سانپ کی دم، جس نے بلاؤں کو روک رکھا ہے


کار تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ ایک مرتبہ پھر ہم کوپن ہیگن کی ایک جیسی قدیم عمارتوں کے درمیان چلے جا رہے تھے۔ کوپن ہیگن میں جدید اور ماڈرن عمارتیں بہت کم ہیں۔ جس جانب نظر اٹھاؤ، سرخ اینٹوں سے بنی مخصوص طرز تعمیر کی حامل چار پانچ منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگ کا راج ہے۔ جو ڈیڑھ دو سو برس قبل تعمیر ہوئی تھیں۔

ان کے آبا و اجداد نے اتنی تعمیرات کر دی تھیں کہ موجودہ نسلوں کو اس ضمن میں بہت کم تردد کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر اس قوم کی آبادی میں بھی اضافہ نہیں ہوتا کہ انہیں مزید انفراسٹرکچر کی ضرورت محسوس ہو۔ یوں ان کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہی ہیں۔

یہ قدیم عمارتیں ڈیڑھ دو سو برس پرانی ہونے کے باوجود پائیدار اور اندر سے جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ مگر ایک سیاح کی حیثیت سے یہ عمارات دیکھ کر مجھے شہر قرون وسطیٰ کے دور کا لگتا تھا۔ خاص طور پر بنکاک، ٹوکیو، سنگاپور، سڈنی اور دوحہ کے مقابلے میں یہ آثار قدیمہ محسوس ہوتا تھا۔

ان عمارات سے وہ امارت اور خوش حالی ظاہر نہیں ہوتی تھی جو انہیں حاصل ہے۔ مگر یہ قوم اپنے ماضی، اپنے مشاہیر اور اپنے آبا و اجداد پر فخر کرتی ہے اور ان کی روایات کو سینے سے لگا کر مسرت و افتخار محسوس کرتی ہے۔

مکانات اور عمارات کے علاوہ اسکینڈے نیویا میں گاڑیاں بھی چھوٹی اور قدرے پرانے ماڈل کی مستعمل ہیں۔ جاپان کی سڑکوں پر تو چار برس پرانی گاڑی کم ہی نظر آتی ہے۔ جبکہ دوحہ میں دنیا کی گراں ترین اور بہت بڑی بڑی گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔

آسٹریلیا میں بھی ان دنوں بڑی اور فور وہیل گاڑیوں کا رواج عام ہے۔ جبکہ یورپ میں چھوٹی اور عام کاریں زیادہ نظر آتی ہیں۔ شاید یہ رجحان اور رواج کی بات ہے کہ یہ لوگ مہنگی اور لگژری کاروں پر پیسہ خرچ کرنے کے قائل نہیں ہیں۔

عوامی ٹرانسپورٹ عام اور ارزاں ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ بہر حال یہ میرا ذاتی تاثر ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ میرے چند میزبانوں کے پاس انتہائی مہنگی اور لگژری کاریں بھی تھیں۔ ویسے بھی سیاح جتنا بھی عمیق نظر ہو اس کا تجربہ و مشاہدہ محدود ہوتا ہے۔ جو چیزیں اس کے لیے نئی اور انوکھی ہوتی ہیں، مقامی افراد کے لیے عام اور معمول کی شے ہوتی ہیں۔ ہر شخص کی فکر و نظر کا دائرہ الگ ہوتا ہے۔

شہر کے قدیم اور تاریخی حصہ میں ڈرائیو کے دوران میری نظر ایک بار پھر اس عمارت پر پڑی جیسے دیکھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

سمندر کے کنارے استادہ یہ عمارت انتہائی قدیم، عظیم اور انتہائی شاندار لگتی ہے۔ میرے کہنے پر راجہ غفور نے کار روک دی اور بولے، ” ویسے یہاں گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔“
وہاں چند گاڑیاں پہلے سے کھڑی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔

ایک صاحب کار چلاتے ہوئے شہر کے اس حصہ میں پہنچے جہاں پارکنگ مشکل سے ملتی تھی۔ ایک جگہ گاڑیاں پارک دیکھ کر انہوں نے کار روکی، اور وہاں موجود ٹریفک کانسٹیبل سے پوچھا:

” کیا میں یہاں کار پارک کر سکتا ہوں؟“
کانسٹیبل نے کہا۔ ”نہیں جناب، یہاں پارکنگ کی اجازت نہیں ہے۔“
”مگر یہاں پہلے ہی اتنی گاڑیاں کھڑی ہیں۔“
کانسٹیبل نے معصومیت سے جواب دیا۔
”انہوں نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں۔“

راجہ غفور لطیفہ سن کر ہنسے اور بولے۔ ”یہاں پوچھنے اور بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ پارکنگ اور نو پارکنگ کے سائن موجود ہوتے ہیں اور غلط پارکنگ پر جرمانہ ہو جاتا ہے۔“

مذکورہ قدیم اور طویل و عریض عمارت پرانا اسٹاک ایکسچینج ہے۔

اس کا شمار کوپن ہیگن کی قدیم ترین عمارات میں ہوتا ہے۔ بادشاہ کرسچن چہارم نے جب ملک کے لیے تجارت و حرفت کو اہم سمجھا تو 1625ء میں اس عمارت کی بنیاد رکھی۔ اس میں چالیس بڑے اسٹال لگانے اور خرید و فروخت کرنے، اسٹاک جمع کرنے کی گنجائش تھی۔ اس وقت یہ عمارت تین اطراف سے سمندر میں گھری تھی تاکہ بحری جہاز براہ راست سامان تجارت پہنچا اور لے جا سکیں۔

اب اس کے سامنے سمندر اور تین اطراف میں عمارتیں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ قدیم ولندیزی طرز تعمیر کی حامل اس عمارت کی چھت شروع میں سیسے (Lead) کی تھی۔

1658ء میں جب سویڈن نے ڈنمارک پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہ قیمتی سیسہ اتار کر اپنی توپوں کے گولوں کے لیے استعمال کر لیا۔ فاتحین اپنے مفتوحات کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں۔ اس اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں ہونے والے چھت کے چھیدوں کو ٹین اور ٹائلوں سے ڈھانپ دیا گیا۔

اس عمارت پر بنے بلند مینار پر تین ڈریگن (سانپ) اس طرح لپٹے ہیں کہ مینار کی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ایک دم بن جاتی ہے۔

یہ تین سانپ اسکینڈے نیویا کے تین پڑوسی ملکوں ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اس ڈریگن کی دم کے بارے میں مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اس عمارت کو جملہ بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔

اس کی دلیل میں بتایا جاتا ہے کہ اس عمارت اور اس کے گرد و نواح میں متعدد بار خطرناک آگ بھڑک اٹھی مگر سانپ کی اس دم نے اس عمارت کو بچائے رکھا جبکہ آگ نے قریبی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسی علاقہ میں واقع کرسچن بورگ پیلس (موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت) کئی دفعہ جل کر خاک ہو چکی ہے۔ سب سے آخری آتشزدگی 1990ء میں ہوئی جس نے اس علاقے کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا مگر سانپ کی دم کی وجہ سے یہ عمارت آتشزدگی سے محفوظ رہی۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگ ٹونے، ٹوٹکے، پراندے، بابے، تعویذ، گنڈے، گمنام قبروں پر نذر و نیاز، درختوں پر ٹنگے رنگ برنگے جھنڈے، جھاڑ پھونک اور دیگر شعبدوں کے ذریعے گھر اور کاروبار کو محفوظ و مامون بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپی اقوام ہزار ترقی یافتہ ہونے کے باوجود توہم پرستی اور ضعف اقتصادی میں ہم سے پیچھے نہیں ہیں۔

کبھی تو وہ تصوراتی سمندری مخلوق کو ادب، فن، مصوری کے ذریعے روبہ نمائش کر کے غیر ماورائی مخلوق پر ایمان و اعتقاد کا اظہار کرتے، بلکہ اسے معاشی حاجت روائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ کبھی صدیوں پرانے قلعے کے تہہ خانے میں پوشیدہ ہو گا ڈانسک کو قومی نجات دہندہ قرار دیتے ہیں اور کہیں سانپ کی دم سے اپنی اہم عمارتوں کے محفوظ و مامون کا کام لیتے ہیں۔

ان سب کے باوجود اہل مغرب ہم سے بہت پیچھے ہیں، کیونکہ ہمارا تو نظام ہی فکر و عمل پر نہیں بلکہ تعویذ، گنڈوں اور عملیات پر استوار ہے۔ حتیٰ کہ حکومت چلانے کے لیے بھی وزیر با تدبیر کے بجائے پیر با تعویذ کا سہارا مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کاروبار شروع کرنا ہو، نئی گاڑی سڑک پر لانی ہو، دکان کھولنی ہو۔ حتیٰ کہ قومی ائرلائن کے نئے جہاز کو اڑانا ہو تو دافع بلا کے لیے کالا بکرا ذبح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی سکہ بند پیر کے تعویذوں کی حاجت ہوتی ہے۔ دکان، گاڑی، بس، ٹرک اور ٹریکٹر پر نظر بد سے بچاؤ کے لیے رنگین پراندے، پرندوں کے پر، جانوروں کی دم کے بال اور جلنے والے کا منہ کالا جیسے اشعار کی ضرورت پڑتی ہے۔ بس، ٹرک، رکشے پر آیات کریمہ اور دعائے سفر درج کرائی جاتی ہے۔ صدقہ خیرات کیا جاتا ہے۔ مزاروں پر چڑھاوے اور نذر و نیاز دی جاتی ہے۔

یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بس یا ٹرک، ٹیکسی یا رکشہ ایسے ڈرائیور کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہونا ضروری نہیں،

جو چرس کے سوٹے لگا کر نیند بھگاتا ہو، جو ٹریفک کے قوانین سے بے خبر ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمانداری، سچائی، درست ناپ تول اور کھرا مال بیچنے کے بجائے ان تعویذوں، عملیات اور چڑھاوں سے کاروبار میں برکت اور ترقی لائی جاتی ہے۔

گھریلو، کاروباری اور ملکی ترقی کے لیے جو نسخہ ٔ کیمیا ہمارے پاس ہے، وہ دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں۔ یہ اہل جہاں فضول میں محنت، جفا کشی، ایمانداری، راست بازی، عقل و تدبیر اور منصوبہ بندی کا طویل اور جانگسل راستہ اپناتے ہیں۔ اگر انہیں کامیابی و کامرانی کے ان شارٹ کٹ اور تیر بہدف نسخوں کا علم ہو جائے تو محنت اور جفاکشی کے بغیر راتوں رات دولت مند بن سکتے ہیں۔ مگر یہ ان کے نصیب میں نہیں۔

(یہ مضمون مصنف کی کتاب ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ سے اخذ کیا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments