ماہر بیویات


دنیا کے اکثر ممالک میں ماہر نفسیات، ماہر تعلقات، ماہر معاشیات وغیرہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک واحد ملک ہے جہاں ماہر بیویات موجود ہیں جو آپ کو ہر قسم کے طبی و غیر طبی، لڑائی و غیر لڑائی، محبت و غیر محبت، ساس بہو، خاوند کو بیوی قابو کرنے کے مشورے بالکل مفت دیتے نظر آتے ہیں۔

ویسے تو ایسے ماہر ہر گھر میں اور چوک میں نظر آتے ہیں لیکن بقول جام صاحب ماہر بیویات بننے کے لیے بیوی سے لتر کھانا ضروری ہے وگرنہ وہ درد، آگہی اور شعور کی لے جو کہ ماہر بیویات بننے کے لیے ضروری ہے وہ آپ میں پیدا نہیں ہوتی۔ پورا معاشرہ خود زن مریدی کا اسیر ہے مگر دوسروں کو ہمیشہ اس کام سے پرہیز کرنے کا درس دیتا ہے کیونکہ ہمارے لوگ کسی کی زندگی میں سکون، امن و آشتی کو دیکھ نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں اگر طنز و مزاح کی صنف کو اٹھا کر دیکھیں تو تقریباً 99.99 فیصد کام اور طنز بیوی پر ہی کیا گیا ہے۔ لگتا ہے شاعر کے پاس کوئی اور موضوع ہی نہیں جس پر کچھ لکھا جا سکے۔

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
ہوا ہے ابھی اس کی شادی کو ہفتہ
اسے بھول جاؤ گے تم رفتہ رفتہ

لوگوں نے علامہ اقبالؔ کا شکوہ اور جواب شکوہ کو بھی شوہر کا شکوہ اور بیوی کا جواب شکوہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ کریں :

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں

آج کل ایک ابھرتے ہوئے نثر نگار جو کہ مزاح میں طبع آزمائی کر رہے ہیں تقریباً چھ، سات کالم صرف ”زن مریدی کے اسباب، علامات اور بچاؤ کے طریقوں“ پر لکھ چکے ہیں۔ بندہ ان کی سیر حاصل بحث پڑھ کر خوب اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کافی تجربہ کار اور منجھے ہوئے زن مرید ہیں لیکن قوم کو الٹی پٹی پڑھاتے نظر آتے ہیں۔ زن مریدی، ماہر بیویات کا خاص موضوع ہے جب ہم اس کی تفصیل میں جاتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہر بندہ یہاں زن مرید ہے جو بھی اپنی بیوی سے اچھے طریقے سے بات کرتا ہے اور پیش آتا ہے۔

بقول ماہر بیویات ”عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنا چاہیے اور سر پر چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر یہ بلا سر پر چڑھ گئی تو ساری زندگی اترنے کی نہیں ہے“ ۔ اس لیے جب بھی آپ اپنی بیوی سے بات کریں اس میں غصہ، گونج اور گالیاں ضرور شامل کر لیں، اس سے مرد کی شان بڑھتی ہے اور آپ بیوی کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ ماہر بیویات ہمیشہ بیوی اور ماں کا تقابل کرتے رہتے ہیں حالانکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور بیوی سے گھر جنت بن سکتا ہے۔

نہ ہمیں دنیا کو جہنم بنانا ہے اور نہ ہی آخرت میں جہنم میں جانا ہے۔ اس لیے ہم نے دونوں کو اچھے طریقے سے لے کر چلنا ہے کیونکہ دونوں ہستیوں کے کردار اور تعلق مختلف ہیں اس لیے ان کا آپس میں مقابلہ نہیں کرنا اور دونوں کو ان کی جگہ پر رکھنا ہے لیکن ماہر بیویات، بیوی کو قدموں تلے رکھنے کا مشورہ دیں گے حالانکہ بیوی کی جگہ کندھے کے ساتھ آپ کا سینہ ہونا چاہیے اور خود وہ اپنی بیویوں کو اپنے سینے کے ساتھ رکھتے ہیں۔

ماں اور بیوی کی جگہ، کردار اور تعلق مختلف ہے اس لیے ان کا مقابلہ کرنا فضول ہے۔ آپ میرے خیالات پڑھ کر آسانی سے مجھے ”ماہر زن مریدی“ کا خطاب دے سکتے ہیں۔ مجھے زن مرید کہلانے میں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میری ماں بھی تو عورت ہے میری بیٹی، بہن بھی تو عورت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عورت انسان ہے میری طرح جس کے پاس ایک پیار کرنے والا دل ہے، سوچنے والا دماغ ہے اور جذبات ہیں، اس کو کم تر کیسے مان لے، اس لیے میں زن مرید ہی سہی لیکن اسی زن مریدی کے ذریعے میں نے اپنی زندگی جنت بنا لی ہے اگر آپ بھی اپنی زندگی جنت بنانا چاہتے ہیں تو اپنی بیوی کو قدموں سے نکال کر اپنے پہلو میں سینے کے ساتھ جگہ دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments