گناہگاروں کی ماں


ماں کا لفظ سنتے ہی انسان محبت کی چھاؤں میں آ جاتا ہے، آپ بیمار ہیں تو خواہش ہوتی ہے کہ ماں پاس ہو تو یہ تکلیف غائب ہو جائے گی، بھوک لگ رہی ہو تو چاہتے ہیں کہ ماں کہ پاس پہنچیں اور ماں کے ہاتھ کے مزے مزے کے کھانے کھائیں ماں کے لفظ کے ساتھ محبت اور دعا دونوں جڑے ہیں، ماں کوکھ سے اپنی اولاد کے لیے قربانی دینا شروع کرتی ہے، نو ماہ جب آپ ایک جان کو اپنے اندر پالتے ہیں تو دن رات موت کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں، کسی بھی لمحے ذرا سی غفلت آپ کو اور بچے کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے اور کسی بھی وقت آپ کسی بھی طبی مسئلے کی وجہ سے اپنا بچہ ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں پھر جب اس جان کے دنیا میں آنے کا موقع آتا ہے تو درد اور تکلیف میں مبتلا ماں زندگی اور موت کی جنگ لڑتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں ماں کی فضیلت کے قصے تو بہت بیان کیے جاتے ہیں لیکن جب حمل اور زچگی کا ذکر آتا ہے تو ہم خواتین کو یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ حمل اور زچگی ایک معمولی سی بات ہے اور دیہات میں خواتین تو کھیت میں فصل کاٹتے ہوئے ایک طرف جا کر بچہ پیدا کر کے خود ہی اس کی ناف کاٹ کر آ کر دوبارہ فصل کاٹنا شروع کر دیتی ہیں اس نے جس المیے کو جنم دیا ہے وہ ماں اور بچے کی اموات کی پاکستان میں خطرناک حد تک زیادہ شرح سے واضح ہے۔

اس کے ساتھ ہی بغیر پلانگ کے بچوں کی پیدائش اور اپنی آمدنی سے زیادہ بچوں کی خواہش جہاں پاکستان میں آبادی کا بم بن کر ظاہر ہو رہی ہے وہاں بیٹیوں کی جگہ بیٹوں کی خواہش بھی بے شمار مسائل کا سبب بن رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سیف ابارشن کی سہولیات کی عدم دستیابی ایسے بچوں کی پیدائش کا موجب ہے جن کا وجود گناہ کی پیداوار سمجھا جاتا ہے اور اس دنیا کے لیے unwanted children کا نام دے کر ان کو عذاب کا موجب سمجھا جاتا ہے یہ بچے کبھی گندے نالوں میں، کبھی کچرے کے ڈھیر میں، کبھی پلاسٹک کی تھیلی میں، کبھی کتے کے منہ میں ملتے ہیں اور کبھی غربت سے تنگ آئی ماں یا باپ کے ہاتھوں زہر کھاتے ہیں ایسا معاشرہ جہاں کے جج خلع کے مقدمے میں شوہر کو طعنہ ماریں کہ ”اگر دوران شادی آپ اس (بیوی ) کی ٹانگیں نیچے نہ آنے دیتے تو یہ آج جانے سے انکار نہ کرتی“ وہاں کی 99 فیصد خواتین کو اپنے جسم اور جسم میں پرورش پانے والے وجود پر کتنا اختیار ہو گا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے عورت کو دیکھ کر اس کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش تو ابھرتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والا بچہ گناہ کی نشانی بنا دیا جاتا ہے نہ ہی ہم مردوں کو سیف سیکس سیکھا سکے اور نہ ہی عورتوں کو سیف ابارشن کی سہولت دے سکے اور یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں آج بھی امریکہ میں خواتین سیف ابارشن کے حقوق ختم کیے جانے کے خلاف سینہ سپر ہیں۔

اس دکھ بھری زندگی میں بچے امید کی کرن ہیں لیکن یہ بچے بوجھ سمجھے جاتے ہیں جن کو ان کے اپنے موت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ رشتہ جو ہر دکھ کے آگے بند باندھ دیتا ہے ان سے منہ پھیر لیتا ہے ایسے بچوں کو زندگی دینے والی خاتون بلقیس ایدھی تھیں جنہوں نے ان بچوں کی ماں کا فرض نبھایا جن کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی۔

8 مئی کو ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر دن
Asia Oceiana Post doctoral Academia اور SAARC ASEAN Post doctoral Academia
نے بلقیس ایدھی کو ”Epitome of motherhood“ اور ”انسانیت کی ماں“ جیسے خطابات سے نوازا۔ یہ اعزاز بلقیس ایدھی کو دیے جانا ان اعزازات کے لیے باعث فخر ہے۔

مدر ڈے 2022 کا AOPDA کا اس اعزاز کے ساتھ جاری کیا گیا پیغام بلقیس ایدھی کی جدوجہد کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے جس میں انہوں نے لکھا ”نہ ہی یہ کوئی عام بات ہے اور نہ ہی یہ کوئی معمول کی خاص بات ہے کہ ایک انسان تاریخ کو تقسیم کر دے۔ لیکن اب نومولودوں کی نسل کشی کے سلسلے میں مستقبل کا تاریخ دان تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کرے گا ایک بلقیس ایدھی سے پہلے کا عہد اور ایک بلقیس ایدھی کے بعد کا عہد اور یہ بہت ہی کم ہوتا ہے یہاں تک کے ہمیں صدیوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب اس جہدوجہد کی پوری عمارت اس بنیاد پر قائم ہو گی اور یہ جنگ اس بنیاد ہر پڑی جائے گی جس کی بنیاد بلقیس ایدھی نے رکھی جو کہ ان چاہے بچوں کی محافظ ماں ہیں“ ۔

1965 میں عبدالستار ایدھی سے شادی کے بعد بلقیس ایدھی نے عبدالستار ایدھی کا بھرپور ساتھ دیا اور ایک ایمبولینس سے شروع ہونے والی فاؤنڈیشن کو دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس میں بدل دیا ہر غریب کو اپنے پیارے کو ہسپتال لے جانے یا اس کی میت کو گھر لے جانے کے لیے صرف ایک نام یاد رہتا ہے ایدھی ایمبولینس اور جب نالوں میں، بیابانوں میں مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، بوریوں میں بند لاشوں کو دیکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے ایدھی فاونڈیشن کو فون جاتا ہے کہ ان لاوارثوں کے وارث ایدھی کو بولاؤ اس میں کئی بار ان چھوٹے بچوں کی لاشیں بھی ایدھی صاحب نے اٹھائیں جن کو کوڑے کے ڈھیر کتوں کے بھنبھوڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا یا کبھی نالے میں پھینک دیا گیا یا تھیلی میں بند کر دیا گیا شومئی قسمت کبھی کبھی سانس چلتی بھی ملتی کہ غریب کی چلتی سانس بھی اس کے لیے عذاب سے کم نہیں۔

ان بدقسمت بچوں کی جان بچانے کے لیے ایدھی صاحب ہر وقت اپنے جادوئی تھیلے میں جس میں سے انسان کو بچا لینے کی ہر چیز برآمد ہوتی، دودھ کا پاؤڈر اور پانی والا فیڈر پاس رکھتے یہ بلقیس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ بطور ماں ان کا خیال تھا کہ پھینک دینے کے بعد بچائے جانے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے زیادہ تر ننھی منی کٹی بھٹی لاشیں بن چکے ہوتے ہیں اس لیے کوئی ایسا بندوبست کرنا چاہیے کہ وہ بدقسمت جن کی یہ اولاد ہیں، ان کو پھینکنے کی بجائے بغیر کسی بدنامی کے خوف کے  بلقیس ایدھی کے حوالے کر دیں اور یوں 1990 میں جھولا معرض وجود میں آیا۔

بلقیس ایدھی نے ہر ایدھی سینٹر کے باہر ایک جھولا رکھ دیا۔ پورے پاکستان میں اعلان کیا کہ آپ اپنے بچوں کو مارنے کی بجائے اس جھولے میں ڈالیں اور زندہ رہنے کے لیے ایدھی کو دے دیں اس کی سب سے انوکھی بات تھی کہ چھوڑ کے جانے والے سے کوئی سوال جواب نہیں کیا جائے گا کیونکہ بلقیس تو صرف بچوں کو بچانا چاہتی تھیں ان کو کسی کے گناہ ثواب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

پورے پاکستان سے بلقیس ایدھی کے اوپر فتوی جاری ہوئے کہ گناہ کی نشانی کو بچانا چاہتی ہیں اور اس طرح ملک میں ناجائز تعلقات کو بڑھاوا دے رہی ہیں، اس گناہ کی پوٹلی کو زندہ رکھ کے معاشرے میں واپس داخل کرنا چاہتی ہیں۔ ان فتوؤں کی لپیٹ میں ایدھی صاحب بھی آئے لیکن انہوں نے نہ صرف بلقیس کا حوصلہ بڑھایا بلکہ بڑے فخر سے بلقیس ایدھی کے ساتھ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جھولا سامنے رکھ کے تصویریں کھنچوائیں، انٹرویو دیے اور پورے پاکستان کے ایدھی سینیٹر کو جھولا رکھنے اور بچہ ملنے کی صورت میں بلقیس ایدھی کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔

وہ دن اور آج کا دن 42000 بچوں کی جان ان جھولوں نے بچائی اور وہ بچے الگ ہیں جن کو ان کے ماں باپ غربت سے تنگ آ کر مارنے کی بجائے بلقیس ایدھی کو دے گئے۔ ایدھی کا پیغام ہر جگہ پہنچا کہ ماریں نہیں ایدھی کو دیں۔ وہ مائیں جن کو ان کے خاوندوں نے ایک اور لڑکی ہونے کی صورت میں گھر نہ آنے کی دھمکی دی انہوں نے اپنی بیٹیوں کے لیے پناہ بلقیس ایدھی کے پاس ڈھونڈی۔

15 اپریل 2022 کو جب بلقیس ایدھی نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کیں تو ہمارے پارسا معاشرے کے ان سب گناہگاروں کی ”ممی“ چھن گئی وہ غریب جو ایدھی صاحب کے جانے کے بعد یتیم ہو گئے تھے اور انہوں نے بلقیس ایدھی کے آنچل میں پناہ ڈھونڈ لی تھی ایک بار پھر کڑی دھوپ کے اندر بے سایہ ہو گئے۔ مسکینی کا دکھ کڑا ہے لیکن ہم فیصل ایدھی کی صورت میں بلقیس اور ایدھی کو آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس امید کی ساتھ کے آنے والے وقتوں میں بھی معصوم بچوں کے لیے ایدھی کا جھولا سلامت رہے گا یہ مدرز ڈے اور آنے والا ہر مدرز ڈے بلقیس ایدھی کے نام رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments