”التوائے مرگ“: حوزے ساراماگو کے ناول کا ترجمہ


ہم جب کسی ترجمے پر گفتگو کرنے یا روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلے پہل یہ معاملہ درپیش ہوتا ہے کہ ترجمہ اپنے اصل متن کے کس قدر قریب ہے۔ ”التوائے مرگ“ کے بارے میں اس حوالے سے جب میں نے اپنی رائے مرتب کرنے کے لیے حوزے ساراماگو کے ناول Death with Interruptions پر نگاہ کی، تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ فیصلہ کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنی دانست میں جس اصل متن کو ہاتھ میں لے رکھا تھا وہ تو خود ساراماگو کے پرتگالی زبان کے ناول کا انگریزی ترجمہ تھا۔ چوں کہ میں تھوڑی بہت انگریزی سمجھ لینے کی خوش فہمی میں ضرور مبتلا ہوں اس لیے التوائے مرگ کے بارے میں میرے لیے یہ دعویٰ کرنا تو کسی قدر ممکن ہے کہ وہ Margaret Jull Costa (جو اس ناول کی انگریزی مترجم ہے ) کے اس انگریزی ترجمے سے کس قدر قریب یا دور ہے مگر یہ نہیں کہ سکتا کہ ”التوائے مرگ“ کا اردو متن حوزے ساراماگو کے اصل متن سے کس قدر مناسبت رکھتا ہے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا ماننا یہ ہے کہ ترجمہ شدہ متن میں مصنف کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طور مترجم بھی شامل ہو جاتا ہے کیوں کہ مترجم کی اصل متن کی تفہیم اس کے ترجمے میں شامل ہوتی ہے۔ اور جب میں ترجمہ شدہ متن کو ترجمہ نگار کا تشکیل کردہ متن کہتا ہوں تو اس کی ایک وجہ تو اس کی یہی تفہیم ہوتی ہے اور دوسرا وہ زبان ہوتی ہے جس میں وہ ترجمہ کرتا ہے اور جو بالعموم ترجمہ نگار کی زبان ہوتی ہے۔

مبشر احمد میر جنہوں نے ”التوائے مرگ“ کے عنوان سے بظاہر حوزے ساراماگو کے ناول کا اردو ترجمہ کیا ہے اور جو میرے قریبی دوست بھی ہیں اس لیے میں اس ترجمے کا بھیدی بھی ہوں لہٰذا میں جانتا ہوں کہ انہوں نے یہ ترجمہ Margaret Jull Costa کے ہی انگریزی متن سے کیا ہے۔ میری طرح وہ بھی پرتگالی زبان سے آگاہ نہیں۔ لہٰذا میری طرح وہ بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قدر حوزے ساراماگو کو ترجمہ کیا ہے اور کس قدر ماگریٹ جول کوسٹا کو۔ مجھے ان لوگوں پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے جو اردو ترجمے کے بارے میں چھوٹتے ہی یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ یہ اصل سے قریب ہے یا قریب نہیں ہے، اور یہ نہیں جانتے کہ اصل تو انہوں نے دیکھ ہی نہیں رکھا۔ انہوں نے محض انگریزی ترجمہ پڑھا ہے اور انگریزی ترجمے کو اصل گرداننا میری سمجھ سے تو بالا ہے۔

بات کچھ طویل ہو گئی مگر ”التوائے مرگ“ کے توسط سے میں ترجمہ در ترجمہ متون کے جانچنے کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں۔ اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انگریزی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کے فن پاروں، جن کے انگریزی زبان کے تراجم سے ہم ترجمہ کرتے ہیں، اور اصل زبان سے نہ ہم واقف ہوتے ہیں اور نہ اردو کا ترجمہ نگار، کے بارے میں بات کرنا اس قدر سہل نہیں۔ دوسرا یہ کہ ایسے اردو تراجم پر مترجم کا یہ اعتراف شائع ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ ترجمہ کس انگریزی مترجم کے متن کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا عام رواج نہیں جس کی وجہ سے بہت سے مغالطے جنم لیتے ہیں۔ حوزے ساراماگو کے اس ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے مبشر احمد میر نے بھی یہ اعتراف کرنا ضروری خیال نہیں کیا اور نہ ہی احمد مشتاق نے ”اندھے لوگ“ کے عنوان سے حوزے ساراماگو کے ناول Blindness کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کو ضروری سمجھا ہے اور نہ بیش تر دیگر ترجمہ نگار اس پر توجہ دیتے ہیں۔ اس سے ہماری اس سائیکی کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم انگریزی میں ہونے والے تراجم کو اپنے تئیں اصل متن سمجھ لیتے ہیں جو یقیناً انگریزی زبان اور اس سے بڑھ کر انگریزی مترجم پر ہمارا حد سے بڑھا ہوا اعتبار ہے۔ اردو تراجم میں اس سوچ سے احتراز اور احتیاط ضروری ہے۔

اگلی باتیں کرنے کے لیے میں یہ قیاس کر رہا ہوں کہ مارگریٹ جول کوسٹا نے ممکنہ حد تک اپنے انگریزی ترجمہ میں حوزے ساراماگو کے اسلوب کو قائم رکھا ہے اور یوں حوزے ساراماگو کا یہ ناول بڑی حد تک انگریزی میں منتقل ہو گیا ہے۔ اس قیاس کی بنیادی وجہ وہ اصول بھی ہے جو لسانیات ہمیں بتاتی ہے کہ اگر زبانیں ایک دوسری کے قریب ہوں تو ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان کے ادب میں منتقل کرنے میں وہ مشکلات پیش نہیں آتیں جو دور کی زبان میں ترجمہ کرتے وقت پیش آتی ہیں۔ اور یہ بات ہم جانتے ہی ہیں کہ پرتگالی لسانی حوالے سے انگریزی زبان سے قربت رکھتی ہے۔

بہرحال اگر میرا یہ قیاس درست ہے کہ انگریزی میں ساراماگو کا خیال اور اسلوب اچھی طرح منتقل ہو گیا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مبشر احمد میر نے اپنے اردو متن میں ساراماگو کے قریب رہنے کی اپنے طور پر بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے جب کہ یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اردو زبان، انگریزی کے اس قدر قریب نہیں جس قدر انگریزی؛ پرتگالی زبان کے قریب ہے۔ جو لوگ میر صاحب کے طبع زاد افسانے پڑھ چکے ہیں وہ اس بات کی گواہی بھی دے سکتے ہیں کہ ان کا اپنا اسلوب اور بیان کا ڈھنگ بھی ساراماگو کے ڈھنگ سے کافی قریب ہے۔ اسے کچھ احباب ساراماگو سے میر صاحب کی inspiration کا نام بھی دے سکتے ہیں مگر میں، جو میر صاحب سے اس ترجمہ کرنے کے عمل سے بہت پہلے کا آشنا ہوں، یہ بات وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ان کا مزاج ہی قدرتی طور پر ساراماگو کے کافی قریب ہے اور مزاج کی یہی قربت انہیں ساراماگو کے اتنا قریب لے گئی کہ انہوں نے اس کے ناول کا بے اختیار ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ بے شک ساراماگو کا اسلوب عام قاری کے لیے گنجلک اور پیچیدہ ہے مگر میر صاحب بھی کسی عام فہم اسلوب کے مالک نہیں۔

ساراماگو کے اسلوب کی بات ہوئی تو یہ بتاتا چلوں کہ ساراماگو جس اسلوب سے کام لیتا ہے، وہ انتہائی دلچسپ، معنی خیز مگر عام فہمی سے مبرا ہے۔ اس کے اسلوب میں اوقاف کا وافر استعمال بظاہر مشکل پسندی کا شائبہ قائم کرتا ہے مگر یہ ایک شائبہ سے زیادہ نہیں۔ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کے اسی اسلوب سے انسانی فکر و عمل کے کئی معنوی ابعاد آشکار ہوتے ہیں۔ ”التوائے مرگ“ کا مطالعہ کرتے وقت پتہ چلتا ہے کہ مبشر احمد میر بھی ساراماگو کے اس وصف سے واقف ہیں لہٰذا وہ اردو کے جملوں میں بھی اوقاف کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ساراماگو کی معنویت کم سے کم ضائع ہو سکے۔ اوقاف میں سے حوزے ساراماگو نے صرف سکتہ یعنی قوما پر ہی انحصار کیا ہے۔ اس کم ٹھہراؤ سے ساراماگو بہت گہری معنویت دریافت کرتا ہے۔ میر صاحب نے اردو میں ساراماگو کے سکتوں کو پوری طرح برتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض صورتوں میں سکتہ کا استعمال کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ اگر ہم بامحاورہ ترجمہ کر رہے ہیں (میر صاحب نے یہ ترجمہ بنیادی طور پر بامحاورہ کرنے کی کوشش ہی کی ہے اور وہ اس کے دعویٰ دار بھی ہیں ) تو پھر اردو میں بہت سی جگہوں پر انگریزی کا سکتہ اردو کے ختمہ سے بدلا جا سکتا ہے جس سے اردو میں متن کی معنویت زیادہ موثر بنائی جا سکتی ہے۔ اور کچھ جگہوں پر سکتہ غیر ضروری بوجھ بھی معلوم ہو رہا ہے جس کی اردو محاورے میں کوئی خاص معنویت دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسی جگہوں سے سکتے کو حذف کر دینا ہی بہتر تھا کیوں کہ اس سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ ترجمہ نگار سکتوں کے معاملے میں لفظی ترجمہ کی پیروی کر رہا ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ بعض جگہوں پر جملے میں سکتوں کی بنیاد پر قائم حصوں کی ترتیب میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے جس سے جملے کی تفہیم بہتر ہو سکتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جملے کا یہ حصہ دوسرے حصے کے بعد یا پہلے ہوتا تو ابلاغ بہتر ہو سکتا تھا کیوں کہ اردو میں سکتوں پر مبنی جملے کے حصوں کی ترتیب جہاں تک ممکن ہو اپنی طرز پر کی جانی چاہیے اور بعض حصوں کو ضرورتاً ملایا بھی جا سکتا ہے تاکہ معنویت کو تقویت ملے اور بامحاورہ ترجمے کا حق بھی پوری طرح ادا کیا جا سکے۔

بہرحال یہ بات سراہنے کے لائق ہے کہ ہمارے ہاں جہاں اوقاف سے بالعموم بے نیازی برتی جاتی ہے اور تراجم میں خاص طور پر یہ دھیان نہیں رکھا جاتا کہ انگریزی یا دیگر مغربی زبانوں میں اوقاف کس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں، میر صاحب نے نہ صرف ساراماگو کے ہاں اوقاف کی اہمیت کو سمجھا ہے بلکہ اردو میں انہیں برت کر، جو کہ کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے اسلوب کو گرفت میں لینے کی پوری کوشش کی ہے۔

قواعد کی پوری پوری پیروی نہ ساراماگو کے ہاں ملتی ہے نہ مبشر احمد میر نے اردو قواعد کی حد سے بڑھی ہوئی جکڑبندیوں کے تابع رہنا پسند کیا ہے جس سے ترجمے کی معنویت میں اضافہ ہوا ہے۔ معنویت کو قائم رکھنے کے لیے قواعد کی قربانی کا عمل یقیناً احسن گردانا جائے گا۔

اب اس ناول کے عنوان کے حوالے سے ایک بات۔ پہلے پہل ”تناظر“ میں اس ترجمہ کی دو اقساط ”تعطل مرگ“ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ میرے خیال سے یہ زیادہ موزوں ترجمہ تھا۔ لیکن (لغات دیکھنے کے بعد ) اب میرا خیال بدل گیا ہے ”التوائے مرگ“ اس حوالے سے واقعی زیادہ بہتر ترجمہ ہے۔ آصف فرخی نے ایک جگہ اس ناول کے عنوان کا ترجمہ ”وقفے وقفے سے موت“ کیا تھا، وہ بھی کچھ برا نہیں تھا۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ مترجم (مبشر احمد میر) آخری لمحوں تک اس ناول کے عنوان کے حوالے سے کش مکش کا شکار رہے ہیں کیوں کہ اپنے ”ابتدائیہ“ میں وہ اس ناول کو ایک جگہ ”التوائے مرگ“ اور دوسری جگہ ”تعطل مرگ“ کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں۔ بہرحال اب یہ ناول ”التوائے مرگ“ کے عنوان سے ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

کسی متن کا بالکل صحیح یا مکمل ترجمہ ممکن نہیں۔ یہ جاننے اور ماننے کے باوجود میرے نزدیک انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر کا سارا انحصار ترجمہ نگاری کے فن پر ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انسان کے تہذیبی سفر کی رفتار ہر اس موڑ پر تیز ہوتی دکھائی دیتی ہے جہاں جہاں وہ دوسری تہذیبوں کے علم اور ادب کو اپنی زبان میں منتقل کرتا نظر آتا ہے۔ ترجمہ کرنا باشعور اور تہذیبی و تمدنی ترقی کی خواہاں قوموں کی مجبوری بھی ہے اور شیوہ بھی۔ کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ اس فن سے دوسری اقوام اور تہذیبوں کے نظریات، خیالات، احساسات اور جذبات سے ہی آگاہی نہیں ہوتی اور صرف اپنے علم اور کلچر کو ہی فروغ نہیں ملتا بلکہ اپنی زبان کی Richness اور اس کی اظہاری قوت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ترجمہ نگاری کے مسائل کا فہم رکھنے کے باوجود اس سے صرف نظر کرتی یا ہمت ہارتی نظر نہیں آتیں۔ وہ ہر طرح کے مسائل کو کم کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے مسلسل کوشاں رہتی ہیں تاکہ ممکنہ حد تک بہتر سے بہتر ترجمہ کر سکیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور زندگی کے ہر میدان میں Passive اور Negative Approach کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مایوسی، انتشار، فرار اور بے عملی کی طرف ہمارا فطری میلان ہے جس کی وجہ سے ہم کسی بھی میدان میں مشکلوں اور رکاوٹوں کی تشہیر زیادہ کرتے ہیں اور ان سے نبردآزما ہونے اور انہیں آسان بنانے کی کوشش کم۔ یہ رویہ علمی اور ادبی میدانوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ترجمہ نگاری کے ذیل میں بھی ہم مشکلات اور ناممکنات کا بہت ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیا مشکلات کے پیش نظر ترجمہ کی افادیت سے انکار ممکن ہے؟ کیا ترجمہ کے بغیر فکری خلا کو پر کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ترجمہ کے بغیر ہماری تہذیبی بقا ممکن ہے؟ یقیناً ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود مشکلات اور ناممکنات کا اس قدر رونا رونے کے اردو میں اچھے برے تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔

محض اردو زبان کی کم مائیگی کو بنیاد بنا کر ترجمہ نگاری کے فن کی اہمیت سے انکار کرنا مناسب رویہ نہیں ہے کیوں کہ زبانیں ثروت مند تب بنتی ہیں جب ان سے بامعنی کام لیا جاتا ہے۔ انگریزی زبان آج جس مقام پر کھڑی نظر آتی ہے اس کے پیچھے انگریزی ادبا اور ماہرین کی چار سے پانچ سو سالہ محنت اور خدمت کا ہاتھ ہے ورنہ یہی زبان تھی کہ جس کے بارے میں نیوٹن نے کہا تھا کہ یہ اس کے خیالات کو سہارنے کے قابل نہیں اور اس نے اپنی کتابیں لاطینی زبان میں لکھیں مگر آج نیوٹن کے نظریات سے انگریزی زبان ہی کے توسط سے آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں یہ طاقت یہ ثروت کہاں سے آئی؟ تراجم کی مسلسل اور پیہم کاوش سے۔ لہٰذا ہمیں اردو میں تراجم کے معیارات کو بڑھانا ہے اس کے لیے مثبت طریقے سے کچھ کام کرنے ہیں، مسائل کا رونا رونے کے بجائے ان کے حل تلاش کرنے ہیں کہ یہ طے ہے کہ عہد حاضر میں کوئی زبان، کوئی تہذیب تراجم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ (اور ماضی میں بھی ترقی کرنے والی قومیں تراجم کرتی رہی ہیں ) ۔

مبشر احمد میر ایسے ہی ترجمہ نگار ہیں جو ترجمے کی مشکلات سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشکلات کے خوف سے ترجمہ کرنے کے عمل سے دست بردار ہونا پسند نہیں کرتے۔ وہ مسلسل محنت سے ترجمے کی مشکلات کو ممکنہ حد تک قابو کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ وہ اس ناول کے ترجمے سے کم و بیش پانچ سال الجھے رہے ہیں۔ ایک ایک جملے، سطر اور لفظ پر غور و فکر، عالموں سے مشورے، ہم جیسے مبتدیوں سے ان حوالوں سے بحث و تمحیص، غرض یہ کہ اپنے ترجمے کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش میں، میر صاحب نے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ گو یہاں وہ رٹا رٹایا جملہ دہرانا بھی ضروری ہے کہ کسی تحریر کو مکمل اور قطعی عیب سے پاک کہنا مشکل ہے مگر یہ گواہی بلاشبہ دی جا سکتی ہے کہ اس متن پر مترجم نے عام معمول سے بڑھ کر محنت کی ہے جو کسی بھی ترجمہ نگار کا بنیادی فرض ہے۔ وہ متن کو بار بار بدلتے بھی رہے ہیں ( ’تناظر‘ میں شائع ہونے والے پہلے دو ابواب کا اب شائع ہونے والے اس ناول کے ابواب سے تقابل کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ ) وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی تخلیق یا تحریر سے اتنی آسانی سے مطمئن نہیں ہوتے اور عدم اطمینان کی یہ کیفیت جن سے، متن کو صیقل کرانے کا کام برابر لیتی رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے وہ اب بھی اس متن پر نظر ثانی کر رہے ہوں گے اور اگر اس ناول کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا (اور اگر ان کی اجازت سے ہوا) تو اس میں ہمیں پڑھنے کو ایک اور تبدیل شدہ متن ملے گا۔

میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مبشر احمد میر کا یہ اردو ترجمہ ہمارے لیے صرف ساراماگو کی ایک اہم کہانی پڑھنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ کسی اعلیٰ اور صاحب اسلوب ناول نگار کا ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے یا کیا جانا چاہیے، یہ سیکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔

اب کچھ الفاظ مصنف حوزے ساراماگو کے حوالے سے۔ مارک ٹوئین کو بالعموم عالمی ادب میں بہت بڑا طنز نگار مانا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں مگر میری دانست میں جدید عہد کا بڑا طنز نگار بلاشبہ ساراماگو ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ طنز کو سنبھالنے کا گر، اور اسے زیادہ سے زیادہ بصیرت افروز بنانے کا آرٹ جو ساراماگو کے پاس ہے، مارک ٹوئین اس سطح پر نہیں پہنچتا۔ مارک ٹوئین کا طنز اس کے فن پر اکثر غالب آ جاتا ہے، ساراماگو کا طنز کسی صورت اس کے فن سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں مبتلا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ساراماگو کا طنز خود کو نمایاں کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کرتا۔ فن کے حدود کی یہی پاس داری اور خود کو نمایاں نہ کرنے کی رواداری، ساراماگو کے طنز کو ”کاٹ دار مگر گہری بصیرت“ کا وصف عطا کرتی ہے۔

ساراماگو کا محبوب فنی مشغلہ انسانی تہذیب کی کھوکھلی بنیادوں میں سے کسی ایک کڑی کو نکال کر گرتی ہوئی انسانی تہذیب کا تماشا دیکھنا اور دکھانا ہے۔ اس کے لیے ساراماگو عموماً اپنے فکشن میں انسانی صورت حال کو پیش کرنے میں ’فرض کرنے‘ کا تکنیکی حربہ برتنا پسند کرتا ہے۔ وہ کہانی میں کسی انسانی صورت حال کو فرض کر کے انسانی معاشرت، مذہب اور سیاست اور انسانی سائیکی کی قلعی کھولنے کا کام بڑی پسندیدگی سے کرتا ہے۔ بظاہر وہ فرض کردہ انسانی صورت حال تخلیق کرتا ہے مگر اسی فرض کردہ صورت سے بدیہی حقیقت کی ایسی ایسی تہیں نکالتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور قاری ساراماگو سے مکمل اتفاق کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔

”التوائے مرگ“ بھی ساراماگو کا ایک ایسا ہی ناول ہے۔ یہاں ناول نگار نے انسانی تہذیب سے، موت کو نکال کر زندگی کا تماشا دکھایا ہے اور کیا خوب دکھایا ہے۔ کہانی تو آپ ناول میں پڑھیں گے مگر اتنا کہنا یہاں ضروری ہے کہ ساراماگو نے سماج اور سماج کے مختلف اداروں اور سماج کے ’کرتوں دھرتوں‘ کو یہاں جس طرح ’بے لباس‘ کیا ہے وہ بلاشبہ ساراماگو کا ہی کمال ہے۔

یہ ناول حوزے ساراماگو کو نوبل انعام ملنے کے سات سال بعد اور ساراماگو کی موت سے پانچ برس پہلے 2005ء میں شائع ہوا۔ ایسا بھی کم کم ہی ہوتا ہے کہ نوبل انعام ملنے کے بعد کسی ادیب کا کوئی اتنا اہم ناول منظر عام پر آئے۔ اس وقت ساراماگو کی عمر 83 برس تھی، اس عمر میں ایسی تخلیقی قوت کا مالک ہونا بھی حیران کن ہے۔ اگر کوئی محقق ناول نگاروں کے اسی برس کی عمر کے بعد لکھے گئے ناولوں کا تحقیقی مطالعہ کر سکے تو شاید ساراماگو کا ”التوائے مرگ“ تخیل کی دور رسی، فکر کی تازگی اور تخلیقی فراوانی و خروش کی بنیاد پر سرفہرست ٹھہرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments