانی تھی۔

انگریزوں سے سمجھوتے کے بعد سراج الدولہ اپنے درباریوں کی نظر میں مزید کمزور ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کے خلاف درباری سازشیں زور پکڑ گئیں۔ اس وقت تک انگریز بھی سمجھ چکے تھے کہ بنگال کے تخت پر اپنی مرضی کا فرماں روا لائے بغیر وہ زیادہ دیر تک اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرپائیں گے۔ اس لیے انہوں نے سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر کو ساتھ ملا کر حکومت گرانے کے منصوبے کو حتمی شکل دینا شروع کردی۔

بنگال کے کمانڈر ان چیف میر جعفر

میر جعفر نجف کے گورنر سید حسین نجفی کے پوتے تھے اور ان کا تعلق سادات گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور مغل دربار کا حصہ بنے تھے۔

میر جعفر 1734 میں بنگال کے دربار سے وابستہ ہوئے تھے اور 1740 میں انہوں ں ے اقتدار حاصل کرنے میں اپنے برادر نسبتی علی وردی خان کی مدد کی تھی۔ 1746 میں مرہٹوں کی مزاحمت کچلنے میں بھی میر جعفر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1748 میں اڑیسہ میں ہونے والی شورش بھی میر جعفر نے ہی ختم کی تھی۔

اس کے بعد سے میر جعفر مسلسل علی وردی کے عہد میں فوج کے سپہ سالار رہے۔ جنگوں میں اپنی کامیابی کی وجہ سے میر جعفر کو فوج میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی لیے جب علی وردی خان نے اپنی جانشینی کا فیصلہ کیا تو میر جعفر سے قرآن پر حلف لیا کہ وہ ان کے جانشین سراج الدولہ کی بنگال، بہار اور اڑیسہ پر حکمرانی قائم کرنے میں مدد کریں گے۔

جیسا پہلے بیان ہو چکا کہ سراج الدولہ نے اپنے نانا کے دور کے طاقت ور افراد کو ایک ایک کر کے عہدوں سے ہٹانا شروع کیا تو اس کی زد میں میر جعفر بھی آئے۔ لیکن جب سراج الدولہ نے 1756 میں انگریزوں سے لڑائی شروع کی تو جنگی تجربے کی وجہ سے میر جعفر کو دوبارہ فوج کا کمانڈر بنا دیا۔

میر جعفر نے سراج الدولہ کے خالہ زاد بھائی شوکت جنگ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ضرور ادا کیا تھا۔ لیکن وہ سراج الدولہ کے مزاج سے خائف تھے۔ وہ دربار میں پرانے عہدے داروں کی تذلیل کے کئی مناظر دیکھ چکے تھے۔ انگریزوں کے ساتھ سراج الدولہ کے سمجھوتے کے بعد میر جعفر کا اندازہ بھی یہی تھا کہ اقتدار پر نواب کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔

ایک طرف فرانس اور دوسری جانب برطانیہ

یورپ میں بڑھتی ہوئی باہمی مسابقت کی وجہ سے برطانیہ مکمل طور پر فرانس کو بنگال سے نکالنا چاہتا تھا۔ لیکن سراج الدولہ فرانسیسیوں کو اس لیے بنگال میں رکھنا چاہتے تھے کہ وقت پڑنے پر انگریزوں کے خلاف ان سے مدد لی جا سکے۔ لیکن دوسری طرف انہیں مرہٹوں اوراحمد شاہ ابدالی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی مدد کی ضرورت بھی تھی۔

اس لیے سراج الدولہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ لیکن برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی فرانس کو بنگال سے نکالنے کا تہیہ کرچکی تھی۔

سراج الدولہ برطانیہ اور فرانس کی اس کشمکش میں غیر جانب داری کا تاثر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ انگریز فوج کو مارچ 1757 میں چندرناگور کے فرانسیسی قلعے پر چڑھائی سے نہیں روک سکے۔ اس مہم میں کامیابی کے بعد لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ پورے بنگال سے فرانسیسوں کو نکال باہر کریں۔

سراج الدولہ نے پھر ٹال مٹول کی لیکن لارڈ کلائیو مصر رہے اور آخر کار برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ بنگال میں نواب کی تبدیلی کے بغیر فرانس کو بنگال سے بے دخل کرنا ممکن نہیں رہا۔

میر جعفر ہی کیوں؟

کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ کے مصنف کے مطابق لارڈ کلائیو چاہتے تھے کہ بنگال کا حکمران کوئی ایسا شخص بنے جسے دربار اور فوج میں احترام بھی حاصل ہو اور وہ انگریزوں کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتا ہو۔

ڈی سی ورما کی کتاب ’پلاسی ٹو بکسر‘ کے مطابق کلکتہ کے فورٹ ولیم میں بنگال کے نئے حکمران کے لیے جو مشاورت ہوئی اس میں میر جعفر کے نام پر اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ بنگال کے ایک بارسوخ سرمایہ دار اور سراج الدولہ کے سابق وزیر خزانہ جگت سیٹھ نے بھی حکمرانی کے لیے میر جعفر کا نام تجویز کیا تھا۔

ڈی سی ورما کے مطابق انگریزوں کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ سراج الدولہ اپنے دربار میں غیر مقبول ہوچکے ہیں اور کئی اہم لوگ انہیں منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر انگریز حکومت تبدیل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں تو نئی حکومت سے اپنے مطالبات منوانا بھی آسان ہو گا اور ان سے خوب انعام و اکرام بھی حاصل ہو گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments