اندھے لوگ اور حکومتیں


لوگ اندھے ہیں نہ بہرے ہیں یہاں پر لیکن
بھوک نے لوگوں کو پاگل سا بنا رکھا ہے

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو راتوں رات دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور حکومت بدلتے ہی راتوں رات اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں لوگ ایک دن پہلے تک محب وطن ہوتے ہیں اور حکومت بدلتے ہی غدار قرار پاتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے بنتے ہیں۔ وہ منی لانڈرر اور ہیروئن فروش نکل آتے ہیں، جیل چلے جاتے ہیں، ضمانت پر رہا ہوتے ہیں اور اس وقت تک ان کے کیسز کا فیصلہ نہیں ہو پاتا، حتٰی کہ وہ خود اقتدار میں واپس آ جاتے ہیں اور راتوں رات ان کے مقدمے ختم ہو جاتے ہیں۔ سابقہ چور سادھ قرار پاتے ہیں اور موجودہ سادھ حکومت سے نکلتے ہی چور بن جاتے ہیں۔ اس دوران ادارے، عدالتیں اور لوگ ایک فلم کے کرداروں کی طرح ایکٹنگ میں مصروف رہتے ہیں۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔ ؟

ہم لوگ سچ سننا نہیں چاہتے، سچ جاننا نہیں چاہتے، سچ دیکھنا نہیں چاہتے یا سچ ہمیں سنایا نہیں جاتا، سچ بتایا نہیں جاتا، سچ دکھایا نہیں جاتا، کچھ نہ کچھ ہمارے ڈی این اے میں پرابلم ضرور ہے۔ جھوٹ سنتے سنتے، جھوٹ دیکھتے دیکھتے، جھوٹی اور لغو باتیں اتنے یقین کے ساتھ سچ سمجھتے ہیں کہ سچ شرمانے پڑ جاتا ہے۔ جھوٹ اتنے سائنسی انداز میں بولا، لکھا اور کہا جاتا ہے کہ سچ تلاش کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ کالا کوٹ جو سچ کی تلاش بلکہ سچ کی حقانیت ثابت کرنے معرض وجود میں آیا تھا، سچ میں اتنی خوبصورت سے ملاوٹ اور معمہ کاری کرتا ہے کہ عدالتیں بھی چکرا کر رہ جاتی ہیں۔

اس لئے کالے کوٹ کا وزن اور تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ انصاف کے راستے مسدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ معاشرے میں تفریق بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لیڈر عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ مخالفین کے گھروں پر دھاوے بولنے، ان کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ریسٹورنٹس پر لڑائی جھگڑے اور سیاسی بحث مباحثہ گالم گلوچ سے نکل کر قتل و غارت تک جا پہنچا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے جھوٹ کو لگام نہیں انصاف میں تاخیر بلکہ نا امیدی صاف نظر آتی ہے۔

شہر مقتل ہیں بنے خون بہے گا ناحق
ہم نے انصاف کو قیدی سا بنا رکھا ہے

ضیاالحق کہ مرد حق کہلاتا تھا، ایک ڈیموکریٹ وزیر اعظم کے عدالتی قتل کا سرخیل مانا جاتا ہے۔ چھوٹی سے بڑی تمام عدالتیں انصاف کی فراہمی میں ناکام رہیں اور انصاف کو فرد واحد کی ناپاک خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ایک اور مرد آہن نے دوسرے ڈیموکریٹ وزیر اعظم کو اپنا طیارہ ہائی جیک کرانے کے جرم میں پھانسی/عمرقید کی سزا دلوائی۔ اپنے اقتدار کو طول دینے عدالت سے بالا بالا اسی ڈیموکریٹ کے ساتھ معاہدہ کیا اور اسے ملک بدر کر دیا۔ بلوچستان کے ایک بڑے لیڈر کو قتل کروا کر اپنے مکے ہوا میں یوں لہرائے جیسے ہندوستان فتح کر لیا ہو۔

2013 کے الیکشن سے پہلے کے سیاسی یتیم کو رنگ برنگے غبارے لگا کر ہوا میں اڑانے کی کوشش کی گئی مگر ایک پرانا سزا یافتہ اور ملک بدر کیا گیا ڈیموکریٹ وزیر اعظم بن بیٹھا تو ذلیل کرنے کو چین سے بیٹھے، کینیڈا کا موسم انجوائے کرتے ایک عالم دین کو لاڈلے کے ساتھ جوڑ کر اسلام آباد پر لشکر کشی کی گئی۔ پارلیمنٹ کو پانچ سال تک بے توقیر کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ ایک بار پھر منتخب وزیراعظم کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور کالے قانون کی کالی ڈکشنری کا سہارا لے کر نااہل کیا گیا۔ جب وہ خود جیل جانے کے لئے۔ زبردستی وطن واپس آیا تو کوشش کی گئی کہ وہ نہ آئے جب وہ آ گیا تو کچھ عرصے بعد ماورائے عدالت اس کو باہر بھیج دیا گیا۔ یہ سارا کچھ ریاست مدینہ کے دعوے دار کے ہاتھوں سرانجام پایا۔

یہ کیسی عدالتیں ہیں، یہ کیسی حکومتیں ہیں، یہ کیسی لیڈر شپ ہے، یہ کیسی عوام ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اب اچانک ہر چیز ڈیموکریٹک ہو گئی ہے۔ راتوں رات لوگ مسلمان ہو گئے ہیں، گناہوں سے توبہ کرلی ہے تو نتیجہ امریکی سازش کی صورت برآمد ہوا ہے۔ امریکی سازش کی راہ میں ایک صدر اور ایک گورنر چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ برطانیہ کے تعلیم یافتہ سرداری کے خواہشمند مجارٹی کو ماننے سے انکاری ہیں اور بار بار امریکہ کو مخاطب کر کے اس کی غلطی منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ کو اپنی غلطی یاد دلانے بیس لاکھ لوگ اسلام آباد بلانے کا حساب کتاب لگائے بیٹھے ہیں۔

ادھر بائیس کروڑ عوام مہنگائی کی بڑھتی غنڈہ گردی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ڈالر بے قابو تو آئی ایم ایف پاؤں پکڑوائے بیٹھی ہے۔ ملک کے ریزروز ختم ہوتے جا رہے ہیں مگر اشرافیہ کو لگام ڈالنے کا کوئی سوچ ہی نہیں رہا۔ سرمایہ دار اور کارخانے دار نئی حکومت کو چونا لگانے کمر کس رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت مشکل فیصلے نہ کرے تو کیا کرے۔ مگر کیا مشکل فیصلے صرف غریب عوام کے لئے ہیں۔ کیا خزانہ صرف پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھانے سے بھرے گا۔ یہ بڑے بڑے سیٹھوں پر ویلتھ ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ یہ بڑی بڑی گاڑیوں کی امپورٹ بند کیوں نہیں کی جا سکتی۔ کتوں بلوں کا فوڈ لوکل نہیں بنایا جاسکتا۔ بیگمات کچھ عرصہ امپورٹڈ میک اپ کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ کیا اٹالین کپڑوں اور جوتوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments