چوتھا خط ایک بہن کا بھائی کے نام


میرے دوست، میرے ماں جائے!

کیسے شروع کروں اور کیا لکھوں؟ کبھی کبھی انسان بہت کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن زبان پر تالا لگ جاتا ہے اور حرفوں کو قلم میں پرونے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا۔ اور یوں ان کہی کا بھگتان سبھی کو سہنا پڑتا ہے : جو کہنا چاہتا ہے، اسے بھی اور جسے بتانے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے بھی۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ میں مزاجاً کیسی رف ٹف اور سنکی ہوں۔ جذبوں کو محسوس تو کرتی ہوں لیکن اظہار سے کوسوں دور رہتی ہوں۔ لیکن اس دفعہ آپ کی مجبور محبت اور میری خود غرضی نے بولنے پر اکسایا ہے۔

آپ آج آئے اور مجھے عیدی دے گئے۔ جسے میرے سارے سسرال نے دیکھا۔ جو نہیں دیکھ سکے، انھوں نے پوچھا۔ اور میں بھی سر اونچا کر کر کے سب کو بتاتی رہی کہ میرا بھائی مجھے عید کی سوغاتیں دینے کو اتنی دور سے صرف دو گھنٹے کے لئے روزے کی حالت میں آیا ہے۔ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ ہر دفعہ اتنے کشت کر کے آتا ہے اور میرے فخر کا باعث بنتا ہے۔ اور اگر نہ آئے تو میری توقعات مجروح ہوتی ہیں۔ دل میں خفگی جنم لیتی ہے کہ میرا بھائی اتنا مصروف ہے کہ کسی خاص موقع پر مجھے ملنے ہی نہیں آ پاتا۔

شاید وقت کی دوڑ نے اس کے دل سے میری یاد بھلا دی ہے (حالانکہ پورا سال وہ وقتاً فوقتاً ملنے آتے رہتے ہیں۔ اگرچہ لمبا رکتے نہیں لیکن آتے ضرور ہیں۔ تحفے تحائف لانا تو ایک معمول ہے ) ۔ بھائیوں کو اتنا حق تو ادا کرنا چاہیے۔ میں تو ویسے بھی اتنی کم ڈیمانڈنگ ہوں تو کیا میرا اتنا حق نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود جب ادھر میں بے یقین ہو رہی ہوتی ہوں، تو آپ جاتے ہیں، بھلے گھڑیاں مختصر ہی ہوں۔

آج سارا دن آپ کا آنا اور عیدی میرے پورے گھر میں موضوع گفتگو بنی رہی۔ اور میں آسمانوں پر اڑتی رہی۔ کہ دیکھو میرے گھر والے کتنے چاہنے والے ہیں؟ امی، ابو کے علاوہ اکلوتا بھائی بھی کیسا ہیرا ہے؟ انھی خوش خیالوں میں گم تھی کہ آٹھ سالہ بیٹی میرے ساتھ آ کر لیٹ گئی اور اپنے ماموں کے لائے کپڑے، کھلونے پھر اٹھا اٹھا کر دیکھنے اور دکھانے لگی۔ خوشی اس کے ہر انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ جو اس کی باتوں، تاثرات اور ہنسی سے عیاں تھی۔

اسی دوران کھیلتے ہوئے وہ پوچھتی ہے۔ مما! آپ نے ماموں کو عیدی دے دی؟ میں حیرانی سے اپنی طرف اشارہ کرتی ہوں۔ جس پر وہ کہتی ہے نہیں دی تو آپ کب دیں گی؟ مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔ تب مجھے لگا کہ میری بیٹی سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں۔ بھلا بہنیں بھی بھائیوں کو عیدی دیتی ہیں؟ دینے کی ذمہ داری تو بس باپ، شوہر اور بھائی کی ہوتی ہے۔ بھلے عید ہو یا شب رات۔ ہمیں تو بچپن سے یہی سکھایا جاتا ہے۔ یہی بولا جاتا ہے۔ اور عموماً ایسے ہی ہوتا دیکھا ہے۔ یہ بزرگوں کی روایت ہے۔ میری بیٹی تو جھلی ہے۔

بھائی! اس وقت تو میں نے بیٹی کو وہی کہا جو مجھے سالوں سے کہا جاتا رہا۔ لیکن بعد میں اس کا بے ضرر سوال میرے لئے خود شناسی کے کئی در کھول گیا۔ سحری کے لئے بستر سے اٹھی تو جسم، ہاتھ اور پاؤں تو لوازمات بنانے میں مصروف تھے۔ لیکن دماغ اسی غیر ضروری سوال کی طرف لگا تھا۔ آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ امی ابو کے عیدی بھجوانے کے باوجود آپ الگ سے ہر دفعہ تحفے تحائف کیوں دینے آتے ہیں؟ اور میں سارا سال لینے والی سائیڈ پر کیوں رہتی ہوں؟ آپ دے کے بھی خطا وار ہوتے ہیں اور میں لے کے بھی ہر چیز سے مبرا۔

بھائی! مجھے آج پہلی دفعہ خیال آیا ہے کہ میرا اکلوتا بھائی کس طرح چار بہنوں کے مان ہر ممکن پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مولا! آپ کی کشادگی سلامت رکھے۔ آپ کو صحت والی لمبی حیاتی دے۔ آپ کے خیال کو باقی رکھے۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر سال، پوری زندگی آپ کو کبھی معاشی تنگی یا جسمانی عارضوں سے واسطہ نہ پڑے۔ لیکن آپ نے تو مجھے اس کی حدت ہی محسوس نہیں کروائی۔ ایک لمحے کو جب میں نے سوچا کہ کل کو میرے بیٹے اس مہنگائی کے دور میں یہ سب کچھ کریں گے۔ تو یقین مانیں میرا دل بہت پریشان ہوا۔ اور میرے دھیان میں تو وہ سب باپ اور بھائی بھی آ رہے ہیں جو کمزور ہیں لیکن انھیں معاشرے کے منہ دکھاوے کو ہر تہوار ایک بوجھ کی طرح برتنا پڑتا ہے۔

کچن میں پراٹھے، چپاتی، لسی اور آملیٹ کی ملی جلی خوشبوئیں پھیلی ہیں۔ کچن کی کھڑکی سے رات کی تاریکی صبح کی آنے والی روشنی کو جگہ دینے کو بہت آہستہ آہستہ چھٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔ مساجد کے اسپیکرز سے نعتوں، تلاوت اور جلد بیدار ہونے کے اعلانات کی آوازیں آ رہی ہیں۔ لیکن یہ آوازیں میرے اندر سے اٹھنے والی ان آئینہ دکھاتی آوازوں میں دب رہی ہیں جو یہ پوچھتی ہیں کہ تم اپنے بھائی کے ہاں سال میں کتنے چکر لگاتی ہو؟ اب تک کی چالیس سالہ زندگی میں کتنی بار اپنے بھیا کو عیدی دینے گئی ہو؟ کجا کبھی کوئی تحفہ ہی بھیجا ہو؟ وقت کی کمی، خرچوں میں اضافہ، مصروفیت کا رونا اور خاص طور پر وصول کرنے کی عادت نے تصویر کے دوسرا رخ میں کبھی آپ کو دیکھنے ہی نہیں دیا۔ آپ کو انسان کے طور پر جگہ دینے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔

بھائی! ہم نے بڑا غلط کیا۔ محبت کی روایتوں کو اپنے آپ پر فرض اور واجب سے زیادہ لاگو کر لیا۔ اور خلوص کی نشانیوں کو گلے کا طوق بنا لیا۔ خون اور ساتھ کے بے غرض تعلقات کو توقعات اور غرض سے وابستہ کر لیا۔ تحفہ دینا ہمارے نبی ﷺ کی سنتوں میں سے ایک ہے۔ اللہ کرے یہ طریقے برقرار رہیں لیکن یک طرفہ نہ ہوں۔ اتنے مشروط نہ ہوں کہ ملنے اور ایک دوسرے کے ہاں جانے سے پریشانی ہو۔ ایسے مصنوعی، بھاری اور پر تکلف نہ ہوں کہ کھانے کی دعوت کرنا پہاڑ لگے۔ اور اگر کوئی نہ کر سکے تو اس کی محبت پر سوال اور انگلیاں اٹھیں۔ خدا نہ کرے کی زندگی، موت سے بڑھ کر یہ رواج ہوں کہ اگر کوئی پورا نہ کر سکو تو رفاقتوں میں شک کے ناگ سر اٹھانے لگیں۔

میرے بھائی جان! باقی گھر والوں کے ساتھ میں نے روزے کی نیت کر لی ہے۔ بلکہ آج تو میں نے دو نیتیں کی ہیں۔ ایک روزے کی اور دوسرا آپ کے لئے عیدی خریدنے کی۔ میں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ میں عیدی دینے کے ٹرینڈز بدلنے کے لئے پہلا قدم اٹھاؤں گی جس میں ہم بھی آپ کو پیار کی نشانیاں بھیجا گریں گی جیسے آپ ہمارے لئے لاتے ہیں۔ میں نے جان لیا ہے کہ آپ بھی گوشت پوست کے ایک انسان ہیں جو جذبوں، غلطیوں، کمیوں اور کمزوریوں سے عبارت ہے جسے ہماری طرح اظہار اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اور ہم سب کے لئے عیدیاں اور باقی سوغاتیں مزے لاتی ہیں لیکن آئندہ سے اگر باوجود آپ یہ کبھی نہ بھی کر سکے تو ہم بدگمان نہیں ہوں گے۔ جتلائیں گے نہیں۔ کیونکہ ہمارا ساتھ ہونا اہم ہے۔ ہمارا ملنا معنی رکھتا ہے۔ پاس ہونے اور دیکھنے کی کیفیت سب سے اوپر ہے۔

اچھا پھر اپنی لاڈلی کو اجازت دیں۔ کیونکہ آج کاموں کی لمبی فہرست ہے جس میں آپ کے لئے عیدی خریدنا بھی شامل ہے۔ جسے میں آپ کی معصوم و دانا بھانجی کے ساتھ آپ کو دینے آؤں گی۔ آخر آپ کو بھی تو اپنے فلاسفر بیٹے کو کوئی جواب دینا ہو گا جب وہ یہ پوچھے گا کہ کیا پھپھو نے آپ کو عیدی دے دی؟

میری ساری دعائیں آپ کے لئے۔
میرا رب میرے بھائی کو گرم ہواؤں، بری نظروں اور کمزور لمحوں سے بچائے۔
سکون کے سندیسوں کے ساتھ۔
آپ کی چھوٹی۔
(خدیجہ وکیل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments