شاہد آفریدی بمقابلہ عمران خان


بطور کرکٹر اگرچہ عمران خان کا قد بلند تر ہے مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شاہد آفریدی اور ان میں بہت سی مماثلتیں بھی ہیں۔ دونوں خان ہیں۔ دونوں آل راؤنڈر ہیں اور دونوں پہ ہی شہرت کی دیوی مہربان رہی ہے کہ دونوں ہینڈسم بھی خوب ہیں۔

اس درجے کے کرکٹرز کی نفسیات عام انسانوں، حتیٰ کہ عام کرکٹروں سے بھی ذرا ہٹ کے ہوا کرتی ہے۔ اپنی زندگی کا بہترین حصہ ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے سرورق پہ گزارنے کے بعد یہ، عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات اور اپنے کمالات کے اس درجہ اسیر ہو جاتے ہیں کہ اپنی ہی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

انہیں اپنی ہی باتیں سننا اچھا لگتا ہے اور وہ بھی اپنے ہی منہ۔ اب گرفتار محبت لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کے خلاف ایک بھی لفظ سننے کے روادار نہیں ہوتے۔ اور اس خاص نوعیت کی ’کانفلکٹ آف انٹرسٹ‘ زدہ محبت میں یہ عاشقان کبھی کبھی کشف ذات کی ان منازل تک بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں تک عمومی انسانی شعور کی رسائی نہیں ہوتی۔

جن دنوں پاکستانی نیوز چینلز پہ کرکٹ تجزیہ کاری کی وبا نئی نئی پھوٹی تھی، شعیب اختر اور محمد یوسف نے اپنے نشتر تیز کرنے کے لئے شاہد آفریدی کو تختۂ مشق بنایا ہوا ہوتا تھا۔ ان کے ہم نوا قبلہ سکندر بخت بھی ’آہو نی آہو‘ کی گردان جپتے تھے۔

ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ون ڈے سیریز جاری تھی، پاکستان کے حالات بھی فیلڈ پہ ویسے ہی تھے جیسے آج کل پنجاب اسمبلی میں ہیں اور جب نمبر ون کہلانے والے نیوز چینل پہ ایسی صدائیں بلند ہوتی تھیں تو ریٹنگ دلوانے والی اکثریت کے دلوں کو ٹھیس سی لگتی تھی۔ کیونکہ آج بھی اس قوم میں ایک ایسا وسیع طبقہ موجود ہے جو شاہد آفریدی کے آؤٹ ہو جانے پہ ٹی وی بند کرنے کو واجب سمجھتا ہے۔

سو، وطن واپس قدم رکھتے ہی جب آفریدی نے اپنے ناقدین کو ہیکل اور جیکل قرار دے دیا تو تینوں تجزیہ کار یہی گتھی سلجھاتے رہ گئے کہ افراد تین اور نام صرف دو؟ ہیکل کون ہے اور جیکل کون ہے اور استثنا کا اعزاز پانے والا کون ہے۔

بطور کپتان شاہد آفریدی پاکستان کے لئے جس قدر موثر ثابت ہوئے، بطور وزیراعظم عمران خان بھی ملک کے لئے اتنے ہی موثر ثابت ہوئے۔ جس طرح سے خان صاحب نے سبز پاسپورٹ کو دنیا میں عزت دلوائی، اسی طرح شاہد آفریدی نے بھی کپتانی کے منصب پہ ہوتے ہوئے پاکستان کو عزت دلوانے کی کوشش کی۔

المیہ دونوں کا یکساں تھا۔ وطن سے محبت اس قدر گہری تھی کہ کسی بھی قیمت پہ جیت کے حصول کی خواہش نے عشق کو عقل پہ سبقت لینے پہ مجبور کر دیا۔ شاہد آفریدی مگر یہاں اس معاملے میں سبقت لے گئے کہ ’بال باربی کیو‘ کرنے کے بعد قوم سے معافی کے خواستگار ہوئے اور فراخ دل قوم نے جھٹ سے انہیں بانہوں میں بھی دبوچ لیا۔

عمران خان مگر اس نقطے پہ شاہد آفریدی کو میلوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ قوم پہ اس قدر احسانات کے بعد بھی کسی احساس ندامت کی غیر موجودگی اور اس کے باوجود قوم کا انہیں ایسے ہی اپنے سینے سے بھینچے رکھنا کسی اور ہی مرتبے کا اشارہ ہے۔

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے

قومی کرکٹرز ہمیشہ عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ اگر وہ خوبصورت بھی ہوں تو مقبولیت ممدوحیت کے مقام تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جب ممدوح صاحب شام سویرے آپ کی سماعتوں اور بصارتوں کا طواف کرنے لگیں تو پھر ستائش کنندگان کا کلب بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

لیکن جس طرح سے پچھلے چند ہفتوں میں بعض اہم قومی اداروں نے ہمیں حیران پریشان کر ڈالا، کچھ ویسا ہی پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان کے مسلمہ اکلوتے سپر سٹار کے ایک بیان پہ عوامی ردعمل نے بھی کیا۔ شاہد آفریدی نے عمران خان سے اپنی امیدیں ٹوٹنے کا شکوہ کیا تو وہ بھونچال پڑا کہ دو دن تک تو کسی کو یاد بھی نہ رہا کہ ڈالر کہاں کی اڑان بھرنے کا سوچ رہا ہے۔

شاہد آفریدی کو اپنی اس غلطی پہ جو سزا دی گئی، وہ کسی بھی طور سے قابل توجیہہ نہیں ہے مگر جب ماضی میں ان پہ مر مٹنے کو تیار رہنے والے بعض لوگوں کو بھی ان پہ یوں یلغار کرتے دیکھا تو عقل کچھ لمحوں کے لئے سوئچ آف ہو گئی۔

ویسے تو متنازعہ ہونا ہر کرکٹر کا بنیادی حق ہے اور شاید آفریدی بھی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر تاریخ کے اس نازک موڑ پہ یہ بحث چھیڑنے میں کوئی فائدہ نہیں کہ عمران خان کا سٹرائیک ریٹ ان سے بہتر تھا یا بدتر، اور نہ ہی یہ جاننے سے کوئی افاقہ ہو سکتا ہے کہ کس کا جتوایا گیا ورلڈ کپ قوم کے لئے زیادہ ہینڈسم تھا۔

کرکٹ کے عمومی شائقین کی نفسیات بھی کچھ کچھ اپنے ممدوحین جیسی ہی ہوتی ہے مگر یہاں شاہد آفریدی خان صاحب سے مات کھا گئے کہ خان صاحب اور آفریدی کے مشترکہ شائقین نے اپنی دو محبتوں میں سے اسی کو چنا جس نے بائیس سال ’سٹرگل‘ کی تھی۔

اس تناظر میں آفریدی کو بھی جلد از جلد ہر طرح کی کرکٹ سے مکمل ریٹائر ہو کر اپنے بائیس سال لگانے کی تیاری کرنی چاہیے اور گاہے گاہے اس قوم کو باور کروانا چاہیے کہ وہ بھی کمنٹری کر کے لاکھوں ڈالر کما سکتے تھے مگر پھر انہوں نے سوچا کہ بیچارے پاکستان کا کیا بنے گا۔

جو جو کچھ اس ملک میں ممکن ہو چکا ہے، یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ بیس سال بعد شاہد آفریدی پی ٹی وی کی سکرین سے سبز ہلالی جھنڈے کے ہمراہ نمودار ہوں اور یہ آواز سماعتوں سے ٹکرائے کہ ’وزیراعظم پاکستان شاہد آفریدی اب قوم سے خطاب کریں گے‘

اور تب شاید بنی گالہ کی پہاڑیوں میں بھی کوئی سابق کرکٹر اپنے کسی ہم نشست سے مخاطب ہو رہا ہو کہ ’آفریدی کی فیملی کو ٹارگٹ کرنا ہماری غلطی تھی، یہ میرا بیان ذرا کل اخبار میں تو چھپوا دینا‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments