بنگال کے سپہ سالار میر جعفر نے سراج الدولہ کا ساتھ کیوں چھوڑا؟


مصنف: رانا محمد آصف

کراچی۔ دنیا بھر میں سیاسی رہنما خود کو ہیرو یا اپنے حریف کو ولن ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے کئی مرتبہ تاریخ مسخ بھی ہوجاتی ہے لیکن سیاسی بیانات میں تاریخ کے حوالے بار بار آنے سے ماضی کے کرداروں کو سمجھنے اور ان کی صورت گری کرنے والے تاریخی اسباب جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے سابق وزیر اعظم عمران خان بار بار بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر کی بے وفائی کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی حریف ان بیانات کو فوجی قیادت کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریف شریف برادران کا ان تاریخی کرداروں سے موازنہ کر رہے ہیں۔

حالیہ سیاسی بیانات میں زیر بحث آنے والے سراج الدولہ، میر جعفر کے کردار اس دور میں سامنے آئے تھے جب ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ آنے والا تھا۔

ہندوستان کے بدلتے حالات

سراج الدولہ نے 1756 میں اپنے نانا اور اس وقت کے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے علاقوں پر مشتمل مغل سلطنت کے صوبے کے سربراہ علی وردی خان کی جگہ نواب ناظم کا منصب سنبھالا تھا۔ اس وقت سراج الدولہ کی عمر 27 برس تھی۔

علی وردی خان کے دور میں بنگال ایک خود مختار صوبے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس سے قبل بنگال کے حاکم کا تقرر دہلی کا مغل شہنشاہ کیا کر تا تھا۔ لیکن 1707 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد ان کی جانشینی کے لیے شہزادوں میں ہونے والی باہمی جنگوں کے بعد صوبے مرکزی حکومت کے اثر سے نکلنا شروع ہو گئے تھے۔

کئی علاقوں میں خود مختاری کے لیے کوشاں با اثر منصب دار بھی مغل شہزادوں کے تخت کے لیے تگ و دو کا حصہ بن چکے تھے اور اس کھیل نے صوبائی گورنروں اور درباری دھڑوں کو مزید مضبوط کر دیا تھا۔

اسی لیے مالی اور جغرافیائی اعتبار سے جو صوبہ جتنا اہم ہوتا، اس کی گورنری کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی بنا پر مغل سلطنت میں بنگال کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔

بنگال کی اہمیت

دولاکھ 17 ہزار مربع میل پر پھیلے مغل سلطنت کے بنگال صوبے میں اس وقت بہار اور اڑیسہ کے علاقے بھی شامل تھے۔ یہ خطہ جغرافیائی اور تجارتی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ علاقہ شمال میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور جنوب میں خلیج بنگال کے توسط سے بحر ہند سے جڑا ہوا تھا۔

گنگا اور برہما پتر سمیت کئی چھوٹے بڑے دریاؤں کی وجہ سے اس علاقے کی زمین بہت زرخیز تھی۔ چاول اور گنے کے علاوہ یہاں کپاس کی پیداوار بھی تھی جس کی وجہ سے اس خطے میں کپڑا بنانے کی صنعت عروج پر تھی۔ زرعی اور صنعتی مرکز ہونے کے سبب یہ خطہ بہت خوش حال تھا اور اس کے وسائل کی وجہ سے مغلوں کے لیے اس کی ہمیشہ اہمیت رہی تھی۔

اورنگزیب نے 1697 میں اپنے پوتے اور شاہ عالم اول کے بیٹے شہزادہ عظیم الشان کو بنگال کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ساتھ ہی اپنے ایک درباری معتمد میر قلی خان کو اس صوبے میں دیوان بھی مقرر کیا تھا جنہیں بعد میں مرشد قلی خان کا خطاب ملا۔

دیوان مغل صوبوں کے مالی معاملات کے نگران ہوا کرتے تھے۔ 1719 میں محمد شاہ مغل سلطنت کے فرماں روا بنے تو مرشد قلی خان کو بنگال کا گورنر بنا دیا گیا اورانہیں صوبائی دارالحکومت مخصوص آباد کا نام تبدیل کر کے مرشدآباد رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ یہیں سے بنگال نے ایک خود مختار صوبے کی حیثیت حاصل کرنا شروع کی۔

بنگال میں اقتدار کی کشمکش

تخت نشینی کے جھگڑوں اور مرہٹوں کی مزاحمت کے بعد مغلوں کی مرکزی حکومت اپنی کمزور ہوتی فوجی قوت کے باعث اس بات پر بھی خوش تھی کہ صوبے برائے نام ہی اس سے وفاداری کا دم بھرتے رہیں اور ہر سال قیمتی نذرانے دہلی پہنچاتے رہیں۔

اس حکمت عملی کے تحت مرکزی حکومت نے انتطامی فیصلے اور اختیار بنگال، دکن اور کرناٹک جیسے صوبوں کے گورنروں کے حوالے کردیے تھے جنہیں ’نواب ناظم‘ کہا جانے لگا تھا۔

عام طور پر صوبوں کے گورنر بادشاہ مقرر کرتا تھا۔ لیکن ان صوبوں میں جہاں کے گورنر بڑی حد تک خود مختار ہو چکے تھے، اپنے جانشین بھی خود ہی مقرر کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے مرشد قلی خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نواسے سرفراز خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا اور یہیں سے بنگال میں اقتدار کے لیے محلاتی سازشوں آغاز ہوا۔

سن 1727 میں مرشد قلی خان کا انتقال ہوا تو ان کے خاندان میں اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی۔ پہلے ان کے داماد شجاع الدین ان کے مقرر کردہ ولی عہد اور اپنے ہی بیٹے سرفراز خان کی جگہ نواب بن گئے۔ پھر 1739 میں شجاع الدین کی موت کے بعد بالآخر سرفراز خان بنگال کے حکمران بنے۔ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان بھی اسی دور میں بنگال کے دربار میں ایک با اثر شخصیت بن چکے تھے۔

سرفراز خان ایک نا اہل حکمران ثابت ہوئے اور 1740 میں علی وردی خان نے ان کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ علی وردی خان کے بعد بنگال سیاسی طور پر آزاد ہو گیا اور انہوں ں ے مغلوں کو سالانہ بھاری نذارنے بھجوانا بھی بند کردیے۔

اقتدار کے نئے حصے دار

سولہویں صدی کے آغاز میں نئے نئے بحری راستوں کی دریافت زور پکڑ گئی تھی۔ ساتھ ہی یورپی قوتوں میں بین الاقوامی بحری گزر گاہوں پر زیادہ سے زیادہ اختیار اور عالمی تجارت میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی دوڑ بھی شروع ہو چکی تھی۔ علی وردی خان نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک بنگال برصغیر میں یورپی نوآبادیاتی قوتوں کی اس مسابقت کا میدان بن چکا تھا۔

ہندوستان کے مغربی ساحل پر پرتگالی گوا میں قدم جمانے کے بعد 1578 میں شہنشاہ اکبر کی اجازت سے اپنی تجارت کا دائرہ بنگال میں دریائے ہوگلی تک پھیلا چکے تھے۔ 1600 میں قائم ہونے والی برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی 1612 تک گجرات کی بندرگاہ سورت کے علاقے میں تجارتی مرکز بنا چکی تھی اور شاہ جہاں کے دربار سے اجازت نامے ملنے کے بعد کمپنی نے بھی مسولی پٹم اور مدراس کے بعد 1651 میں ہوگلی میں بھی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا۔

یورپی مارکیٹ میں بنگال کے کپڑے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے ولندیزی (ڈچ) اور فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنیاں بھی بنگال کا رخ کر رہی تھیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اورنگزیب کے پوتے اور بنگال کے حاکم شہزداہ عظیم کے دور میں کلکتہ میں فورٹ ولیم بنانے کی اجازت بھی حاصل کرچکی تھی اور بعد میں یہ قلعہ ایک درس گاہ بنا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دیگر یورپی سوداگر اب صرف تجارت ہی میں ایک دوسرے سے مسابقت نہیں کر رہے تھے بلکہ قلعہ بندیوں کے بعد ان میں فوجی قوت بڑھانے کی دوڑ بھی شروع ہو چکی تھی اور انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومت میں اپنا رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

ہندوستان کی سیاست میں یورپ کی مداخلت

یورپ میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان جاری چپقلش کے اثرات ہندوستان بھی پہنچ گئے تھے۔ اور جنوبی ہندوستان میں فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں اور فوج ں ے برطانوی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

ان جھڑپوں میں کرناٹک کے گورنر نے فرانس کے مقابلے کے لیے برطانیہ کی حمایت میں اپنی فوج اتاری لیکن اسے پسپا ہونا پڑا۔ 1748 تک اگرچہ بھارت میں فرانس اور برطانیہ کے تعلقات معمول پر آ گئے تھے لیکن کرناٹک کے تجربے کے بعد فرانس اور برطانیہ نے ہندوستان کی اندرونی سیاسی دھڑے بندیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔

حیدرآباد بھی اس وقت ایک آزاد حیثیت اختیار کرچکا تھا اور وہاں نظام الملک کے بیٹے ناصر جنگ اور پوتے مظفر جنگ میں اقتدار کے لیے لڑائی زور پکڑ گئی تھی۔ فرانس نے حکمرانی کی اس کشمکش میں اپنی مرضی کے حاکم لانے کی کوشش کی تو اس کے دیکھا دیکھی برطانیہ نے بھی کرناٹک میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران فرانس اور برطانیہ بنگال میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔

علی وردی کی جانشینی

علی وردی خان بنگال کی حکمرانی کو اپنے خاندان میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے انہوں نے اپنی موت سے تین برس قبل ہی اپنی چھوٹی بیٹی کے فرزند اور اپنے نواسے مرزا محمد کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

یہی مرزا محمد ہیں جنہیں اپنے خطاب ’سراج الدولہ‘ سے شہرت حاصل ہوئی۔ علی وردی خان کی دیگر بیٹیوں اور ان کی اولاد کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت فطری تھی۔ اس مخالفت کے پیش نظر علی وردی خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دربار کے تین سب سے وفادار اور طاقت ور افراد کو سراج الدولہ کی مدد کرنے پر مامور کر دیا تھا۔

ان تین با اثر عہدے داروں میں سب سے پہلے بنگال کی فوج کے کمانڈر ان چیف میر جعفر تھے۔ وہ علی وردی خان کے قابل اعتماد ساتھی اور ان کی سوتیلی بہن کے شوہر بھی تھے۔ علی وردی خان نے اپنے وزیر اعظم درلبھ رائے اور دربار سے وابستہ سرمایہ دار اور وزیر خزانہ جگت سیٹھ سے بھی اپنے جانشین سراج الدولہ کی وفاداری کا عہد لے لیا تھا۔

سراج الدولہ کو جانشین مقرر کرنے پر علی وردی خان کی بڑی بیٹی گھسیٹی بیگم اور دیگر بیٹیوں اور ان کی اولاد نے کھل کر مخالفت کی۔ علی وردی خان نے سراج الدولہ کے تخت کے ان دعوے داروں کے ساتھ مفاہمت کی کوشش بھی کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سراج الدولہ نے ایک ایک کر کے اپنے سارے مخالفین کو پسپا کر دیا۔ علی وردی خان کے تینوں وفادار ساتھی ان کوششوں میں سراج الدولہ کے ساتھ رہے۔ لیکن بعد میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ انہی تینوں وفاداروں نے سراج الدولہ کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا جس میں مرکزی کردار میر جعفر نے ادا کیا۔

سراج الدولہ کے نانا کی پیش گوئی

پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے بیٹے اور اس تاریخ کے اہم کردار میر جعفر کے خاندان کے فرد مرزا ہمایوں اپنی کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ میں اس دور کے مؤرخین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ بہت جذباتی اور غیر مستقل مزاج شخصیت تھے۔

سراج الدولہ کے اپنے عزیز اور مؤرخ غلام حسین خان کا یہ بیان بھی تاریخی کتب میں موجود ہے کہ پل میں تولا، پل میں ماشہ ان کی شخصیت کی وجہ سے لوگ بہت جلد ان سے فاصلہ اختیار کر رہے تھے۔

علی وردی خان کو بھی اپنے نوجوان نواسے کی شخصیت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ لیکن اب ان کے پاس اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ 10 اپریل 1756 کو 82 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن اپنی موت سے چند روز قبل ہی انہوں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ ان کی موت کے بعد جب سراج الدولہ بنگال کا حکمران بنے گا تو ہندوستان کے ساحلوں پر ہیٹ والوں (یعنی یورپیوں ) کی حکومت قائم ہو جائے گی۔

سراج الدولہ کی حمایت میں کمی

ہمایوں مرزا کے مطابق سراج الدولہ نے کم عمری میں نواب ناظم کا عہدہ سنبھالا تو انہیں سب سے پہلے جانشینی کے لیے اپنے ہی رشتے داروں سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ اس وجہ سے ان کے مزاج میں بہت زیادہ سختی آ گئی تھی۔ انہیں میر جعفر، جگت سیٹھ اور رائے درلبھ جیسے اپنے نانا کے وفادار ساتھیوں کی پوری حمایت تو حاصل تھی لیکن نانا کی موت کے بعد وہ اقتدار سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہو گئے تھے اور اپنے وفاداروں ہی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔

جنگ پلاسی سے متعلق 1975 میں بھارت سے شائع ہونے والی ڈی سی ورما کی کتاب ’پلاسی ٹو بکسر‘ میں لکھا ہے کہ سراج الدولہ اڑیسہ میں اپنے خالہ زاد شوکت جنگ کی بغاوت کچلنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ لیکن انہیں شک تھا کہ اس بغاوت کے لیے سرمایہ ان کے وزیر خزانہ جگت سیٹھ نے فراہم کیا تھا۔ اس لیے سراج الدولہ نے بھرے دربار میں جگت سیٹھ کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا تھا۔

اس رویے کی وجہ سے سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کے دور کے درباریوں کو مسلسل اپنی معزولی اور جان کا خوف پیداہوگیا تھا۔ ان خدشات نے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا جو محلاتی سازشوں کے لیے ساز گار ہوتا ہے۔

جگت سیٹھ کو اپنی جان کے ساتھ ساتھ سرمائے کی بھی فکر تھی۔ اس لیے انہوں نے سراج الدولہ کا تختہ الٹنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس منصوبے میں کامیابی کے لیے جگت سیٹھ کو انگریزوں کا ساتھ درکار تھا۔ لیکن وہ کسی موقعے کی تلاش میں تھے کہ سراج الدولہ نے خود ہی یہ موقع فراہم کر دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments