سعد بن ابی وقاصؓ کا سپاہی


تیروں کی کھڑکھڑاہٹ، نیزوں کی چمک، تلواروں کی کھٹکھٹاہٹ کے بعد اب فضا میں فقط زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ جو ماحول میں ایک عجیب سی افسردگی پھیلا رہیں تھیں۔ یہ ”مدائن“ کا میدان تھا۔ جہاں اسلام کے جانباز ”حضرت سعد بن ابی وقاص“ کی قیادت میں دنیا کے اس وقت کی سپر پاور ”کسریٰ“ سے نبرد آزما ہو کر شکست فاش دے چکے تھے۔

دشمن اپنا قیمتی مال اسلحہ اور دیگر ساز و سامان چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ مسلمان فتح و مسرت کے ترانے گاتے ہوئے مال غنیمت سمیٹ رہے تھے۔ کہ یکایک ایک سپاہی کی ایک عجیب و غریب، عمدہ نگینوں سے مرصع خوبصورت چیز پہ نظر پڑی۔ جس میں نہایت ہی خوبصورتی سے تراشے ہوئے موتی جڑے ہوئے تھے۔ بظاہر دیکھنے میں نہایت قیمتی چیز معلوم ہو رہی تھی۔ سپاہی نے اس بیش قیمت چیز کو خاموشی سے اٹھایا اور دوسروں کی نظروں سے بچتے بچاتے ایک طرف چل دیے۔

چلتے چلتے بار بار مڑ کر گرد و پیش میں نظر دوڑاتے کہ کسی کی نظریں میرا تعاقب تو نہیں کر رہیں۔ ایک فاصلہ طے کر لینے کے بعد ایک خیمے تک پہنچے۔ اور نہایت ہی رازداری سے پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوئے۔ یہ خیمہ امیر لشکر ”حضرت سعد بن ابی وقاصؓ“ کا تھا۔ امیر جیش کے سامنے پہنچ کر سپاہی نے نہایت ادب سے عرض کیا ”ایہا الامیر! یہ کوئی بہت قیمتی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے ملی ہے آپ کے حوالہ کر رہا ہوں“ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے غور سے دیکھا تو یہ شہنشاہ کسریٰ کا تاج تھا۔

جو یہ سپاہی نہایت ہی احتیاط سے امیر لشکر تک پہنچا لایا تھا۔ حضرت سعد ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ سر سے پاؤں تک سپاہی کو دیکھا دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ اللہ اکبر اتنا قیمتی جواہرات سے مرصع تاج زریں لیکن ایک غریب سپاہی اور عرب کے بدو کی نیت خراب نہ ہوئی۔ اسے تاج کو اٹھانے سے یہاں پہنچانے تک کسی بھی لمحے خیال نہ ہوا کہ بجائے اس کو یہاں لانے کے اپنے خیمے میں لے جاتا۔ حضرت سعدؓ خیالات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو گئے ایک لمحے بعد اپنے ہوش و حواس بحال کر کے حضرت سعد سر کو جھٹک کر خیالات کے گہرے سمندر سے باہر نکلے اور سپاہی سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے۔ ؟ سپاہی نے فوراً دروازے کی طرف منہ کیا پیٹھ پھیر کر سر نیچے کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا جو دل کی تختی پہ نقش کرنے کے قابل ہے۔ کہ ”جس ذات کے لیے میں نے یہ عمل کیا ہے وہ میرا نام خوب جانتی ہے“

یہ تو فقط ایک واقعہ ہے۔ ایسے واقعات ہماری تاریخ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ یہی اخلاص و للٰہیت کا عمل تھا جس نے دنیا کو ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ اور ہمیں ملکوں اور رقبوں سمیت دلوں کا بھی فاتح بنا دیا تھا۔

ساتویں صدی ہجری بمطابق تیرہویں صدی عیسوی میں جب تاتاریوں کا سیلاب آیا، اور انہوں نے اس وقت کی سب سے بڑی شہنشاہی علا ٔ و الدین خوارزم شاہ کی سلطنت پر حملہ کر کے انتہائی قلیل عرصے میں اس کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا اور رفتہ رفتہ پورے عالم اسلام پر قابض و متصرف ہونے لگے۔ مسلمانوں کا ایسا قتل عام کیا کہ جس کی نظیر تاریخ میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ خوف و ہراس کا اندازہ اس محاورے سے لگایا جاسکتا ہے جو اس وقت مسلمانوں میں زبان زد عام تھا۔ ”اذا قیل لک ان التتر انھزمو فلا تصدق“ ۔ سب کچھ مان لینا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تاتاریوں نے شکست کھائی ہے تو وہ ہر گز نہ ماننا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ دنیائے انسانی سے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسلام کا چراغ گل ہو جائے گا۔

لیکن پھر کچھ اہل دل نے اسلام کی بقا کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے بغیر تحریک چلائے، بغیر تنظیم بنائے، بغیر جلسہ و اجلاس کیے اپنے اپنے طور پر صدق دل سے کام کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ تاتاری سرداروں اور پھر بادشاہوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ پوری کی پوری تاتاری قوم دائرہ اسلام میں داخل ہوئی۔ اور آئندہ کے لیے اللہ نے تاتاریوں کے ذریعے سے اسلام کے اقبال کو بلند فرمایا۔ تاتاریوں کا من حیث القوم قبول اسلام تاریخ کے ان چند نادر اور انوکھے واقعات میں سے ہے جس کی مثالیں دو یا تین سے زیادہ نہیں۔ کہ جب کوئی قوم قوم پوری کی پوری دوسرے مذہب میں داخل ہوئی ہو۔ لیکن اہل اللہ کے اخلاص کا عالم دیکھیے کہ اس تاریخی کامیابی کا سہرا جن لوگوں کے سر جاتا ہے، یعنی جو لوگ تاتاریوں کے قبول اسلام کا سبب بنے ان کے نام بھی دنیا سے پوشیدہ ہیں۔ بقول ”پیر نصیر الدین نصیر“ ۔

مردان خدا قوت ہستی نہیں کرتے۔
یہ لوگ کبھی نفس پرستی نہیں کرتے
پیتے ہیں جہاں اہل صفا بادہ و عرفان
میخانہ بھی پی جائیں تو مستی نہیں کرتے

یقیناً اخلاص ہی وہ چیز ہے جس سے میزان پر تلتے اعمال کا وزن بنتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ مقترن عمل ہی دراصل عمل ہوتا ہے۔ بغیر اخلاص عمل کا وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقی فائدہ بالکل بھی نہیں ہو سکتا ۔ کسی ملک اور قوم کی ترقی کے لیے اس ملک و قوم کے افراد میں اخلاص کی دولت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہم چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اگر اپنے پیشے، متعلقین، اہل و عیال، اپنی قوم اور ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو حالات کا پانسا پلٹ سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments