بنگال کے سپہ سالار میر جعفر نے سراج الدولہ کا ساتھ کیوں چھوڑا؟


خفیہ ملاقاتوں کا آغاز

لارڈ کلائیو نے اس منصوبے کے لیے سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر سے ایک تحریری معاہدے کا مسودہ بھی تیار کر لیا تھا۔ دارالحکومت مرشد آباد میں لارڈ کلائیو کی جانب سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک نمائندے مسٹر واٹس میر جعفر سے خفیہ مذاکرات شروع کرچکے تھے۔

ان مذاکرات میں میر جعفر نے حکومت میں آنے کے بعد بنگال سے تمام فرانسیسی کمپنیوں کے خاتمے کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ میر جعفر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سراج الدولہ سے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی، فورٹ ولیم میں بنگال کی حکمرانی کے لیے میر جعفر کا نام تجویز کرنے والی کمیٹی کے ہر رکن کو 12 لاکھ روپے اور برطانوی فوج کو 40 لاکھ روپے دینے کی شرط بھی تسلیم کرلی تھی۔

معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ میر جعفر نواب بنتے ہی بنگال میں تمام فرانسیسی کارخانے اور املاک برطانیہ کے حوالے کردیں گے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کو کلکتہ میں زمین داری کے لیے اراضی خریدنے کی اجازت بھی دیں گے اور جو برطانوی فوجی نواب کی حفاظت کریں گے ان کا معاوضہ بھی نواب کے ذمے ہو گا۔

سپہ سالار کی غیر جانب داری

میر جعفرانگریزوں سے معاہدے پر رضا مند تو ہو گئے تھے لیکن انہیں ابھی بھی لارڈ کلائیو پر پوری طرح اعتبار نہیں تھا۔ اس لیے وہ معاہدے پر دستخط سے پہلے پس و پیش کا شکار تھے۔

ڈی سی ورما کی کتاب ’پلاسی ٹو بکسر‘ اور ہمایوں مرزا کی کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ کے مطابق انگریز نمائندے واٹس نے لارڈ کلائیو کو میر جعفر سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں تین جون 1757 کو جو رپورٹ ارسال کی اس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک کی بات چیت سے ہم یہی توقع کر سکتے ہیں کہ سراج الدولہ سے جنگ کی صورت میں کمانڈر انچیف میر جعفر اور ان کے ساتھی غیر جانب دار رہیں گے۔

مسٹر واٹس نے اس کی یہ وضاحت بھی کی تھی کہ میر جعفر اس بات کے لیے رضا مند ہیں کہ اگر برطانیہ نواب کے خلاف کامیاب ہوا تو یہ اس کامیابی میں حصے دار ہوں گے اور ناکامی ہوئی تو یہ ظاہر کریں گے ان کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

سراج الدولہ کو سازش کا علم ہو گیا

سراج الدولہ کو اپنے اور فرانس کے جاسوسوں کے ذریعے انگریزوں اور میر جعفر کے درمیان جاری بات چیت کا علم ہو گیا تھا۔ اس لیے نواب نے میر جعفر کو معزول کر کے گرفتار کرنے کے لیے اپنے اہل کار روانہ کردیے۔

میر جعفر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے خود کو اپنے گھر میں محصور کر لیا اور ان کے سپاہیوں ں ے نواب کے اہلکاروں کو مار پیٹ کر واپس بھیج دیا۔

یہ سراج الدولہ کے لیے بڑا دھچکہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ہی دارالحکومت میں اب کسی حکومتی اہل کار کو گرفتار بھی نہیں کر سکتے تھے۔

سراج الدولہ کو سازش کا علم ہونے کے بعد میر جعفر نے مرشد آباد میں انگریز نمائندے مسٹر واٹس کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔

پانچ جون 1757 کو واٹس نے لارڈ کلائیو کا تیار کردہ معاہدے کا مسودہ خفیہ طور پر میر جعفر کی رہائش گاہ پر پہنچایا جس پر انہوں نے دستخط کردیے۔ 12 جون 1757 کو واٹس اور دیگر انگریز خاموشی کے ساتھ مرشد آباد سے فرار ہو گئے جس کے بعد سراج الدولہ کو یقین ہو گیا کہ اب انگریز جنگ سے نہیں ٹلیں گے۔

سراج الدولہ کو یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں کہ ہوگلی سے انگریز فوج مرشد آباد کی جانب روانہ ہو چکی ہے۔

ہمایوں مرزا کے مطابق گرفتاری میں ناکامی کے بعد سراج الدولہ نے میر جعفر اور درلبھ رائے کو معطل کر دیا تھا۔ لیکن انگریزوں کی پیش قدمی کی وجہ سے اس نے ایک بار پھرانہیں مفاہمت کا پیغام بھیجا۔

ڈی سی ورما اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ نے اپنے کمانڈر میر میدان کے اصرار کے باوجود ایک بار پھر میر جعفر کو فوج میں شامل کر لیا۔ میر جعفر نے قرآن پر عہد کیا کہ وہ نواب کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ یہ یقین دہانی ہونے کے بعد سراج الدولہ نے انگریزوں سے مقابلے کے لیے اپنی فوج مرشد آباد سے 23 میل جنوب میں پلاسی کے مقام پر جمع کرنا شروع کردی۔

سراج الدولہ کی فوج میں اس وقت 15 ہزار سوار، 35 سو پیدل فوجی اور فرانسیسوں سے حاصل کی گئی 40 توپیں بھی شامل تھیں۔ جب کہ مختلف دعوؤں کے مطابق لارڈ کلائیو کی سربراہی میں مرشدآباد کے لیے آنے والی فوج میں 2100 ہندوستانی اور 800 یورپی فوجی اور توپ خانہ شامل تھا۔

ہوگلی سے نکلنے کے بعد راستے میں لارڈ کلائیو قاسم بازار اور کٹوا کے قلعے میر جعفر سے ہونے والی ساز باز کے مطابق بغیر کسی مزاحمت کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔

میر جعفر نے اس دوران لارڈ کلائیو کو پلاسی پہنچنے سے چار پانچ دن پہلے ایک خط بھی بھجوایا جس میں بہت مبہم انداز میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نواب سے مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے معاہدے سے پھر گئے ہیں۔

جنگ پلاسی

لارڈ کلائیو کی سربراہی میں برطانوی فوج 22 جون کی شام پلاسی پہنچ چکی تھی۔ اگلے ہی دن 23 جون 1757 کو اس جنگ کا آغاز ہوا جسے ’جنگ پلاسی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت کی بنیاد رکھی۔

جنگ کے آغاز ہی میں سراج الدولہ نے توپ خانے کا استعمال کیا لیکن یہ توپ خانہ زیادہ دور تک مار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے مخالف لشکر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے علاوہ میدان میں ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی بے نتیجہ رہیں۔

’پلاسی ٹو بکسر‘ کے مصنف کے مطابق اگلے روز ہونے والی شدید بارش نے جنگ کی کایا پلٹ دی۔ برطانوی توپ خانے کے اہل کاروں نے بارش شروع ہوتے ہی اسلحہ بارود ترپالوں سے ڈھانپ دیا تھا لیکن سراج الدولہ کی فوج کے پاس اپنے گولہ بارود کو برسات سے محفوظ بنانے کا انتظام ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کا توپ خانہ ناکارہ ہو گیا۔

برسات کچھ تھمی تو سراج الدولہ کی فوج نے پیش قدمی شروع کی۔ انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ بارش کی وجہ سے انگریزوں کا اسلحہ بارود بھی بھیگ کر ناکارہ ہو چکا ہے۔ لیکن وہ جیسے ہی آگے بڑھے تو لارڈ کلائیو کے توپ خانے نے آگ برسانا شروع کردی۔

اس بھاری گولہ باری سے سراج الدولہ کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ میر جعفر سراج الدولہ کی فوج کے ایک تہائی حصے کے کمانڈر تھے جس میں گھڑ سواروں کے دستے بھی شامل تھے۔ لشکر کی پیدل صفوں کے قدم اکھڑنے کے بعد سراج الدولہ کو توقع تھی کی اب ان کے کمانڈر میر جعفر گھڑ سوار دستے میدان میں اتاریں گے۔ لیکن گولہ باری سے پیادہ فوج کی پسپائی کے بعد میر جعفر نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

عین جنگ میں ایک تہائی فوج کے قدم پیچھے ہٹانے کی وجہ سے سراج الدولہ کی فوج بددل ہو گئی اور انگریز فوج نے اسے تین طرف سے گھیرلیا۔ اس حملے میں مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق سراج الدولہ کی فوج کے 500 سے 1500 فوجی مارے گئے جب کہ انگریزوں کا جانی نقصان 100 سے بھی کم تھا۔

یہ صورت حال دیکھ کر سراج الدولہ میدان جنگ سے مرشد آباد فرار ہو گئے۔ لیکن کچھ دنوں بعد انہیں گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا اور میر جعفر کو باضابطہ طور پر بنگال، بہار اور اڑیسہ کا نواب بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔

ایسٹ انڈیاکمپنی کے اقتدار کا آغاز

سیکھر باندوپادھیائے کی کتاب ’پلاسی ٹو پارٹیشن‘ کے مطابق بنگال کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد ہندوستان میں فرانس کی قوت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس کامیابی کے بعد سلطنت برطانیہ نے لارڈ کلائیو کو بنگال کا گورنر مقرر کر دیا اور یوں ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی حکمرانی کا آغاز ہوا۔

ہمایوں مرزا لکھتے ہیں کہ پلاسی میں فتح کے بعد جب 29 جون 1757 کو میر جعفر کی باقاعدہ تاج پوشی کی رسم ہوئی تو لارڈ کلائیو بھی اس میں شریک تھے۔ رسم تاج پوشی میں میر جعفر مسند کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے تو لارڈ کلائیو نے آگے بڑھ کر انہیں بازو سے پکڑا اور تخت پر بٹھا دیا۔ یہ میر جعفر کے لیے اشارہ تھا کہ ان کا تاج و تخت لارڈ کلائیو کے ہی مرہون منت ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو انگریزوں کی مرضی کے احکامات دینے اور ان پر عمل درآمد کے لیے منصب پر بٹھایا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب لارڈ کلائیو کو پتا چلا کہ میر جعفر نے ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ خفیہ تجارتی معاہدہ کر لیا ہے تو 1760 میں میر جعفر کو ان کے داماد میر قاسم کے حق میں دست بردار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ لیکن کمپنی میر قاسم کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہیں چل سکی اور 1763 میں دوبارہ میر جعفر کو بحال کر دیا۔ اس دوبارہ بحالی کے بعد میر جعفر 5 فروری 1765 کو اپنی موت تک اس منصب پر فائز رہے۔

آج بھی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں میر جعفر کو غداری اور بے وفائی کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے مصنف ہمایوں مرزا میر جعفر کے اقدامات کو سراج الدولہ کی بے وفائی کا نتیجہ اور حالات کا جبر قرار دیتے ہیں۔

[اس تحریر کے لیے ہمایوں مرزا کی کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ ، سیکھر باندیو پادھیائے کی کتاب ’پلاسی ٹو پارٹیشن‘ ، ڈی سی ورما کی کتاب ’پلاسی ٹو بکسر‘ اور مختلف ویب سائٹس سے معلومات لی گئی ہیں ]

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments