سیاست کی موجودہ صورتحال اور انتخابی اصلاحات


پی ٹی آئی کی حکومت کو عدم اعتماد سے چار سال مکمل ہونے سے پہلے ہی ہوشربا مہنگائی کا جواز بنا کر فارغ کر دیا گیا۔ جسے سابقہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے امریکہ کی سازش قرار دیا۔ مگر نہ ہی وہ سازش ثابت کر پائے نہ ہی انہوں نے عدم اعتماد کو قبول کیا۔ وہ مختلف حربوں سے تحریک عدم اعتماد کو روکنے کی کوشش کرتے رہے لیکن سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار کیا۔

پی ٹی آئی نے عدم اعتماد کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپنا لیا اور موجودہ حکومت کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ حسب معمول عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ہر جلسے میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بد اخلاقی کی تمام حدیں عبور کردی ہیں۔ بلکہ عوام کے جذبات کو ابھار نے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عام لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ ان کو گھروں تک محدود کر دیں گے اور ان کے بچے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔

ان کے اس اقدام سے خانہ جنگی بھی ہو سکتی ہے۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے امریکہ، پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی مورد الزام ٹھہرا دیا کہ انہوں نے ان کی مدد نہیں کی۔ دوسرے معنوں میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا۔ اب جب کہ نئی حکومت کے وزراء کا نیا سیٹ سامنے آ چکا ہے اور انتخابی اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے۔ تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے مسیحی رکن عامر نوید جیوا نے اسمبلی کے فلور پر بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔

انہوں نے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں اقلیتی رکن کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ دوسری طرف فواد چوہدری، شیخ رشید اور عمران خان کا مطالبہ ہے کہ فوری الیکشن کروائے جائیں۔ الیکشن کی صورت میں وہ انتخابی اصلاحات پر تعاون کر سکتے ہیں۔ عمران خان کہاں تک موجودہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکیں گے۔ پانی، بجلی، پٹرول کا بحران اور نئی حکومت کے آنے سے غیر ملکی کرنسی کے ریٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے مہنگائی پر کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

سیاسی اور معاشی صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں نئی حکومت کی حکمت عملی ابھی تک واضح نہیں ہے۔ مگر موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی سیاست کو بند گلی میں لے جانے سے اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے سے مخالف پارٹیوں کو روکے۔ اور مخالفین کو بھی لیگل اور مہذب راستہ اپنانے کی حکمت عملی اپنانا چاہیے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ فوری الیکشن کروانا ممکن نہیں۔ اور سیاسی تجزیہ نگار جانتے ہیں کہ جلد الیکشن ناممکن ہیں۔

اور نہ ہی اس سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کا کوئی حل ہو گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی اس وقت گرم گرم سیاسی صورتحال کو کیش کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح اس نے 2013 کے الیکشن کو دھاندلی قرار دیا تھا اور اسمبلی کو جعلی اسمبلی پکارتے رہے تھے۔ اب بھی اگر نتائج ان کی مرضی کے خلاف آئے تو ان کا رونی ڈنڈا یہی رہے گا۔ اس وقت عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ ایسی سیاسی صورت حال پیدا کر دی جائے کہ فوج مداخلت کرتے ہوئے ملک کا نظم و نسق سنبھال لے مگر فوج نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی کو ہی بہتر جانا۔ اب تو فوج نے صاف کہہ دیا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا ہمارے ملک کو ہر خطرناک صورتحال سے بچائے۔

اقلیتیں ہمیشہ پاکستان کی وفا دار رہی ہیں اور حصول پاکستان میں قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگر بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ ہی مسیحی سیاسی لیڈروں کے کردار کو 12 مارچ 1949 قرار داد مقاصد کی منظوری سے غیر فعال بنا دیا گیا۔ اس پر المیہ یہ ہے کہ مسلسل اقلیتوں کے انتخابی سسٹم پر تجربات آزمائے جا رہے ہیں۔ سلیکشن، جداگانہ۔ 2002 میں جنرل مشرف نے سلیکشن سسٹم اقلیتوں کو دے کر اقلیتی عوام کی سیاسی تربیت اور اقلیتوں کی لیڈرشپ کو پنپنے کا موقع ہی ختم کر دیا۔

2002 سے اقلیتیں ووٹ کے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اس مطالبہ کو پورا نہ ہونے کی ایک وجہ مذہبی اقلیتوں خود بھی قصور وار ہیں۔ کہ وہ حکومت کی طرف سے دیا گیا سلیکشن کا لولی پاپ سے بہل گئی ہیں۔ یا شاید جو لوگ ووٹ کا حق کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی آواز اتنی طاقتور نہیں یا کسی ایک سیاسی نقطہ پر اتفاق نہ ہونا بھی ہے۔ اپر کلاس طبقہ اور خصوصاً وہ جو سلیکشن سسٹم سے سلیکٹ بار بار سلیکٹ ہو رہے ہیں وہ سلیکشن ہی کو بہتر سمجھتے ہیں۔

نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا چڑھے۔ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے جو خود کو سیاسی کارکن کہتے ہیں وہ جداگانہ انتخابات کو سپورٹ کرتے اور حکومت سے ووٹ کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تیسرا طبقہ دوہرے ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے نمائندوں کو بھی ووٹ دیں اور اپنے حلقے کے مسلم امیدوار کو بھی ووٹ دیں تاکہ اس کی بہتر شنوائی ہو سکے۔ ایک بات طے ہیں کہ جب تک مذہبی اقلیتوں کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے حق نہیں دیا جاتا۔

اقلیتوں کی حقیقی لیڈر شپ ابھر کر سامنے نہیں آ سکے گی۔ اور ان کے مسائل حل نہیں ہو سکے گے۔ سلیکٹڈ نمائندے اپنی کمیونٹی کے حقوق دلانے اور قانون سازی کروانے میں بے بس ہیں۔ بیشک اسی سسٹم کے ذریعے شہباز بھٹی شہید ضرور آئے ان کی قائد دانہ صلاحیتوں اور جرات پر کوئی شک نہیں مگر ان کے پیچھے چرچ کا مضبوط ہاتھ تھا جس کی وجہ سے وہ بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مگر وہ عوام کی سیاسی تربیت نہ سکے یہی وجہ ہے کہ ان کی جگہ پر نہیں ہو سکی۔

امید تھی کہ پی ڈی ایم کی نئی بننے والی حکومت جس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو پی ڈی ایم میں بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے کوئی سیاسی پالیسی سامنے آئے گی۔ مگر سخت مایوسی ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں اقلیتی نمائندے لئے جاتے ہیں اور کیا یہ اقلیتی نمائندے کمیٹی میں ووٹ کے حق کا مطالبہ رکھیں گے۔ مگر سیاسی کارکن جو عرصہ دراز سے جداگانہ اور حلقہ بندیوں کے ساتھ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنے اس مطالبے کی منظوری کے لئے اقلیتی نمائندوں پر اپنا دباؤ کس حد تک بڑھاتے ہیں۔ جو وقت گزر جائے وہ واپس نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments